زرخرید طوطے!

اثر میواتی ولدبے اثر تریاقی اس وقت میرے پاس بیٹھا ہے اور اپنے طوطوں کے بارے میں بتا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس کچھ طوطے ہیں جو بہت باکمال ہیں، تاہم وہ ان میں سے کچھ سے بہت خوش اور کچھ سے بہت ناراض ہے۔ وہ مجھ سے ان کی رہائش کے بارے میں مشورہ کرنے آیا ہے۔ فی الحال اس نے یہ طوطے اپنے گھر کے صحن میں ان کی ٹانگوں کے ساتھ مضبوط دھاگہ باندھ کر کھلے چھوڑے ہوئے ہیں دھاگے کا دوسرا سرا درخت کے ساتھ باندھا ہوا ہے۔ ان میں سے جب کوئی غلامی کی یہ زنجیر توڑنے کی کوشش کرتا ہے وہ ایک جھٹکے کے ساتھ خود بخود واپس آ جاتا ہے۔ ان میں سے دو تین بڑے اکھڑ قسم کے طوطے ہیں وہ آزادی کی اس جدوجہد میں اپنی ٹانگ بھی تڑوا بیٹھے ہیں۔ کئی ایک کی ریڑھ کی ہڈی کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اثر میواتی کا خیال ہے کہ سب طوطوں کے لیے ایک پنجرہ بناکر انہیں اس میں رکھنا چاہئے جبکہ میں نے اسے مشورہ دیا ہے کہ وہ ایسا نہ کرے بلکہ اس کےبجائے ان کی ٹانگوں کو موٹے دھاگے کی جگہ نہایت باریک مگر تیز دھار والی ڈور یا کسی باریک سی تار کے ساتھ باندھ دیا جائے۔ اس سے دیکھنے والوں کو پر تاثر یہ جائے گا کہ پرندوں پر کسی قسم کی پابندی نہیں بلکہ انہیںہر طرح کی سرگرمی کی اجازت ہے۔ چنانچہ اگر قومی یا بین الاقوامی محکمہ انسدادِ بے رحمی حیوانات والے خود آکر بھی دیکھنا چاہیں گےتو وہ دیکھ سکتے ہیں اور یوں انہیں یہ تاثر ملے گا کہ ان طوطوں کو قید نہیں رکھا گیا بلکہ یہ اپنی مرضی سے اپنی اڑانیں بھولے ہوئے ہیں۔

میں نے اثر میواتی کو یہ تجویز بھی پیش کی کہ وہ چار عدد حنوط شدہ بلیاں یا کتے لے کر اسے چاروں کونوں کے درختوں پر اس زاویے سے رکھ دے جیسے وہ ان طوطوں پر جھپٹنے کی تیاری کر رہے ہوں۔ اس سے فائدہ یہ ہو گا کہ اکھڑ قسم کے طوطے بھی اس حنوط شدہ جانور کی دہشت سے اڑنے کی کوشش نہیں کریں گے تاہم اثر میواتی کو میری اس تجویز سے اتفاق نہیں اس حوالے سے میرے اور اس کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ یوں تھی۔

میں تمہاری اس تجویز سے متفق نہیں ہوں۔

کیوں متفق نہیں ہو؟

اس لیے کہ میرے ہاتھ میں لاٹھی ہے اور تم میری بھینس ہو۔۔۔میرا خیال ہے تم ٹھیک کہتے ہو ویسے تمہارے ذہن میں طوطوں کی رہائش کے حوالے سے کیا پروگرام ہے؟

میں انہیں مختلف پنجروں میں رکھنا چاہتا ہوں۔

اس سے تمہیں کیا فائدہ ہو گا؟

بہت فائدہ ہوگا، یہ سب بولنے والے طوطے ہیں، میں انہیں مختلف جملے رٹا کر مختلف پنجروں میں بند کروں گا اور پھر عالمی مبصرین کو دعوت دوں گا کہ وہ آئیں اور خود دیکھیں کہ ہمارے ملک کے طوطوں کی سوچ کیا ہے۔ کچھ طوطے میں نے ٹرینڈ بھی کر دئیے ہیں چنانچہ ایک طوطا ہر وقت کرپشن کرپشن کہتا رہتا ہے، ایک طوطا کہتا ہے جمہوریت غیر اسلامی نظام ہے، ایک طوطے کو میں نے کچھ سیاسی لیڈروں کے نام سکھائے ہیں وہ ہر وقت ان کو گالیاں دیتا رہتا ہے۔ ایک طوطے کو میں نے صرف زندہ باد کا لفظ سکھایا ہے،میں اسے ہر آنے والے کا نام بتائوں گا اور وہ زندہ باد کے نعرے لگانے لگے گا۔

لیکن فائدہ؟

فائدہ وائدہ کچھ نہیں، مجھے ان طوطوں کے ذریعے دل کا غبار نکالنا ہے یا کچھ لوگوں کو بتانا ہے کہ اثر میواتی بڑے کام کا آدمی ہے۔

میں کچھ سمجھا نہیں۔

تم سمجھو گے بھی نہیں اگر تم لوگ یہ باتیں سمجھنے لگ جائو تو پھر ہمارے طوطے ہمارے کام کے نہیں رہیں گے۔

یہ تو تم ٹھیک کہتے ہو مگر میری رائے اب بھی یہی ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تمہیں طوطوں کو بظاہر آزاد فضا مہیا کرنی ہو گی وگرنہ دیکھنے والے تو یہی کہیں گے کہ پنجروں میں بند طوطے اپنے آقا کی بولی بول رہے ہیں۔

تم واقعی میری بھینس ہو عقل تو تمہارے قریب سے بھی نہیں گزری، بے وقوف انسان میں اگر ان طوطوں کا آقا ہوں تو میرا بھی کوئی آقا ہے، جس آقا نے مجھے اپنا غلام بنایا ہوا ہے وہ چاہتا ہے کہ مجھ میں بھی کسی کو غلام بنانے کی صلاحیت ہو ورنہ میرے آقا کے مقاصد پورے نہیں ہوں گے اس کیلئے اثر میواتی ہونا ضروری ہے۔

تمہارے آقا کے مقاصد کیا ہیں؟

اگر تم میرے آقا کے مقاصد جاننا چاہتے ہو تو کسی روز اکیلے میرے پاس آئو اپنی عقل اور ضمیر ساتھ لے کر نہ آنا۔ اثر میواتی تمہیں کچھ طوطوں کا باس بنائے گا اور پھر تم خود بھی چھوٹے موٹے اثر میواتی بن جائو گے۔ اس کے ساتھ ہی بڑے آقا کے مقاصد تمہیں سمجھا دیے جائیں گے۔ بولو کس دن آ سکتے ہو؟

آ تو جائوں گا مگر ملے گا کیا؟

بے وقوف آدمی، ہر نئی حکومت میںحصہ ملے گا جو تمہاری وساطت اور تمہارے صاحب کے مشورے سے بنے گی۔

اچھا تو کیا ابھی کچھ نہیںمل سکتا؟

بہ جا آرام نال وڈا کاہلہ!