بے چارہ آئن اسٹائن!

یاسر پیرزادہ اور اِن جیسے دوسرے روشن خیال دانشوروں نے سائنس اور سائنسدانوں کو کچھ زیادہ ہی ہمارے سر پر چڑھا رکھا ہے، ہمیں طعنے دیتے رہتے ہیں کہ دیکھیں دنیا کدھر جا رہی ہے اور ہم کن کاموں میں اُلجھے ہوئے ہیں، ہم جن کاموں میں اُلجھے ہوئے ہیں وہ کوئی چھوٹے مسائل نہیں ہیں، اِن سائنسدانوں نے انسان کی سات سو سال کی کاوشوں کے بعد ایک ’’مردانہ‘‘ ایجاد کی جبکہ ہمارے حکماء صدیوں سے ’’کشتوں‘‘ کے پشتے لگا رہے ہیں۔ میں نے ابھی حال ہی میں فیس بک پر آئن اسٹائن کی ازدواجی زندگی کے حوالے سے ایک پوسٹ پڑھی، جس سے اس کی ’’کمزوری‘‘ کھل کر سامنے آتی ہے، اس پوسٹ سے بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ وہ بیوی کو رتی بھر حیثیت نہیں دیتا تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ وہ اِسے ’’ڈسٹرب‘‘ کرے، مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ (اگر یہ پوسٹ صحیح ہے) تو اس سے اس کی بہادری نہیں، کوئی ’’پوشیدہ‘‘ کمزوری واضح ہوتی ہے۔

اس پوسٹ کے مطابق آئن اسٹائن نے دوسری شادی مائیلوا نامی خاتون سے کی، اس شادی کی دلچسپ بات وہ معاہدہ ہے جو اس نے اپنی بیوی کے ساتھ کیا۔ معاہدے میں طے پایا کہ اس کی بیوی اس کے کپڑے اور سامان ہمیشہ صاف اور بہترین حالت میں رکھے گی۔ تینوں وقت کا کھانا آئن اسٹائن کو اس کے کمرے میں دیا جائے گا۔ آئن اسٹائن کے کمرے، اسٹڈی روم اور خاص طور پر اس کی میز بالکل صاف رکھی جائے گی۔ جب تک آئن اسٹائن کا موڈ نہ ہو بیگم اس سے کوئی بات نہیں کرے گی۔ آئن اسٹائن دیگر لوگوں کے سامنے اپنی بیوی سے لاتعلق رے گا۔ غالباً یہی وہ مجاہدانہ اقدام ہیں جن کی بدولت آئن اسٹائن نے اتنی ذہانت پائی!اس ابتدائیہ سے جہاں عورت سے اس کی ’’دوری‘‘ نظر آتی ہے وہاں یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ اہلِ مغرب بھی عورت کو پائوں کی جوتی ہی سمجھتے ہیں۔ تاہم اس پوسٹ پر ایک ستم ظریف نے ایسے ایسے نکات پیدا کئے ہیں کہ دل خوش ہو گیا ہے۔ مثلاً آئن اسٹائن اگر بیوی سے نرم رویہ رکھتا تو میاں بیوی کے درمیان اس طرح کے ’’مکالماتِ فلاطوں‘‘ ہونا تھے:

بیوی: آئن وے آئن۔

آئن: جی جان کیا ہوا؟

بیوی: وے کوکنگ آئل ختم ہو گیا اے۔

آئن: او ہو جان، ابھی دو دن پہلے تو لایا تھا!

بیوی: وے یاد کر، تجھے پانچ کلو کا ڈبہ لانے کو کہا تھا اور تو کلو والا پیکٹ لے آیا تھا۔

آئن: اچھا تھوڑی دیر تک لا دیتا ہوں، ذرا ایک سائنسی تھیوری لکھ لوں۔

بیوی: وے آگ لگے تیری سائنس کو۔ آئل لے کر آ۔ اور ہاں ایک پیکٹ ماچسوں کا اور پانچ روپے کا اسپغول کا چھلکا بھی لیتے آنا۔

آئن: پلیز جان، بس صرف دو گھنٹے کی مہلت دے دو، میری ریسرچ مکمل ہونے والی ہے۔

بیوی: دفع دُور۔ جب دیکھو سائنس، جب دیکھو سائنس۔ ناں تُو نے اتنی سائنس پڑھ کر کون سا عالم لوہار بن جانا ہے۔

آئن: پلیز جان! ایسا مت کہو۔ سائنس میری زندگی ہے، میں ہر وقت اس کے حصار میں رہتا ہوں۔

بیوی: ہا … ہائے … شادی سے پہلے تو تم نے کہا تھا کہ میں گڑھی شاہو میں رہتا ہوں۔

آئن: او ہو جان، میرا مطلب ہے کہ میں ہر وقت سائنس میں گم رہتا ہوں، سائنس میرا عشق ہے، سائنس میرا پیار ہے۔

بیوی: لخ لعنت ہے بئی تیرے عشق پر۔ اگر تو اتنا بڑا سائنس دان ہے تو میری ایک بات کا جواب دے۔

آئن: پوچھو جان!

بیوی: چل یہ بتا میری وڈّی خالہ کا السر کب تک ٹھیک ہوگا؟

آئن: وہ … مم … مجھے کیا پتہ؟

بیوی: مجھے پہلے ہی پتہ تھا تیرے جیسے نکمے بندے کو سواہ تے مٹی پتا ہونا ہے۔ روندا سائنس نوں…

آئن: پپ۔ پلیز جان۔ اگر اجازت ہو تو تھوڑا کام کر لوں؟

بیوی: وے کام تُو نے کیا کرنا ہے۔ ویلیاں کھائے جاتا ہے، ہزار دفعہ کہا ہے میرے تائے کے بیٹے کے ساتھ سبزی منڈی چلے جایا کر، وہ بھی بڑا سائنسدان ہے۔

آئن: وہ کیا کرتا ہے؟

بیوی: وہ چھوٹے آلو ایک چھابڑی میں اور بڑے آلو دوسری چھابڑی میں چھانٹ کر رکھتا ہے۔

آئن: جان! کہاں وہ اور کہاں میں!

بیوی: ظاہری بات ہے کہاں وہ روز کا دو سو روپیہ کمانے والا اور کہاں تو سسرالیوں کی روٹیاں توڑنے والا۔

آئن: پلیز جان ایسے تو نہ کہو۔ میرے سسرالی تو خود لنگر پر گزارہ کرتے ہیں۔

بیوی: کیا کہا؟ تیرا بیڑا غرق، تیری ریسرچ میں کیڑے پڑیں، وہ نہ مدد کریں تو تُو بھوکا مر جائے۔

آئن: اچھا پلیز جان یہ لڑائی بعد میں کر لینا، میرا دماغ اس وقت سائنسی کاموں میں لگا ہوا ہے۔

بیوی: سب جانتی ہوں میں تیرے نکمے سائنسی دماغ کو، ٹی وی کا ریموٹ تو تجھ سے ٹھیک ہوتا نہیں، وڈا آیا سائنسدان۔

آئن: (آہ بھر کر) ٹھیک ہے میری جان، آج سے سائنس ختم، کل سے میں بھی سبزی منڈی جایا کروں گا۔

بیوی: خوشی سے، واقعی! ہائے آئن اسٹائن تم کتنے جینئس ہو۔

ان سارے مکالمات سے جہاں اور بہت سی باتیں واضح ہوتی ہیں وہاں یہ تو طے ہے کہ آئن اسٹائن اپنی بیوی کے تھلے لگا ہوا تھا، کیوں لگا ہوا تھا، وہ ان مکالمات کے تعارف میں بتا چکا ہوں۔