اَچھُو کامریڈ

برخوردار اَچھُو کامریڈ کو میں نے تقریباً گود کھلایا ہوا ہے، یہ میرے ہمسائے فضل دین آڑھتی کا بیٹا ہے۔ پانچ بیٹیوں کے بعد پیدا ہواتھا فضل دین اور اس کی اہلیہ زلیخا نے پاکستان کا کوئی مزار نہیں چھوڑا تھا جہاں انہوں نے بیٹے کی ولادت کے لیے منت نہ مانی ہو، چنانچہ ان کی یہ دیرینہ آرزو پوری ہوئی، نومولود کا نام محمد اشرف رکھا گیا۔ بے پناہ لاڈ پیار میں اس کی پرورش ہوئی۔ فضل دین آڑھتی کا اس وقت کے مشرقی پاکستان اور آج کے مغربی پاکستان میں آڑھت کا بہت بڑا کاروبار تھا اور یوں وہ اس دور میں بھی تقریباً کروڑ پتی تھا۔ اشرف جسے پیار میں اَچھُو کہا جانے لگا تھا ماں باپ اور رشتے داروں کی آنکھ کاتارا تھا۔ اس کی کوئی خواہش ایسی نہ تھی جو پوری نہ کی جاتی ہو۔ اس نے بی اے کیا تو فضل دین نے اس کے ہاتھ میں نئی کار کی چابی پکڑا دی، اَچھُو مجھے بھی بہت پیارا لگتاتھا، بہت مودب تھا اور لکھنے پڑھنے کا بھی شوقین تھا۔ جب وہ ایم اے کر رہا تھا میں نے اسے آہستہ آہستہ ایسی کتابیں پڑھنے کے لیے دیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق انسانی تہذیب کے ارتقا سے تھا، اس کی ان موضوعات میں بہت دلچسپی تھی اور اب وہ خود بھی لائبریری سے اس نوع کی کتابیں ایشو کرواتا اور پھر مجھ سے ڈسکس بھی کرتا جو مجھے بہت اچھالگتا تھا۔

اب اس نے حلقہ ارباب ذوق کے اجلاسوں میں بھی جانا شروع کردیا تھا اور یونیورسٹی سے فارغ ہو کر پاک ٹی ہائوس میں بھی بیٹھنے لگا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ پرولتاری اور بورژوا جیسی اصطلاحات استعمال کرنے لگا ہے، وہ انقلابی بن چکا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ سرمایہ داری نظام ایک لعنت ہے جس سے جتنی جلدی چھٹکارا پایا جائے پاکستان اور اس کے عوا م کےلیے بہترہے اب اس کے ہم نشیں اسے اَچھُو کامریڈ کہنے لگے تھے جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ اَچھُو امیر ماں باپ کا امیر بیٹا تھا، کامریڈ بننے کے بعد اس کا حلقہ ارباب ِذوق اور ٹی ہائوس میں آنا جانا تو برقرار رہا مگر حلقے کے ’’پرولتاری‘‘ ارکان سے گپ شپ اور اٹھنے بیٹھنے کا اتنا مزا نہیں رہا تھا، جتنا مزا اس کے ’’ہم پلہ‘‘ کامریڈز کے ساتھ فائیو سٹار ہوٹلز کے لائونج اور ان کے گھروں کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر پرولتاری عوام کے دکھوں کا مداوا تلاش کرنے میں تھا۔ وہ امریکہ سے سخت نفرت کرنے لگا اس کے کچھ کامریڈ دوست پاکستان کے حالات سے مایوس ہو کر ایک عرصے سے امریکہ میں آباد تھے اور وہ وہاں بیٹھ کر بھی سرمایہ داری نظام کے خلاف صرف گھریلو نشستوں ہی میں نہیں بلکہ مختلف سیمیناروں میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔

انہی دنوں ایک سیاسی جماعت نےامریکہ مردہ باد کا نعرہ لگایا تو اَچھُو کامریڈ کی ہمدردیاں اس جماعت کے ساتھ ہوگئیں اور اس نے اس کے جلسوں میں شرکت شروع کردی۔ چونکہ وہ بے پناہ مالدار تھا چنانچہ اسے جماعت میں اپنی جگہ بنانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ اس کے والد فضل دین آڑھتی کو آغاز میں اس کی یہ سرگرمیاں پسند نہ تھیں مگر جب اخبارات میں اس کے بیٹے کی تصاویر اس کی جماعت کے رہنمائوں کےساتھ شائع ہونا شروع ہوئیں تو اسے یہ سب کچھ اچھا لگنے لگا۔ اب وہ فضل دین آڑھتی نہیں تھا بلکہ ایک انقلابی رہنما کا والد تھا۔ شہر میں جب جماعت کے ایک بڑے جلسے کا اعلان ہوا تو اَچھُو کامریڈ اپنے پرولتاری دوستوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ جلسے میں شریک ہوا۔ اس نے اپنی پہچان اپنے عوامی نام اَچھُو کامریڈ ہی کو بنایا تھا۔ وہ اس پہچان پر نازاں تھا۔ جلسے میں اپنے پرولتاری دوستوں کو ساتھ لے جانے کا مقصد یہتھا کہ جب سیاسی جماعت کا سربراہ تقریر کرنے آئے تو اس کے پرولتاری دوست ’’اَچھُو کامریڈ زندہ باد‘‘ کے بھرپور نعرے لگائیں تاکہ پارٹی کے سربراہ کو اندازہ ہو سکے کہ ان کایہ کارکن عوام میں کتنا مقبول ہے، مگر یہاں اَچھُو کامریڈ غلطی کرگیا، اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ جلسے میں پارٹی سربراہ کے نعرے کی بجائے اس کے نام کا نعرہ لگانا بھی ’’امریکی سازش‘‘ ہی کی ایک کڑی سمجھا جائے گا۔ چنانچہ اَچھُو کامریڈ کے پرولتاری مزدوروں نے جب ’’اَچھُو کامریڈ زندہ باد‘‘ کے بھرپور نعرے لگائے تو پارٹی کے کارکن آگے بڑھے اور انہوں نے اَچھُو اور اس کے ’’عوام‘‘ کو گھیرے میں لے کر ان کی پٹائی شروع کر دی اور اس گہری سازش کی تہہ تک پہنچنے کے لیے انہیں یرغمال بنا لیا۔ اَچھُو کامریڈ بہت مشکل سے بھاگنے میں کامیاب ہوا۔

پس نوشت: اَچھُو کامریڈ ان دنوں امریکہ میں ہے، اس نے ٹویٹ کیا ہے کہ پاکستان میں امریکی سامراج کے خلاف جدوجہد کرنا ممکن بنا دیاگیا ہے۔ وہ یہ کام واشنگٹن میں بیٹھ کر زیادہ سہولت سے کر رہا ہے، وہ بہت جلد امریکہ کو تباہ و برباد کرکے واپس اپنے پیارے پاکستان آ جائے گا، اس نے اپنے پرولتاری دوستوں سے کہا ہے کہ وہ بہرحال اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔