مسجد نبویؐ کو ڈی چوک نہ بنائیں

مجھے یاد ہے کہ 1987ء میں جب پہلی بارعمرے پر جانے سے قبل گھر کے ٹی وی لائونج میں یونہی بیٹھے بیٹھے ٹی وی آن کیا تو وہاں غلام فرید صابری مرحوم ’’تاجدارِ حرم‘‘ والی قوالی وجد آفرینی کیفیت کے ساتھ گا رہے تھے۔

اللہ جانے کیا ہوا کہ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور اپنی اس کیفیت پر قابو پانے میں مجھے کافی دیر لگی اب آپ خود اندازہ لگالیں کہ جب میں حضورؐ کی خدمت میں پیش ہوا ہوں گا تو وہاں میری کیا حالت ہوئی ہو گی۔

نماز کے دوران میں میری یہی کیفیت تھی، میری کیفیت دیکھ کر میرے دوست حیران ہو رہے تھے کہ یہ شخص عام زندگی میں سیکولر سا نظر آتا ہے اسے کیا ہو گیا ہے مگر انہیں شاید علم نہیں ہے خواہ کچھ بھی ہو حضور ؐ کی محبت دلوں سے کوئی نہیں نکال سکتا۔

بہت عرصہ پہلے ایک پاکستانی روضہ مبارک کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا تھا اور زاروقطار رو رہا تھا بعد میں ایک عرب نے جس نے اس پاکستانی کی کیفیت دیکھی تھی، اس سے پوچھا کہ تم لوگوں کو یہاں آکر کیا ہو جاتا ہے عبادات اور زاروقطار رونے میں مشغول رہتے ہو؟

اس پاکستانی نے جواب دیا تم یہاں کے رہائشی اس کیفیت کو نہیں سمجھ سکتے ہمارا غریب سے غریب شخص بھی ساری عمر پیسے ’’جوڑتا‘‘ رہتا ہے کہ وہ عمرہ یا حج ضرور کرے گا اور جب بالآخر اسے حاضری کا موقع ملتا ہے تو اس کے آنسوئوں کا سیلاب روکے نہیں رکتا۔

آج کیلیگری، کینیڈا سے میرے محترم دوست ڈاکٹر حفیظ چشتی نے میرے واٹس ایپ پر جو رُودادسنائی وہ بھی اسی کیفیت کے حوالے سے تھی ۔وہ مسجد نبویؐ کی حالیہ بے حرمتی پر بے حد آزردہ تھے۔

انہوں نے لکھا نجانے یہ میرے حال ہی میں عمرہ کرنے کا اثر ہے یا پس منظر کا کہ میں ذاتی طور پر توہینِ مسجد نبوی ؐ پر ایک بڑے کرب سے گزرا ہوں ،سینکڑوں لوگوں نے مجھ سے عمرے کے تجربے کے بارے پوچھا مگر سب جانتے ہیں کہ میں نے ’’آئیں بائیں شائیں‘‘ ہی کی کیونکہ جو میں نے وہاں محسوس کیا وہ میں بتا ہی نہیں سکتا۔

آج بھی اسے بتاتے ہوئے میری آواز روہانسی ہو جاتی ہے۔ فقط ایک بات آج یہاں بتا دوں کہ جب ٹیکسی نے ہوٹل کے دروازے پر اتارا تو سامنے مسجد نبویؐ تھی میں نے زندگی میں ایسا خوبصورت کوئی منظر کوئی ایسی خوبصورت جگہ ہی نہیں دیکھی تھی ۔

سوئٹرز لینڈ کی جھیلیں اور پہاڑ اس خوبصورتی کے سامنے کچھ بھی نہیں ۔ہر طرف ایک ایسا نور برس رہا تھا کہ مجھ جیسا سیکولر شخص مکمل طور پربے خود ہو کر ہاتھ باندھے سر جھکائے کتنی دیر کھڑا رہا اور پھر وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا۔

دل میں کراہنے لگا اور اپنے آپ سے باربار یہی پوچھنے لگا کہ میں ہوں کون؟ جہاں منہ سے صرف درود وسلام نکلتا ہو، جہاں قدم رکھنے کے بھی آداب ہوں جہاں آواز بھی حد کی پابند ہو جہاں صبح وشام فرشتے درود بھیجتے ہوں اور جہاں بڑے بڑے گنہگار کا سر اوپر نہ اٹھ سکتا ہو وہاں جو ہوا وہ فقط رونے کا مقام ہی نہیں اس سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

سرکاردوعالمؐ کی بارگاہ میں سارے ولی اور فرشتے ہی نہیں ہم ایسے خطاکار بھی جاتے ہیں ان کی کملی میں پناہ لینے!وہ مقام سیاست کا نہیں شفاعت کا ہے ۔سرورکونینؐ کے مہمانوں کو گالم گلوچ اور ان کے بال کھینچنا ،وہ کون خائن تھے جنہوں نے اپنے گناہ بھول کر دوسروں کی خطائیں اچھالنے کی منصوبہ بندی کی؟

مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ پی ٹی آئی کے حامیوں کی اکثریت نے بھی اس دلخراش واقعہ کی مذمت کی، چنانچہ سوشل میڈیا لوگوں کے غیظ وغضب سے بھرا ہوا ہے مگر ایک بہت کم تعدادمیں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اس سانحہ کی حمایت تو نہیں کر سکتے لیکن ’’اگر مگر‘‘کے ساتھ کہتے وہی ہیں جو ان کے ساتھیوں نے کیا ہے ان میں میرے عزیز دوست بھی ہیں حیرت انگیز طور پر وہ بہت دیندار بھی ہیں مگر لگتا ہے۔

انہوں نے پی ٹی آئی کو مذہب کے طور پر قبول کر لیا ہے یہ بہت خطرناک علامت ہے اب اگر کل کلاں مسجد نبوی ؐ میں پی ٹی آئی کے رہنمائوں کے خلاف نعرے لگیں اور اتفاق سے ان میں سے کوئی مسجد نبوی کو آ نکلے اور چالیس پچاس غنڈے اس کو گھیرے میں لیکر گالم گلوچ کریں اور اس کے بال کھینچیں تو سوچیں یہ سلسلہ کہا جاکر رکے گا؟

دوسری طرف اس سانحہ کے دوران یہ منظر بھی دیکھنے میں آیا کہ جس جماعت کے خلاف گالم گلوچ کی جا رہی تھی اس کی ایک وزیر مریم اورنگزیب کو گندے ناموں سے پکارا جا رہاتھا اور مریم اس کے جواب میں دعائیں مانگتی رہی ۔

دونوں جماعتوں میں کلچر کا یہ بہت بڑا فرق ہے میری خواہش ہے کہ پی ٹی آئی من حیث الجماعت اپنی حرکت پر توبہ استغفار کرے، مسجد نبویؐ کو ڈی چوک نہ بنائے، ورنہ اللہ بہترین بدلہ لینے والا ہے !