حمزہ اور بلاول!

حمزہ شہباز خدا خدا کرکے پنجاب کے وزیراعلیٰ مقرر ہوگئے ہیں اور بلاول بھٹو زرداری نے بطور وزیر خارجہ حلف اٹھا لیا ہے اور امریکہ کے وزیر خارجہ کی مبارکباد بھی قبول کر لی ہے۔

حمزہ شہباز کی ساری زندگی میرے سامنے ہے۔ میں نے اُن کا لڑکپن بھی دیکھا ہے اور ماشاء اللہ جوانی بھی۔ وہ 22ماہ جیل میں بھی گزار چکے ہیں اور پورے خاندان کی جدہ روانگی کے بعد انہوں نے برس ہا برس اکیلے پاکستان میں گزارے ہیں۔

ان کی حالیہ ذمہ داری ان کے لیے نئی ضرور ہے مگر اجنبی نہیں۔ انہوں نے اپنے اَن تھک والد کو پنجاب کی خدمت کرتے بھی دیکھا ہے اور یقیناً ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ان کے تایا میاں نواز شریف پورے پاکستان کے محبوب رہنما ہیں، ان کے ویژن سے ’’پرانا پاکستان‘‘ ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا ہے۔

نواز شریف، حمزہ شہباز کو بہت عزیز رکھتے ہیں۔ ان کی تایا زاد بہن مریم نواز بھی سیاست میں ہیں اور بہت جلد ’’کرائوڈ پُلر‘‘ بن گئی ہیں۔ بیگم کلثوم نواز نے بھی جمہوریت کے لیے جدوجہد کی اور حمزہ کے دادا میاں محمد شریف مرحوم و مغفور نے اپنے خاندان کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔

انہوں نے مشکل ترین حالات میں اپنے نظریے پر مصالحت نہ کرنے کی تلقین کی، چنانچہ جہاں اِس پورے خاندان نے سیاست میں رہتے ہوئے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور ان کے پائے استقلال میں لغرش نہیں آئی، وہاں ان کی اخلاقی قدریں اور اپنی ثقافت سے وابستگی بھی ہمیشہ برقرار رہی۔

یہ سارا خاندان روشن خیال بھی ہے اور عبادات کا پابند بھی۔ حمزہ شہباز نے ایک بار میرے گھر کے ڈرائنگ روم میں بھی جائے نماز مانگی اور نماز ادا کی۔ انہیں موسیقی سے بھی رغبت ہے۔ نواز شریف، شہباز شریف اور حمزہ دوست احباب کی محفل میں گانا بھی گاتے ہیں۔

حمزہ خوش قسمت ہیں کہ اب ان کی کارکردگی کا مقابلہ عثمان بزدار سے ہوگا۔ حمزہ کو میں نے بہت جلسوں میں دیکھا ہے، کارکنوں سے ان کا رابطہ بہت مضبوط ہے، وہ اکثر کو ان کے نام سے پکارتے ہیں اور میرے خیال میں کسی سیاست دان کی شخصیت کا یہ مثبت پہلو ہے۔

حمزہ شہباز بلکہ پوری حکومت کو جو مسئلہ درپیش ہوگا وہ یہ کہ انہیں ایک تو تباہ شدہ معیشت ملی ہے اور دوسرے اس کے پاس وقت بہت کم ہے تاہم اس کے باوجود مجھے یقین ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت ان مشکلات کو ایک حد تک کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔

دوسری بات یہ کہ حمزہ شہباز کو وزارتِ اعلیٰ کے ’’اعلیٰ منصب‘‘ کے حصول کی جسٹی فکیشن بھی دینی ہے اور میری دعا ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہوں۔ اگر یہ نہ کہا جائے کہ میں ’’انکل‘‘ بننے کی کوشش کر رہا ہوں (میں نے انکلز کا حشر دیکھا ہوا ہے) تو ایک مشورہ ضرور دوں گا کہ اگرچہ خوشامد ہر ایک کو اچھی لگتی ہے مگر اس کی حیثیت زہر قاتل کی ہے جو اس کے پھندے میں آیا وہ کبھی اس میں سے نکل نہیں سکا چنانچہ مجھے امید ہے کہ حمزہ شہباز خوشامدی افسروں اور خوشامدی ’’کارکنوں‘‘ کو ایک حد سے زیادہ خوشامد کی اجازت نہیں دیں گے۔

اور ایک بہت نازک سا مشورہ یہ کہ جب وہ بیوروکریٹس کی میٹنگ یا کسی اور محفل میں موجود ہوں، اپنی انگلی اُن کی طرف اٹھا کر بات نہ کیا کریں، اسے بہت معیوب حرکت گردانا جاتا ہے، ایسا محض عادتاً کیا جاتا ہے، کسی کی تحقیر مقصود نہیں ہوتی مگر ایسا کرنے سے گریز کرنا چاہیے!

اور جہاں تک بلاول بھٹو زرداری کا تعلق ہے، میرے خیال میں وہ بھی اس منصب کے ساتھ انصاف کریں گے۔ خارجہ امور کی سوجھ بوجھ ان کی خاندانی وراثت ہے۔ ان کی والدہ محترمہ بےنظیر بھٹو اور نانا ذوالفقار علی بھٹو شہید خارجہ امور کے نازک مراحل سے گزر چکے ہیں، صرف گزر نہیں چکے بلکہ اس حوالے سے ان کی حیثیت مستحکم سمجھی جاتی ہے۔

میں بلاول کی تقریریں اور ان کی گفتگو بھی ٹیلی وژن پر سنتا رہا ہوں، جب وہ جلسوں میں تقریر کر رہے ہوتے ہیں تو اپنی عمر کے مطابق لگتے ہیں مگر جب وہ پریس سے گفتگو کرتے ہیں تو ان کا علم، ان کا انداز ایک منجھے ہوئے سیاست دان کا لگتا ہے، وہ بہت پڑھے لکھے ہیں اور ان کا علم ان کی گفتگو سے بھی جھلکتا ہے، ان لمحوں میں وہ اپنی عمر سے بڑے لگتے ہیں۔

حمزہ شہباز کی طرح ان کی بھی خوش قسمتی ہے کہ ان کے پیشرو شاہ محمود قریشی تھے بہرحال امریکی وزیر خارجہ کی طرف سے مبارک باد کا پیغام بہت اہمیت کا حامل ہے، اگر اس کا سِرا بھی ’’امریکی سازش‘‘ سے نہ جوڑا جائے۔

آخر میں ایک بات جو موضوع سے ہٹ کر ہے اور وہ یہ کہ متحدہ اپوزیشن کی حکومت میں اگر کسی ایک جماعت کو پی ٹی آئی ٹارگٹ بنائے تو جواب کی ذمہ داری صرف اس جماعت پر نہ ڈالی جائے جسے نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ یہ ذہن میں رکھا جائے کہ جہاں ’’نفع‘‘ میں سب حصہ دار ہیں اسی طرح نقصان بھی کسی ایک کو نہیں سب جماعتوں کا یکساں طور پر ہو گا!