معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
احسان فراموشی کی انتہا
وہ محض باتیں تھیں کہ مجھے حکومت اور سیاست کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں آرام سے باہر جاکر مزے کی زندگی گزار سکتا ہوں۔ اُن کے بیانات، اعمال اور رویے غرض ہر حرکت سے واضح ہو گیا کہ اقتدار اُنہیں ہر شےسے زیادہ عزیز ہے۔ اصول پرستی تو کیا ان کی انا پرستی بھی جعلی نکلی۔
جو کل تک مونس الٰہی کو وزیر بنانے پر تیار نہ تھے، انتہائی علیل چوہدری شجاعت کی عیادت کیلئے جانے پر تیار نہ تھے، آج اُن کے گھر جا پہنچے۔ بہادر آباد ایسے باادب حاضر ہوئے جیسے کسی دربار پر حاضری دے رہے ہوں۔
آصف علی زرداری کے سابقہ شہباز گِل، ذوالفقار مرزا کے فلیٹ پر بھی حاضری دی۔
کوئٹہ میں پڑی میتوں کے بارے میں سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تک کہہ ڈالا تھا کہ میں بلیک میل نہیں ہوں گا لیکن آج اپنے اتحادیوں اور ایم این ایز سب سے بلیک میل ہو گئے۔ وہ اپنے ایم این ایز کو بھی بلیک میل کررہے ہیں، میڈیا کو بھی، عدلیہ کو بھی اور فوج کو بھی۔ وہ اب اقتدار کے تحفظ کے لیے آئین شکنی پر مائل ہو چکے ہیں اور خوفزدہ اسپیکر سے کھلی آئین شکنی کروائی۔ خود غرضی کی انتہا یہ ہے کہ اب اپنے اقتدار کی بقا کی خاطر ملکی سلامتی اور عزت سے کھیلنے لگے ہیں۔
انہیں معلوم ہے کہ عملاً ان کی حکومت نے مغرب کا کچھ بگاڑا ہے اور نہ بگاڑ سکتی ہے لیکن صرف سستی شہرت اور عوامی جذبات سے کھیلنے کے لیے بیانات دے کر اسے پاکستان سے مزید متنفرکرر ہے ہیں۔
چین کو ناراض اور سی پیک کے منصوبے کو تباہ کرکے جتنی خدمت انہوں نے امریکہ کی کی، اتنی انڈیا بھی نہیں کر سکتا تھا لیکن ایبسلوٹلی ناٹ کی بلاوجہ تکرار کرکے امریکہ کو طیش دلا رہے ہیں ۔ نہ امریکہ نے اڈے مانگے، نہ اس دوران کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار نے ان سے بات کی۔ نہ امریکی صدر نے ان کی ٹیلی فون کال کرکے گفتگو کرنے کی خواہش پوری کی تو سوال یہ ہے کہ انہوں نے کس امریکی کے سامنے ایبسلوٹلی ناٹ کہا، جن سے امریکی ملاقاتیں کرتے ہیں وہ پارلیمنٹ کی سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں بھی کہہ چکے ہیں اور صحافیوں کے ساتھ نشست میں بھی کہ امریکیوں نے اڈے مانگے اور نہ ہم نے انکار کیا۔ اور کوئی بس نہ چلا تو انڈیا کی خارجہ پالیسی کی تعریفیں کرنے لگے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ انڈیا کی پالیسی اگر کامیاب رہی تو پھر پاکستان کی ناکام رہی۔
لگتا ہے کہ ان پر یہ سوچ غالب آ گئی ہے کہ اگر وہ اقتدار میں نہ رہے تو پھر خدانخواستہ پاکستان بھی نہ رہے گا۔ اس لیے اب ہم جیسوں کا بھی پیمانہ صبر لبریز ہو گیا ہے اور شف شف کی بجائے اب شفتالو کہنے پر مجبور ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں اور اب وہ اس ملک کے درپے دکھائی دے رہےہیں۔
شف شف کی بجائے شفتالو کہوں تو صاف بات یہ ہے کہ عمران خان پر طاقتوروں نے جتنے احسانات کیے، وہ کسی اور لیڈر کو نصیب نہیں ہوئے۔ جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کو ایک ساتھ بٹھانا ناممکنات میں سے تھا لیکن اُن دونوں کو کسی نہ کسی طرح شامل کرایا۔
اسد عمر سے لے کر شیریں مزاری تک اور پرویز خٹک سے لے کر اعظم سواتی تک، کوئی ایک بھی عمران خان یا ان کی پارٹی کے دستور سے متاثر ہوکر پی ٹی آئی میں شامل نہیں ہوا بلکہ انہیں شامل کرایا گیا۔
ان کو ہیرو بنانے کے لیے میڈیا اور اینکرز کو استعمال کیا گیا۔ اُن کے لیے نہ صرف دھرنوں کا تمام تر انتظام کروایا گیا بلکہ طاہر القادری کو ان کے ساتھ بٹھایا گیا۔ ان کی خاطر نواز شریف کی بھی دشمنی لی اور زرداری کو بھی ناراض کیا گیا۔
عرصہ دراز سے اسٹیبلشمنٹ کی اتحادی دینی جماعتوں کو بھی عمران خان کی خاطر قربان اور ناراض کیا گیا۔ ان کے لیے عدلیہ کو بھی استعمال کرایا گیا اور جہانگیر ترین جیسوں کی قربانی بھی دی گئی۔
آر ٹی ایس بھی فیل کروایا گیا اور پھر ان کی حکومت چلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی لیکن جواب میں عمران خان نے محسن کشی کی نئی تاریخ رقم کی۔ عمران خان بطور حکمران بہتر کارکردگی دکھاتے تو ان کا سر اونچا ہو جاتا لیکن بدترین حکمرانی کی وجہ سے انہوں نے پاکستان کو اس مقام تک پہنچایا کہ ہم جیسے لوگ انہیں طعنے دینے لگے۔
انہوں نے معیشت کو ایسا تباہ کیا کہ قومی سلامتی کے اداروں کے لیے اپنا معمول کا کام چلانا مشکل ہو گیا حالانکہ ان کی خاطر اعلیٰ عہدیداران وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے باہر سے پیسہ لاتے رہے لیکن جواب میں انہوں نے پہلے آرمی چیف کی ایکسٹینشن کو جان بوجھ کر متنازعہ کیا اور قانون سازی کی ضرورت پڑی جس کے لیے اپوزیشن کی حمایت درکار تھی۔
لیکن حساب برابر کرنے کی بجائے زخم خوردہ میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمٰن اور آصف علی زرداری نے اس سلسلے میں بھرپور تعاون کیا۔ پھر نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معمول کے عمل کو متنازعہ بنایا۔
عمران خان نے جو سلوک کیا تھا تو اس کے جواب میں جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم جواب دینے کا حق رکھتے تھے لیکن جواب میں انتقام لینے کی بجائے انہوں نے صرف اور صرف نیوٹرل یا آئینی رول تک محدود رہنے کا فیصلہ کیا، جو اُن کا آئینی فرض بھی ہے۔ اب عمران خان کو اس بات پر غصہ ہے کہ وہ آئین پر عمل کیوں کررہے ہیں اور ماضی کی طرح میرے لیے تمام الزامات اپنے سر کیوں نہیں لیتے؟
پوری اپوزیشن اور قوم نیوٹرل ہونے پر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو شاباش دے رہی ہے لیکن عمران خان کبھی انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی منت ترلہ کرتے ہیں اور کبھی دھمکیاں دیتے ہیں کہ میں پہلے سے زیادہ خطرناک ہو جائوں گا۔ خان کا تقاضا ہے کہ آپ نیوٹریلٹی چھوڑ کر میرے لیے غیرجانبدار ہو جائیں اور وہ معذرت کرکے کہہ رہے ہیں کہ آئین اور ان کے ادارے کا وقار تقاضا کررہا ہے کہ وہ نیوٹرل رہیں۔
چنانچہ اب عمران خان فوج کے ساتھ بھی میڈیا جیسا سلوک کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ سوشل میڈیا پر فوج اور ڈی جی آئی ایس آئی کی ٹرولنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری اس عمل کی مذمت کررہے ہیں لیکن کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ایک دن عمران خان سوشل میڈیا کی طاقت (جسے وہ صرف دو ماہ قبل نکیل ڈالنے کے لیے سرگرم عمل تھے) کی دھمکی دیتے ہیں اور اگلے روز سوشل میڈیا پر ان کے خلاف مہم شروع ہو جاتی ہے۔ آخر احسان فراموشی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔