معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
اقبال کی شاعری کو بین کیا جائے!
میں اگرچہ اقبال کی صناعی کا بہت قائل ہوں تاہم میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اقبال کی شاعری کو بین کر دینا چاہئے، اللّٰہ کا شکر ہے کہ اس کی شاعری کا کچھ حصہ تو پہلے ہی سے چھپا کر رکھا گیا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ اسے ہوا نہ لگنے پائے۔ مثلاً
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخ امراء کے درو دیوار ہلا دو
جبکہ دوسری طرف ہمارے حاکم اور ہمارے سیاستدان جلسے جلوسوں میں
ایک ولولہ تازہ دیا تو نے دلوں کو
والا شعر پورے تواتر سے استعمال کرتے ہیں اور عوام کو سمجھاتے ہیں کہ اقبال نے یہ شعر ان کی قیادت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے کہا ہے مگر میں نے کسی سیاستدان اور کسی حاکم کی زبان سے اقبال کا یہ شعر؛
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہٴ گندم کو جلا دو
کبھی نہیں سنا اور یہ بہت اچھی بات ہے کیونکہ اگر پاکستان کے غریب جاگ اٹھے تو وہ کاخ امراء کے درو دیوار ہلا دیں گے جس کھیت کی ساری کمائی جاگیردار لے جاتا ہے، وہ اس کھیت کے ہر خوشہٴ گندم کو جلانے کی بات کریں گے اور یوں سرمایہ دارانہ جمہوریت جو ہماری بقاء کی ضامن ہے، خواہ مخواہ عوامی جمہوریت کے ہتھے چڑھ جائے گی اور یوں ہمارا مراعات یافتہ طبقہ ان ٹکے ٹکے کے لوگوں کی نظرِ کرم کا محتاج ہو کر رہ جائے گا۔
مگر اقبال کے کلام کے صرف اس حصے کو عوام سے چھپا کر رکھنے سے کام نہیں بنے گا بلکہ ضروری ہے کہ اقبال کا سارا کلام دریا برد کردیا جائے کیونکہ ہم جس ڈھب پر اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں اقبال اسے زندگی نہیں، موت قرار دیتا ہے اور یوں ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے، مثلاً ہم مطمئن ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے گھر پیدا کیا بلکہ ہم اس کے دین کی پیروی کرتے ہوئے نماز، روزے میں کبھی غفلت نہیں برتتے لیکن اقبال اس کے باوجود ہمیں کچوکے دیتا رہتا ہے، وہ ہمارے ان نام نہاد ہی سہی مذہبی پیشواؤں کو بھی نہیں بخشتا جن کے ہم ہاتھ چومتے ہیں، اقبال کی ساری شاعری اس طرح کی باتوں سے بھری پڑی ہے۔
میں اگر اقبال کے کلام کو بین کرنے کی بات کرتا ہوں تو اس کی صرف یہی ایک وجہ نہیں جو میں نے ابھی بیان کی ہے بلکہ اس کی اور بھی بےشمار وجوہات ہیں، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ خدا کے فضل و کرم سے ہمارے حاکم خدا ترس ہیں۔ انہیں ہر لمحہ عوام کی فلاح و بہبود کی فکر رہتی ہے، وہ پاکستان کی خود مختاری کی حفاظت ہر قیمت پر کرتے ہیں، ملک کو خوشحال بنانے کی خاطر غیر ملکی امداد کیلئے وہ ہر دروازے پر جاکر دستک دیتے ہیں مگر اقبال ان کی ان کاوشوں کو خاطر ہی میں نہیں لاتا اور کہتا ہے؛
نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے
خودی، خودی، کی اس تکرار نے ہماری نیندیں حرام کی ہوئی ہیں، کیا خودی کے ذریعے عظیم الشان محلات کھڑے کیے جا سکتے ہیں، کیا خودی سے سوئس اکاؤنٹس کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے، کیا خودی سے اربوں کھربوں کے قرضے لیے جا سکتے ہیں؟ اقبال کی یہ سوچ ہماری قوم کے نوجوانوں کو گمراہ کررہی ہے اور ان کے دلوں میں ظلِ الٰہی کے خلاف باغیانہ خیالات جنم لینے لگتے ہیں، لہٰذا اقبال کو بین کیے بغیر آنے والے حالات پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔
اقبال کی شاعری صرف ہمارے لیے خطرہ نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں جن ملکوں کے عاقل و بالغ ذہنوں نے اپنی خداداد صلاحیت کے بل بوتے پر آدھی دنیا کے وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے اور وہاں ڈمی حکمران مسلط کرکے وہ من مانی کرتے ہیں، اقبال کا کلام ان کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے، وہ قوموں کی آزادی کی بات کرتا ہے اور اس کے پیغام میں اتنی کشش ہے کہ بہت سے اسلامی ملکوں نے غلامی کی زنجیریں اتار پھینکی ہیں۔ وہ سرمایہ داری نظام کا بھی دشمن ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں اس نظام کے خلاف بغاوت ہوگی، اقبال کی شاعری ان کے ہم رکاب ہوگی، آج بہت سے سرمایہ دار ملکوں کے عوام اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اقبال تو کئی مقامات پر اللّٰہ تعالیٰ سے بھی الجھتا ہوا نظر آتا ہے، وہ جب دیکھتا ہے کہ یہ سیارہ جس میں ہم رہ رہے ہیں بربادی کی زد میں ہے، اللّٰہ کی تخلیق یعنی انسان انسانیت کے مقام سے گرتا چلا جارہا ہے تو وہ خدا کو مخاطب کرکے کہتا ہے؛
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا؟
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی
خطا کس کی ہے یارب لامکاں تیرا ہے یا میرا؟
اسی کو کب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا؟
میں چونکہ شاعر نہیں، کالم نگاررہا ہوں اور کالم کی بندشوں میں ایک بندش یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ زیادہ طویل نہ ہو، ورنہ میں آپ کو مزید دلائل سے اس امر کا قائل کرنے کی کوشش کرتا کہ دنیا میں امن اور پاکستان میں موجودہ نظام کو استحکام بخشنے کے لیے اقبال کی شاعری پر پابندی وقت کی اہم ضرورت ہے، مثلاً یہ شاعر یورپ کی ترقی کی ایک وجہ اس کی علم دوستی بھی بیان کرتا ہے، چنانچہ جب وہ اپنے بزرگوں کی کتابیں ان کی لائبریریوں میں دیکھتا ہے تو اس کا دل سی پارہ ہوجاتا ہے اور یوں یہ شاعر دنیا بھر کے مسلمانوں کو علم کے حوالے سے اپنے آباء کی پیروی کرنے پر مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ ایک بار پھر دنیا کی امامت کرسکیں، دوسرے لفظوں میں وہ ہمیں جاہل کہتا ہے، ہمیں علم دشمن کہتا ہے اور اس چیز کو ہمارے زوال کا باعث قرار دیتا ہے۔ یہ سراسر ہماری توہین ہے اور یوں مسلم امہ کی توہین کرنے والے اس شاعر کو بین کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح کئی ایک مقامات پر اقبال خدا کے حضور خواہ مخواہ انسان کا وکیل بن کر پیش ہوتا ہے اور اس کا مقدمہ خدا کی عدالت میں پیش کرتا ہے۔
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
روز حساب جب میرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر
یا وہ کہتا ہے
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک
خود اقبال کو بھی احساس ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے چنانچہ وہ خود ہی کہتا ہے،
”کرتا کوئی اس بندہ گستاخ کا منہ بند“
اب اس کے بعد کیا مجھے مزید کچھ کہنے کی ضرورت رہ جاتی ہے؟