معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
انسان اور دوسرے جانور (1)
میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں کچھ جانوروں کے بارے میں اظہارِ خیال کیا تھا۔ یہ کالم پڑھ کر بھولے ڈنگر نے کہا ”تم نے سب سے بڑے جانور انسان کا تو ذکر ہی نہیں کیا، تم بے شک خود کو اس صف میں سے نکال کر الگ کھڑے ہو جاتے لیکن اپنے بھائی بندوں کے حوالے سے اتنی بڑی ڈنڈی تو نہ مارتے“ میں ایسے مواقع پر بھولے ڈنگر کے منہ نہیں لگا کرتا ،چنانچہ میں خاموش رہا۔ ویسے بھی اسے گرمی اس بات کی تھی کہ جہاں میں نے اتنی محبت سے دوسرے جانوروں کا ذکر کیاتھا، وہاں تھوڑا بہت کلمہ ٴ خیر اس ”ڈنگر“ کے بارے میں بھی کہہ دیتا، میرے اس دوست کا اعتراض ٹھیک ہے میں آئندہ کبھی آج کے جانور نماانسانوں کا تذکرہ ضرور کروں گا جو سارے پاکستا ن میں پائے جاتے ہیں لیکن اس سے پہلے کچھ پرندوں، چوپایوں اورکیڑے مکوڑوں کا بھی مجھ پر حق ہے اور میں اس فرض سے عہدہ برا ہونا چاہتا ہوں، اگران میں سے کچھ کا ذکر رہ جائے تو امید ہے وہ مجھے معاف کردیں گے۔
چھپکلی
آپ چھپکلی کی ہیئت کذائی پر نہ جائیں اور اسکی بدصورتی اور اسے دیکھ کر محسوس ہونیوالی کراہت کا خیال بھی تھوڑی دیر کیلیے دل سے نکال دیں تو آپ اس کی خوداعتمادی اوراپنے شکار کے لیے قلابازیوں کو نظر میں رکھیں تو میری طرح آپ بھی اسکے قائل ہوجائیں گے۔ اپنے سے بڑوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے اور اس کی خوداعتمادی کو پنجابی کا ایک محاورہ پوری طرح واضح کرتا ہے ۔ شاید آپ نے بھی سنا ہو اگر نہیں تو میں آپ کے لیے اسے اردو میں ٹرانسلیٹ کردیتا ہوں یعنی ’’ ذات کی چھپکلی اور چھت کے شہتیروں سے جپھے‘‘ اس محاورے میں ذات پات کا ذکر مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا لیکن ا س کے بغیر بات واضح نہیں ہوسکتی تھی، ہم انسانوں میں بھی بہت سی چھپکلیاں پائی جاتی ہیں جو حکمرانوں اور ان کے لے پالکوں کو ”جھپیاں“ ڈالنے کے لیے ہمہ وقت بے قراررہتی ہیں بلکہ یہ چھپکلیاں تو اپنے مقصد کے لیے مادہ چھپکلیوں سے بھی کام لیتی ہیں۔ ایک دفعہ میں نے ایک”چھپکلے“ سے پوچھا ”میاں تم اپنی ذات کی نفی کرکے خواہ مخواہ شہتیروں سے جا چمٹتے ہو، اس سے تمہیں کیا ملتا ہے؟“ بولا ”یہ سب تم انسانوں کی ہم سے نفرت اورکراہت کا شاخسانہ ہے، تمہارے سامنے اگر کوئی ہمارا نام بھی لے لے تو تمہیں اُبکائی محسو س ہونے لگتی ہے۔ تم نے ہم چھپکلیوں کو ”کوڑھ کِرلی“ کا نام بھی دیا ہواہے، تم سمجھتے ہو کہ ہماری وجہ سے معاشرہ کوڑھ کے مرض کا شکار ہو جاتا ہے، چنانچہ ہم زمین پررینگ رہے ہوتے ہیں، تم جوتے سے ہمیں نشانہ بناتے ہو، تمہار انشانہ خطا ہوجاتا ہے اور ہم دیوار پر چڑھ جاتے ہیں تم دیوار کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہو تو یہ چھتوں کے شہتیر ہی ہیں جو ہمارے لیے محفوظ پناہ گاہ ثابت ہوتے ہیں۔ تم انسانوں میں بھی توبہت سی چھپکلیاں اور چھپکلے ہیں جو اپنی محفوظ پناہ گاہوں سے معاشرے کو کوڑھ کے مرض میں مبتلا کرنے میں لگے ہوئے ہیں“۔ میں لاجواب ہو گیا کیونکہ اس نے وہی بات کہی تھی جومیرے اپنے دل میں بھی تھی لیکن جب اس نے یہ کہا کہ کیا تمہارے کالم نگاروں میں کوئی چھپکلی نہیں ہے؟ تمہارے ٹی وی چینلز کے اینکرپرسنز میں کوئی کوڑھ کِرلی نہیں ہے؟ تمہارا کوئی لیڈر یا کوئی سیاسی جماعت معاشرے میں کوڑھ نہیں پھیلا رہا؟ تو مجھ سے اس چھپکلے کی یہ گستاخی اور زبان درازی برداشت نہ ہوئی چنانچہ میں نے اپنی جوتی سے اس کا نشانہ لیا لیکن وہ برق رفتاری سے دیوار عبور کرتا ہوا اپنی محفوظ پناہ گاہ میں داخل ہو گیا اور اب مجھے شہتیر کے سوراخ میں سے اسکی صرف لمبی زبان نظر آ رہی تھی، جسے وہ باہر نکالتا تھا اور پھر قرب و جوار میں نظر آنے والے کیڑے مکوڑوں کو ہڑپ کر جاتا تھا، مجھے ان لمحوں میں یو ں لگا جیسے وہ میری بے بسی پر دانت نکال رہا ہو!
بلی
بلی ایک بہت خوبصورت جانور ہے۔ یہ بہت Loving nature کی ہے۔ کتا مالک کاوفادارہوتا ہے اور بلی گھرکی وفادار ہوتی ہے۔ کتے کا مالک اسے کہیں بھی لے جانا چاہے وہ اس کے ساتھ چل پڑتا ہے لیکن بلی جس گھر میں رہتی ہے اسے چھوڑنے کیلیے کبھی تیارنہیں ہوتی۔ گلزار وفا چودھری مرحوم نے میرے چھٹی جماعت کے کلاس فیلو اور مشہور شاعر ناصر زیدی مرحوم کے بارے میں لکھا تھاکہ ”ناصر اپنی شہرت دور دراز مقامات تک پہنچانے کیلیے دور درازمقامات کا سفر اختیارکرتے ہیں لیکن ان کی شہرت اس بلی کی مانند ہے جسے اس کا مالک بوری میں بند کرکے کہیں دورپھینک آتا ہے لیکن وہ مالک سے پہلے واپس گھر پہنچ جاتی ہے“ ویسے کئی مالک ایسے بھی ہوتے ہیں جوبلی کوکہیں دور پھینک آنے کے بعد خود گھر کا راستہ بھول جاتے ہیں اورپھر اسی بلی کوبوری میں سے نکال کر اس کے پیچھے چلتے چلتے اپنے گھر تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ بھی اس نوع کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔بلی کوشیرکی خالہ کہا جاتا ہے مگر تمام ترتحقیق و جستجوکے باوجود میں ابھی تک شیر کے خالو کا پتہ نہیں چلا سکااگر کوئی دعویدارہو تووہ براہ ِ کرم خود ہی سامنے آ جائے۔منیر نیازی کہتا ہے کہ ایک وقت تھا جب بلی جنگل میں رہا کرتی تھی، ایک دن جنگل کے سناٹوں سے اتنی خوفزدہ ہوئی کہ شیر بن گئی مگر جوبلیاں جنگل کی دہشت کا مقابلہ نہ کرسکیں وہ شہروں میں آباد ہوگئیں اوران کی آرام طلبی نے انہیں شیرنہیں بننے دیا چنانچہ میں نے دیکھا کہ یہ گرمیوں کے موسم میں ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں مالک کی گود میں جا بیٹھتی ہیں اگرکہیں ایئر کنڈیشنر نہ ہو تو آپ انہیں ریفریجریٹر کے پاس براجمان دیکھیں گے کہ اس کادروازہ کھلنے پر انہیں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے میسرآتے ہیں، سردیوں میں یہ آپ کے لحاف میں گھس جاتی ہیں گھروں میں رہنے کی وجہ سے انہیں چھیچھڑے وغیرہ ملتے رہتے ہیں چنانچہ انہیں شکا رمیں زیادہ دلچسپی نہیں رہتی جس کی وجہ سے گھر میں چوہے دندناتے پھرتے ہیں۔ ایسی بلیاں کبھی کبھار محض خون گرم رکھنے کے لیے کسی چوہے پر جھپٹتی ہیں اور اسے پنجہ مارکر زخمی کردیتی ہیں،تاہم اسے بھاگنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔ وہ ابھی تھوڑی دور ہی جاتا ہے کہ ایک بارپھر اس پر جھپٹتی ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہتاہے ۔یہ ان کا کھیل بھی ہے اور گھر کا مالک مطمئن بھی کہ جس کا جو فرض تھا وہ نبھا رہا ہے ۔(جاری ہے)