انسان اورر دوسرے جانور (آخری قسط)

سانپ…انسان سانپ سے بہت ڈرتا ہے بلکہ یوں کہیں کہ اس میں موجود زہر سے اسے خوف آتا ہے جبکہ دوسری طرف سانپ اگر کسی سے ڈرتا ہے تووہ انسان ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ بہت سے انسان سانپوں سے زیادہ زہریلے ہوتے ہیں چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ سانپ انسان کو دیکھتے ہی جھاڑیوں میں چھپنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کا پیچھا کیا جاتا ہے اور پھر اسےمار کر’’آلۂ قتل“ کے گرد لپیٹ کر گلیوں گلیوں اس کی”میت“ کی نمائش کی جاتی ہے۔ سانپ انسان کو صرف اس وقت ڈستا ہے جب اندھیرے میں اس کا پاؤں کسی سانپ پر آجائے اس صورتحال میں وہ گھبرا کر حملہ آور ہوتا ہے۔ سانپ کبھی امریکہ کی طرح جارحیت کا مرتکب نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اپنے دفاع میں کارروائی کرتا ہے۔ امریکہ اور سانپ میں سے اگر کسی ایک سے دوستی کو ترجیح دینا پڑے تو یہ ترجیح سانپ کو دینی چاہیے۔

کبوتر…کبوتربھی بہت خوبصورت پرندہ ہے۔ اس کی غٹرغوں غٹرغوں کانوں کو بہت بھلی لگتی ہے۔ کبوتر بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک جنگلی کبوتر اور دوسرے شہروں میں رہنے والے پالتو کبوتر، پالتوکبوتر پالتو دامادوں ہی کی طرح ہوتے ہیں۔ انہیں دانہ ڈال کران کی آزادی چھین لی جاتی ہے۔ کبوتر فضاؤں میں بہت اونچی پرواز کرتے ہیں اور اپنا رزق وہیں کہیں تلاش کرنے کی بجائے واپس مالک کی چھتری پر آبیٹھتے ہیں جس نے ان کے لیے دانہ و دام تیار رکھا ہوتاہے، وہ انہیں دانہ ڈالتا ہے اورپھر رات تک کے لیے انہیں ڈربے میں بند کردیتا ہے۔ ایک دفعہ میں نے نذرمانگی تھی کہ خواہش پوری ہونے پرکبوتر آزاد کروں گا چنانچہ میں ٹولنٹن مارکیٹ گیا۔ دکاندار نے پوچھا ”کبوتر پکانے کے لیے چاہئیں کہ اڑانے کے لیے ؟‘‘میں نے کہا”نہ پکانے کے لیے نہ اڑانے کے لیے بلکہ آزاد کرنے کے لیے“ اس پر اس نے ایک ڈربہ کھولا اور کبوتر میرے حوالے کردیے۔ میں نے باہر آکر انہیں فضا میں اچھالا تو انہوں نے ایک معمولی سی اڈاری ماری اور واپس دکاندار کی چھت پر آکر بیٹھ گئے۔ میں نے ایک لڑکے سے کہا کہ وہ انہیں پکڑ کر لائے، وہ آرام سے انہیں پکڑ لایا مگر جب یہ عمل تین چار بار دہرایا جاچکا تو میں سمجھ گیا کہ انہیں آزادی راس نہیں آرہی، یہ واپس اپنے آقا کی غلامی میں جانا چاہتے ہیں۔ غلام ذہنیت کے حامل ان کبوتروں کو دیکھ کر مجھے اپنے صاحبانِ اقتدار یاد آتے ہیں، اور یہ صاحبانِ اقتدار ایسے ہیں کہ انہوں نے دام تو بہت پھیلائے ہوئے ہیں لیکن چگنے کو دانہ دنکا ہی نہیں دیتے۔

بھینسا…آپ نے کبھی بھینسا دیکھا ہے کس قدر قوی الجثہ ہوتا ہے، اس کے سینگ کتنے خوفناک ہوتے ہیں،وہ چاہے تو اس کے سینگ ہماری ساری ”اشرف المخلوقاتی“چشمِ زدن میں مٹی میں ملا دیں لیکن اسے اپنی قوت کا احساس ہی نہیں ہے، چنانچہ اسپین میں انہیں بل فائٹنگ کے دوران جس طرح زخمی کیا جاتا ہے ہمارے ہاں جس طرح اسے کولہو میں جوتا جاتا ہے اور اس سے کھیتی باڑی کا کام لیا جاتا ہے یہ سب کچھ اس لیے کہ اسے اس کے مستقبل سے مایوس کر دیا گیا ہے چنانچہ شہر بھر کی گندگی سے بھرے گڈ میں جتے ہوئے اس مایوس بھینسے کو ایک دبلا پتلا سا سنگل پسلی والا بھنگی بھی اپنی چھڑی کے اشارے پر جدھر چاہتا ہے،ہانکتا ہوا لے جاتا ہے۔ پاکستانی قوم بھی اس بھینسے کی طرح ہے جسے اس کے مستقبل سے مایوس کردیا گیا ہے چنانچہ جو بھی طالع آزما آتا ہے، اسے چھڑی کے ا شارے پر جدھر چاہتا ہے ہانکتا ہوالے جاتا ہے اور ہاں بھینسے سے ایک کام اور بھی لیاجاتا ہے مگر اس کا ذکر مناسب نہیں کہ اس میں پردہ نشین گایوں کے نام بھی آتے ہیں۔ اور اب آخر میں صوفیہ بیدار کی ایک خوبصورت غزل:

بوقت ہجرِ شما رونقوں میں رہتی ہوں

میں اپنی بگڑی ہوئی عادتوں میں رہتی ہوں

میرے نصیب کا ملتا ہے وقت پر مجھ کو

غریبِ شہر ہوں اور دعوتوں میں رہتی ہوں

تمہیں سنوارنے کی مجھ کو کتنی عادت ہے

اے میرے گھر میں ترے بازووں میں رہتی ہوں

میں اپنے وقت کی شاعر ہوں میری عمر نہیں

زمانِ وصل کے اچھے دنوں میں رہتی ہوں

اکیلی بیٹھ کے سلجھا بھی لیتی ہوں خود کو

یہی نہیں کہ فقط الجھنوں میں رہتی ہوں

تمہاری روشنی مجھ تک بھی آ پہنچتی ہے

اندھیری غار ہوں اور پربتوں میں رہتی ہوں

تمہاری ذات سے بس میرا اتنا رشتہ ہے

میں تیرے گھر نہیں تیری رگوں میں رہتی ہوں

دعائے نیم شبی بن کے دن کی مجلس میں

مثال دوستی شیریں لبوں میں رہتی ہوں

دعا کی مجھ کو ضرورت بہت زیادہ ہے

گھری ہوئی میں سدا سازشوں میں رہتی ہوں

امیدِ فردا میں جلتا چراغِ سحری ہوں

نصیب والی تھی تیرہ شبوں میں رہتی ہوں

کسی سے دشمنی کی مجھ کو کیا ضرورت ہے

خدا کا شکر ہے میں دوستوں میں رہتی ہوں

اب ایسا ہے کہ نہیں یہ نہیں مجھے معلوم

مجھے تو لگتا ہے میں چاہتوں میں رہتی ہوں