معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
کیسے کیسے لوگ (آخری قسط)
چراغ حسن حسرت بہت بگڑے ہوئے تھے لیکن میرے کہنے پر مان گئے کہ ’’اگر تاثیر باز آ جائیں تو امروز میں کچھ نہ لکھا جائے گا‘‘۔ پھر میں نے تاثیر صاحب سے کہا کہ ’’آپ اتنے عالم و فاضل آدمی، کالج کے پرنسپل، اخبار نویس تو اپنی پگڑی رکھتے نہیں اور دوسرے کے سر سے اتارنے میں تامل نہیں کرتے لیکن یہ جنگ و پیکار آپ کی شان کے لائق تو نہیں‘‘ کہنے لگے ’’آپ حکم دیں گے تو میں نہ لکھوں گا لیکن حسرت اس رعایت کے قابل نہیں ہے‘‘۔ پھر میں نے مولانا میکش مدیر ’’مغربی پاکستان‘‘ سے کہا کہ ’’آپ اب اس سلسلہ میں کوئی چیز نہ چھاپیے‘‘۔ غرض راتوں رات یہ متارکہ مکمل ہوگیا اور صبح دونوں اخبار اس ناگوار جھگڑے سے پاک تھے۔ تاثیر اور حسرت کی یہ ساری نظمیں آغا شورش کاشمیری نے جمع کرکے ’’چٹان‘‘ میں چھاپ دیں تاکہ اس تاریخی جنگ کا ریکارڈ محفوظ رہے۔
اس کے بعد میرا ارادہ تھا کہ ’’متارکہ‘‘ کے بعد مصالحت بھی کرا دوں۔ تاکہ دونوں دوست گلے مل جائیں لیکن میں سوچتا ہی رہا اور تاثیر ایک دن دفعتاً حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے۔ حسرت کو ان کی موت کا صدمہ خاص طور پر زیادہ ہوا اس لیے کہ وہ تاثیر سے صلح نہ کر سکے اور دونوں کا سلسلہ کلام و سلام آخر تک منقطع ہی رہا۔
قارئین!
اب چلتے ہیں برصغیر کی تاریخ میں ڈرامہ کے بادشاہ آغا حشر کاشمیری کی طرف جو خود کو ہندوستان کا شیکسپیئر کہتے تھے جس پر کسی دل جلے نے تبصرہ کیا کہ ’’جیسا ہندوستان ویسا ہی اس کا شیکسپیئر‘‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میدان میں آغا حشر نے مدتوں راج کیا۔ عبدالمجید سالک صاحب ان کے بارے میں لکھتے ہیں ’’آغا محمد شاہ حسرت کاشمیری نے جب اپنے گھر کی فضا کو اپنے فنی رجحانات کے خلاف پایا تو بھاگ کر بمبئی آگئے اور تھیٹر کی دنیا میں اپنے لیے گنجائش پیدا کرنے کی کوشش شروع کردی۔ اس وقت حسن اتفاق سے چند اور ذہین و طباع نوجوان بھی بمبئی میں موجود تھے۔ چنانچہ آغا حشر، مولانا ابوالکلام آزاد، ان کے بھائی ابوالنصر، غلام یاسین آہ، نظیر حسن سخا کی ایک ’’منڈلی‘‘ قائم ہو گئی۔ چند روز مولانا ظفر علی خان بھی ان میں شامل رہے لیکن جلد ہی کسی کاروبار کے سلسلہ میں سومالی لینڈ چلے گئے۔ کیونکہ یہ لوگ تلاش روز گار کے سوا اور کوئی مشغلہ نہ رکھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے کوئی شغل اختیار کرنے کی کوشش کی۔ ان حضرات نے مناظرے کا ایک سٹیج قائم کر لیا اور ایک انجمن ’’نظر الاسلام‘‘ کی بنیاد رکھی جس کے آرگن کی حیثیت سے ایک ماہانہ رسالہ ’’البلاغ‘‘ کے نام سے جاری کر دیا۔ میں نے اس رسالہ کے ایک دو پرچے آغا حشر کے پاس دیکھے۔ مولانا ابوالکلام اس کو مرتب کرتے تھے لیکن کیونکہ ان سب دوستوں کی زندگیوں کا مستقبل غیر یقینی تھا اس لیے بے نقاب ہو کر کسی انجمن یا رسالہ سے اپنا تعلق قائم نہ کرنا چاہتے تھے۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے اپنے خدمت گار مسمی کالے خان کو جو بالکل ان پڑھ اور کندہ ناتراش تھا رسالے کا ایڈیٹر اور انجمن کا سیکرٹری بنا دیا۔ اس کا نام مولوی عبدالرئوف خان صاحب تجویز ہوا۔ اب گھر میں تو وہی کالے خان چلتا تھا ’’کالے خان پانی پلائو‘‘ …’’کالے خان چلم بھرو‘‘…’’اے کالے خان ادھر آ کم بخت کیا کر رہا ہے‘‘۔ لیکن لوگوں کے سامنے اس کو مولوی عبدالرئوف خان صاحب، ایڈیٹر صاحب، سیکرٹری صاحب کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا‘‘۔ اک اور جگہ سالک صاحب لکھتے ہیں۔ ’’آغا حشر نے ڈرامے کی دنیا کو اپنی غیر معمولی قابلیت و صلاحیت کا احساس کرا دیا اور سب سے پہلے … ’’مرید شک‘‘ لکھ کر ڈرامہ میں ایک نیا رستہ پیدا کردیا۔ آغا صاحب سے پہلے اگرچہ احسن، بے تاب اور طالب بنارسی کا طوطی بولتا تھا لیکن ان کی نظم و نثر میں وہ شان و شوکت، وہ پاکیزگی اور وہ قوت بالکل مفقود تھی جو حشر کی تحریرات میں نمایاں تھی۔ کچھ تو آغا کے اسلوب میں ان کی طبعی شور انگیزی اور زور آزمائی کا اثر تھا اور کچھ خطابت و مناظرہ کے مشاغل نے انہیں ایسے فقرے چست کرنے کی صلاحیت بخش دی تھی جنہیں عوام بےحد پسند کرتے تھے اور داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے تھے۔ بمبئی میں آغا حشر نے پے در پے کوئی چھ سات ڈرامے لکھے جو بےحد کامیاب ہوئے اور تھیٹر کی دنیا آغا حشر کے نام سے گونجنے لگی۔ دوسرے ڈرامہ نگاروں نے آغا کو ناکام رکھنے کی بےحد کوشش کی لیکن عصر حشر شروع ہو چکا تھا اور دنیا کی کوئی طاقت اس عصر کی رفتار کو روک نہ سکتی تھی۔ انہوں نے اپنے ڈراموں سے ہزار ہا روپیہ کمایا لیکن طبیعت لکھ لٹ اور سخی پائی تھی۔ متعلقین کی اعانت دریا دلی سے کرتے تھے۔ دوستوں کو کھلا پلا کر اور عیش کرا کر خوش ہوتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ اکثر ہاتھ تنگ ہو جاتا تھا‘‘۔
تب کیسے کیسے لوگ
اور اب ایسے ویسے لوگ۔
(ختم شد)