دبئی نہیں شارجہ !

دبئی سے برادرم کاشف محمود کا فون آیا کہ آپ کچھ دن کے لئے دبئی آ جائیں،تبدیلی، آب وہواہو جائے گی ،بندہ تو ایسے کاموں کےلئے بہانہ تلاش کر رہا ہوتا ہے ۔چنانچہ ٹکٹ آ گئی اور میں دبئی پہنچ گیا جہاں کاشف محمود کچھ دوسرے دوستوں کے ساتھ گلدستہ لئے استقبال کے لئے کھڑے تھے۔ ہوٹل رمادہ میں بکنگ تھی قمر ریاض کو میری دبئی آمد کا پتہ چلا تو وہ مسقط سے برادرم امیر حمزہ کے ہمراہ میرے پاس چلے آئے ۔احسان شاہد کو لندن اطلاع ملی تو ان کا فون آیا میں بھی آ رہا ہوں چنانچہ اگلی فلائٹ پر وہ بھی دبئی پہنچ گئے ۔عزیز احمد حسب معمول اس سفر میں بھی میرے ہمراہ تھے ادھر لاہور سے فرخ شہباز وڑائچ پہلے سے دبئی میں موجود تھے۔ فرخ ایک انتہائی باصلاحیت نوجوان صحافی ہے اور یوں دوبئی میں ایک غیر رسمی ’’بین الاقوامی اجتماع‘‘ وجود میں آ گیا ۔اور یہ 31دسمبر کی ر ات تھی جب مختلف ملکوں کی یہ’’ گرانقدر ‘‘شخصیات دبئی کے برج خلیفہ کے قرب وجوار میں سڑک کے کنارے کھڑی اپنی کاروں میں براجمان تھیں ۔جونہی رات کے بارہ بجے اور نیو ایئر (2022) کا آغاز ہوا ۔برج خلیفہ لیزر لائٹس سے روشنیوں میں نہا گیا ۔رنگوں کی آبشار یں تھیں ،رنگوں کےغبارے تھے اور رنگوں سے طرح طرح کے امیجز تشکیل دیئے جا رہے تھے۔ یہ ’’رنگ بازی ‘‘ ایک گھنٹے تک جاری رہی اور سڑکوں پر کھڑے ہزاروں لوگ ایک دوسرے سے کسی تعارف کے بغیر ایک دوسرے کو ہیپی نیو ایئر کہتے رہے ۔کچھ لوگ کچھ لوگوں سے گلے بھی ملنا چاہتے تھے لیکن اس کے رستے میں دو طرفہ رضامندی کی شرط آڑے آئی۔ برج خلیفہ آمد سے پہلے ہم نے ہوٹل کے کمرے میں نیو ایئر کا کیک کاٹا، احسان شاہد کے لائے ہوئے ہیٹ ہم نے برج خلیفہ کے باہر نیو ایئر کو خوش آمد کہتے ہوئے پہن رکھے تھے اور اللّٰہ کو جان دینی ہے مسخرے لگ رہے تھے ۔

دبئی میں ہم ’’بین الاقوامی مندوبین ‘‘ کو ہاتھوں ہاتھ لینے والے محمد غوث قادری، کاشف محمود اور عامر بشیر تھے ۔غوث قادری صاحب سے میری یہ دوسری ملاقات تھی ،نوجوان آدمی ہیں چہرے پر مناسب سائز کی داڑھی ہے رنگ سانولا ہے بال نہیں ’’بودے‘‘ بنا کے رکھے ہیں اور ایک خوبصورت مسکراہٹ ہر وقت ان کے چہرے پر رہتی ہے ۔نواز شریف کے جیالے ہیں ان سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں انہوں نے مہمانوں کے اعزاز میں دو ’’تگڑے‘‘ قسم کے ظہرانوں کا اہتمام کیا جس میں آزاد تبسم ایم پی اے، پال صاحب، عامر بشیرصاحب اور دوسرے دوستوں سے گپ شپ کا موقع ملا۔بات پاکستان کی ہوتی رہی اور پوری درد مندی سے دوستوں نے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے بہت اہم سوال اٹھائے ۔اور ہاں یہ کیسے ممکن تھا کہ قمر ریاض جیسا ’’مناتنا‘‘ اور احسان شاہد جیسے معروف شاعر اور عزیر احمد ایسے ارتجالی شاعر کسی محفل میں موجود ہوں اور وہاں مشاعرہ نہ ہو۔چنانچہ مشاعرہ ہوا اور بھرپور مشاعرہ ہوا جس میں ‘‘شامل باجے‘‘ کے طور پر میں نے بھی شرکت کی۔اور ہم سب کی دبئی میں وجہ آمد تو اپنے کاشف محمود تھے ۔سو پہلا ظہرانہ تو ان کی طرف تھا، برادرم غوث قادری کی کار اور ڈرائیور تمام عرصہ قیام کے دوران چوبیس گھنٹے ہمارے ’’زیرِ دام‘‘ رہے ۔چنانچہ کاشف کے خوبصورت گھر پہنچے تو لگا کہ اپنی فیملی کے درمیان آ گئے ہیں ۔ان کے محترم والد صاحب بہن بھائی ،بچے ہم سب کے درمیان تھے دوسال قبل جب دبئی جانا ہوا تھا تو کاشف کے ظہرانے میں میرے ہمراہ آئے ہوئے دوست تو کھانے میں شریک ہوئے مگر میں طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے کار ہی میں بیٹھا رہا جس پر میں انتہائی شرمندہ تھا چنانچہ اس شرمندگی کو دور کرنے کے لئے میں نے بے شرمی کی حد تک کھانے پر ہاتھ صاف کیا۔ایک ناشتہ امریکن ہسپتال دبئی کے نامور ڈاکٹر معید صاحب کی طرف سے تھا، وہ میرے دوچار مداحوں میں سے ایک ہیں، باقی دو چار میں نے اپنی عزت رکھنے کے لئے کہا ہے ۔میں تو ادب سے ان کی دلچسپی دیکھ کر حیران ہوتا رہا مگر اس حیرانی کے دوران ہی ناشتے سے غافل نہیں رہا ۔انہوں نے شیلف میں سے میری کتاب ’’مجموعہ‘‘ نکالی اس پر میرے دستخط لئے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے ۔فیملی کے ساتھ فوٹو سیشن بھی ہوا ان کی اہلیہ بھی ڈاکٹر ہیں ،اگر میاں بیوی دونوں ڈاکٹر ہوں تو ان کے درمیان لڑائی حفظانِ صحت کے کسی اصول کے حوالے ہی سے ہو سکتی ہے ۔احسان شاہد واپس لندن جانے کی بجائے، ملتان کی فلائٹ پکڑ کر اپنے ’’گائوں‘‘ میاں چنوں پہنچ گئے ۔جان برادر قمر ریاض ،امیر حمزہ اور ان کے چھوٹے بھائی عامرکے ساتھ بذریعہ مسقط روانہ ہو گئے، باقی رہ گئے تین، فرخ شہباز وڑائچ دبئی ہی میں رک گئے اور میں واپس لاہور کے لئے روانہ ہوگیا ۔عزیز احمد طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے مزید تین دن دبئی ہی میں رک گئے اور ان تین دنوں میں غوث قادری صاحب نے انہیں جتنی محبت دی اور عامر بشیر نیز کاشف محمود نے ان کا جتنا خیال رکھا بقول عزیز احمد وہ یہ محبتیں کبھی نہیں بھول سکتا۔ایک بات اور،دبئی میں قیام کے دوران شیخ قمر ریاض اور اعلیٰ درجے کے ’’اداکار‘‘ احسان شاہد نے جو محفل آرائی کی وہ بھی اس سفر کو یادگار بنانے والی تھی۔

پس پشت :میں نے کالم میں جہاں جہاں دبئی کا ذکر کیا ہے سوائے ہوٹل کے با قی تمام ’’وارداتیں ‘‘ شارجہ کی ہیں ،جو دبئی کی بغل میں واقع ہے کالم پڑھتے وقت آپ لوکیشن کا خود خیال رکھیں۔