معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ہیرو یا زیرو!
کیا برا زمانہ ہے کہ اب غریب آدمی میں رشوت دینے کی استطاعت بھی نہیں رہی مجھے یاد ہے بھلے وقتوں میں رشوت کا ریٹ ہر پاکستانی کی دسترس میں ہوتا تھا ،لاہور کے اے جی آفس میں کسی کلرک سے کام پڑتا تو اسے یار لوگ عبدالرحمن کے ہوٹل میں لے جاتے جہاں اعلیٰ درجے کے کھانے مع سویٹ ڈش زردے کی پلیٹ کا زیادہ سے زیادہ بل پانچ روپے بنتا تھا یہی صورتحال دوسرے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی تھی سیاست دانوں کو اپنی خبریں لگوانے کیلئے صحافیوں کے جو ناز نخرے اٹھانا پڑتے ان نخروں کی اوقات یہ تھی کہ ایک دفعہ ایک سیاسی کارکن اپنی خبر لے کر ایک اخبار کے دفتر میں پہنچا اور نیوز ایڈیٹر سے التجا کی کہ براہ کرم یہ خبر ڈبل کالمی لگا دیں اس پر نیوز ایڈیٹر نے اسے گھور کر دیکھا اور کہا تم مرغا سنگل کالمی کھلاتے ہو اور خبر ڈبل کالم لگوانا چاہتے ہو، واضح رہے یہ اس دور کی بات ہے جب کسی گھر میں مرغ یعنی ککڑ پکتا تھاتو ہمسایوں کو گمان گزرتا تھا کہ ا ہلخانہ میں سے کوئی بیمار ہے یا مرغ بیمار ہے ،تاہم یہ رشوت بھی دس بارہ روپے سے زیادہ کی نہیں تھی جو لوگ اخبار کے ڈسٹرکٹ نیوز پر کام کرتے تھے انہیں دیہات کی سوغاتوں مثلاً مرونڈے اور ستو وغیرہ پر ٹرخا دیا جاتا تھا اور وہ اس پر خوش تھے۔
بچوں کو دی جانے والی رشوت بھی بہت معمولی ہوتی تھی اس رشوت کا پس منظر یہ ہے کہ جب کوئی بارات لڑکی والوں کے گھر پہنچتی تو دولہا کے سر پرسے پیسے وار کے لٹائے جاتے کچھ کنجوس قسم کے لوگ ایسا نہیں بھی کرتے تھے جس پر محلے بھر کے بچے جلوس کی صورت میں دولہا کے گھوڑے کے آگے آگے چلنے لگتے اور اوئے اوئے کی آوازیں کستے اور اس ’’اوئے اوئے‘‘ کا واضح مطب دولہا اور اس کے اقرباء کی بھد اڑانا ہوتا تھا، انقلابی قسم کے بچے تو اس صورتحال میں گھوڑے کے پائوں کے قریب کریکر بھی چلا دیتے تھے جس سے گھوڑا اور گدھا سوری گھوڑا اور دولہا دونوں بدک جاتے چنانچہ اس نازک صورتحال سے بچنے کیلئے دولہا کا باپ یا بھائی یا کوئی چچا،ماموں پیسے لٹانے پر مجبور ہوجاتا، واضح رہے یہاں پیسے سے مراد پیسے ہی ہیں جو ایک روپے میں سو آتے تھے اگر پیسے لٹانے والے کا نشانہ صحیح نہ ہوتا تو یہ سکے دولہا کی آنکھ کے گردونواح بھی جا لگتے جبکہ شریکوں کے صحیح نشانے کی وجہ سے یہ سکے ایک آدھ بار دولہا کے کانے ہوجانے کا سبب بھی بنے جس کے نتیجے میں یار لوگ اکثر اس سے پوچھتے تھے کہ تم کس کے کانے ہو؟
لیکن جب رشوت کا معیار بہت بلند ہوگیا تو راشیوں کو ٹرخانا مشکل ہوگیا تاہم یہ بلند معیار بھی اتنا پست تھا کہ آج بتاتے ہوئے شرم آتی ہے یعنی حکومتوں کو جس کسی کو ممنون کرنا ہوتا تو اس کا ایک ’’معزز ذریعہ‘‘ ٹرانسپورٹ کا محکمہ تھا چنانچہ ممنون کئے جانے والوں کو کسی بس کا روٹ پرمٹ عطا کردیا جاتا جس پر بوجہ مسرت وہ خلوت میں بھنگڑے ڈالتا اور جلوت میں لوگو ں سے منہ چھاپا پھرتا کیونکہ اس دور میں رشوت لینے والوں کو نفرت سے دیکھا جاتا تھا آج کے دور اور اُس دور میں اسی قسم کا فرق تھا جو ایک انڈین ولن نے بیان کیا کہ پہلے لوگ بطور ولن اسکرین پر دیکھ کر ہمیں گالیاں دیتےتھے اور باآواز بلند دیتے تھےجبکہ آج جب ولن اسکرین پر نمودار ہوتا ہے تووہ عوام کا ہیرو ہوتا ہے اور وہ نعرہ ہائے تحسین سے اس کا استقبال کرتے ہیں ۔ سو جن دنوں کی بات میں کر رہا ہوں ان دنوں رشوت لینے والے کو لوگ مجرم سمجھتے تھے آج معزز سمجھتے ہیں اور ہاں مجھے اپنے اس دور کی تنخواہ بھی یاد آگئی ہے یہ تین سو تیس روپے ماہوار تھی، میں والدین کے گھر میں رہتا تھا اور یوں رہائش، کھانا پینا سب مفت تھا اس کے نتیجے میں تین سو تیس روپے خرچ ہونے میں نہیں آتے تھے۔ لنڈے سے بہترین سوٹ تیس روپے میں مل جاتا تھا اور اعلیٰ معیار کے سگریٹ کے پیکٹ کی اوقات پانچ روپے تھی۔ چنانچہ ان دنوں ہر طرف میری امارت کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ امارت کی ایک بڑی نشانی ریلےکی سائیکل بھی تھی میں جب اس پربیٹھ کر سیر کو نکلتا تو دیکھنے والے دیکھتے اور جلنے والے جل کر رہ جاتے۔ اب میرے پاس کیا ہے، ایک تیرہ سو سی سی کرولا کار ہے جس کی موجودہ مالیت 50 لاکھ سے زیادہ نہیں چنانچہ جب میرے قریب سے کوئی ڈیڑھ کروڑ روپے کی پراڈو گزرتی ہے تو میں اسے دیکھتا اور جلتا رہ جاتا ہوں۔
خیر بات ہو رہی تھی رشوت کی آج اس خانہ خراب کا معیار اتنا بلند ہوگیا ہے کہ آسمان کو چھونے لگا ہے اب غیر ملکی سودوں میں کروڑوں اور اربوں کی رشوت لی جاتی ہے روز مرہ کے جائز کاموں کی رشوت بھی اب کھانا کھلانا نہیں، چنانچہ کوئی سادہ لوح اپنے کسی کام کیلئے کسی اہلکار کو کھانے کی دعوت نہ دے بیٹھے ورنہ وہ اسے اس کی اوقات یاد دلانے کیلئے اس کے گھر روزانہ تین وقت کا کھانا بھیجنا شروع کردے گا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ صحافت کے پیشے میں بھی ہمیشہ کی طرح آج بھی کچھ لوگ نقب لگا کر داخل ہوگئے ہیں ان کے بلند بانگ دعوئوں پر نہ جائیں جنابِ شیخ کی طرح یہ بھی بظاہر خلاف شرع تھوکتے تک نہیں مگر دوسری طرف اندھیرے اجالے میں چوکتے بھی نہیں ہیں۔ تاہم اللہ کا شکر ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ان کی تعداد آٹے میں نمک سے زیادہ نہیں۔ آخرمیں میری اللہ سے دعاہے کہ رشوت کا پرانا زمانہ اور پرانا ریٹ واپس آجائے تاکہ غریب لوگوں کے فائلوں میں دبے ہوئے جائز کام بھی ہو جائیں۔