معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
جاوید لطیف کی معافی، ماریہ کی کامیابی
عربی محاورے وسعت کے حوالہ سے صحرائے اعظم اور گہرا ئی کے حوالہ سے پاتال ہوتے ہیں مثلاً ’’لمبی عمر تو ہر کوئی چاہتا اور مانگتا ہے لیکن بڑھاپا کسی کو پسندنہیں‘‘۔ بڑھاپا ہے سیاپا ہی، اسی لئے میں نے رضا کارانہ طور پر ریٹائر ہونے کا فیصلہ کیا جس میں شدت یوں بھی آئی کے چند روز پہلے میں چھوٹے بھائیوں جیسے ارشاد بھٹی سے ان کی اہلیہ کی وفات پر تعزیت کے لئے اسلام آباد گیا اور خود کو اوور ایسٹیمیٹ کرتے ہوئے اگلے روز ہی واپس لاہور روانہ ہوگیا۔ گاڑی کتنی ہی کشادہ اور آرام دہ کیوں نہ ہو، آنیوں جانیوں کی بھی اک عمر ہوتی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ کم از کم ایک دن کا وقفہ رکھتا لیکن نہیں . . . . . ایک تو سفر، اوپر سے 26سالہ بیمار کمر . . . . . نتیجہ یہ کہ ڈیڑھ دو دن بے سدھ پڑا رہا کہ دو بہت ہی مختصر سنگل کالمی خبروں نے نڈھال بندہ کو نہال کردیا، گمشدہ انرجی بحال کردی تو اقبال یاد آیا:
’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘
قیامت کا کیسا سماں کہ ہمیں ہیروز اور ولنز کی شناخت ہی نہیں۔ میں ’’نیوز روم‘‘ کی دنیا سے واقف نہیں سوائے اس کے کہ عباس اطہر اور جواد نظیر میرے دوست تھے، اس لئے عموماً نہ سہی کبھی کبھی نیوز روم والوں کو جو خبریں اہم لگتی ہیں، مجھے روٹین کی، معمولی خبریں محسوس ہوتی ہیں اور جن خبروں کو سنگل کالم میں دفن کردیا جاتا ہے، میرے نزدیک شہہ سرخیوں سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ یہ ’’کنگ سائز‘‘ لیکن ننھی منی خبر میرے لئے اندھی اندھیری رات میں کسی جگنو، ستار ے یا چاند سے کم نہیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف نے وفاقی وزیر مواصلات سے معافی مانگتے ہوئے ایک انٹرویو کے دوران دو ٹوک الفاظ میں کہا . . . . ’’مراد سعید میرے بیٹوں کی طرح ہیں اور ان کی بہنیں میری بہنوں کی طرح ہیں۔ میں ان سے معذرت خواہ ہوں‘‘۔ میں نہیں جانتا کہ جاوید لطیف نے یہ معذرت اپنے کسی بیان پر طلب کی ہے یا اپنے کسی ساتھی کے ہیجان اور ہذیان پر، لیکن یہ بات طے کہ اس ایک معذرت نے میرے دل میں ان کے لئے محبت و احترام پیدا کردیا ہے۔ ادھر ادھر سے تو ہمیں چھتر پولے پڑ ہی رہے ہیں لیکن کمال یہ کہ ہم خودبھی ایک دوسرے کو ذلیل کرنے سے باز نہیں آ رہے۔ خصوصاً سیاستدان جنہیں رول ماڈل ہونا چاہیے، اس معاشرہ کی اخلاقی دھجیاں اڑانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں مصروف رہتے ہیں جس کی انتہا یہ کہ مائیں، بہنیں، بیٹیاں بھی محفوظ نہیں۔ جاوید لطیف نے اس ’’غلاظت کدہ‘‘ پر پھولوں کی چادر چڑھانے کی کوشش کی ہے۔ اللہ اس شخص سے راضی ہو اور باقیوں کو بھی اس کی توفیق دے۔ مراد سعید کوبھی چاہیے جاوید لطیف کو ’’رسید‘‘ پیش کرے تاکہ یہ ’’ وبا‘‘ کورونا کو ری پلیس کرسکے۔ کیا وہ واقعی مسلمان ہے جس کے شر، جس کے ہاتھ اور جس کی زبان سے مسلمان محفوظ نہیں۔ خصوصاً اگر وہ لیڈری کا دعویدار بھی ہو۔ اپنی نسلوں پہ رحم کرو۔ اس ’’فوگ‘‘ اور ’’سموگ‘‘ (سیاسی) میں جاوید لطیف بارش کا پہلا قطرہ ہے، کاش یہ ’’قطرہ‘‘ موسلادھار بارش میں تبدیل ہوسکے۔
ہم تم ہوں گے بادل ہوگا
رقص میں سارا جنگل ہوگا
’’دشمنی‘‘ پر ہی تلے ہو تو صلاح الدین ایوبی اور رچرڈ شیر دل کی باوقار دشمنی یاد رکھو۔
دوسری خبر جس نے جی خوش کر دیا کہ کوئٹہ میں ایک ڈرائیور کی بیٹی ماریہ شمعون نے پبلک سروس کمیشن کے حالیہ امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے یہ ثابت کردیا کہ ہمت، حوصلہ، جذبہ، محنت، ارادہ ہو تو مہنگے سکولوں، مہنگے ٹیوٹرز، مہنگے کھانوں، بیرون ملک تعطیلات، پرتعیش ماحول، آراستہ پیراستہ گھروں اور فارم ہائوسز کے بغیر بھی ’’بازی‘‘ جیتی جا سکتی ہے۔ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی یہ بچی پوری قوم کی بیٹی اور’’پرائیڈ‘‘ ہے۔ یہ بچی اس بات کا اعلان ہے کہ بدترین حالات اور ماحول میں بھی ہر قسم کا ’’ٹارگٹ‘‘ اچیو ایبل ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ قوم کی یہ بیٹی اسسٹنٹ کمشنر بننےکے بعد جب اپنے کیریئر کے عروج تک پہنچے گی تو اس پریشان حال قوم کی بے شمار بیٹیوں کے لئے چراغ راہ اور ’’سورس آف انسپائریشن‘‘ ثابت ہوگی۔ کتنا اچھا ہوتا اگر ٹی وی چینلز سے لے کر اخباروں کے سنڈے میگزینز تک ماریہ شمعون اس ملک کے بچوں کو اپنے حالات، معمولات اور ترجیحات کے بارے میں بتاتی لیکن میڈیا کی اپنی ہی دنیا ہے جو مخصوص گھسے پٹے چہروں، ناموں اور بیانوں کے گرد گھومتے رہنے سے تھکتی ہی نہیں۔ مختصراً یہ کہ ماریہ نے ثابت کردیا ہے کہ مشکل ترین حالات کے بے رحم جبڑوں سے بھی اپنا حق چھینا جا سکتا ہے۔ اس بچی نے ثابت کردیا کہ مری ہوئی مچھلیاں ہی بہائو کے ساتھ بہنے پر مجبور ہوتی ہیں جبکہ زندہ مچھلی بہائو کے مخالف جا کر بھی منزل تک پہنچی سکتی ہے۔ CINCE LOMBARDI لکھتا ہے:
“THE DIFFERENCE BETWEEN AN UNSUCCESSFUL PERSON AND OTHERS IS NOT A LACK OF STRENGTH, NOT A LACK OF KNOWLEDGE, BUT RATHER A LACK OF WILL.”
اور یہ محاورہ بھی شاید ماریہ کے لئے ہی معرض وجود میں آیا تھا کہ :
“SUCCESS IS SWEET, BUT ITS SECRET IS SWEAT”
واقعی محنت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے پسینے کے چند قطرے، پوری زندگی کو خونم خون ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
جاوید لطیف کا شکریہ
ماریہ کے لئے مبارکباد، شاباش اور دعائیں۔
میرے نزدیک یہ دو چھوٹی چھوٹی سی خبریں لانگ مارچوں اور عدم اعتماد کی تحریکوں سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔