معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
غداروں کا ملک!
میں ان دنوں بہت پریشان ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کس ملک میں پیدا کر دیا چاروں طرف غدار ہی غدار ہیں، میڈیا غدار ہے، عدلیہ غدار ہے، آرمی غدار ہے،22 کروڑ آبادی کی بہت بڑی اکثریت غداروں پر مشتمل ہے ماسوائے ایک کے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہ غدار ہیں، پارلیمنٹ غدار ہے، صرف چند لاکھ وہ لوگ محبِ وطن ہیں جو امریکہ اور مغربی ممالک کے پاسپورٹ لیکر وہاں جاآباد ہوئے ہیں چنانچہ وہ وہاں تالیاں بجاتے گائے ہوئے غداروں کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں وہاں کا میڈیا انہیں خوب کوریج دیتا ہے، وہ خوش ہے کہ ایسے جی دار لوگ موجود ہیں جو پاکستان ایسے خطرناک ملک جو جوہری توانائی کا حامل ہے اور یوں پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے، کو پورے جوش و خروش سے پوری دنیا کے سامنے ایکسپوز کر رہے ہیں۔
ادھر پاکستان میں میری طرح کے بہت سے لوگ پریشان ہیں کہ ایک شخص شہر درشہر جلسے کرتا ہے، لوگوں کو کھلے عام اکساتا ہے کہ غدار جہاں بھی نظر آئیں ان کا وہیں ’’بندبست‘‘ کرو، ان کا گھر سے نکلنا ناممکن بنا دو ان کے بچوں سے کوئی شادی نہ کرے مگر شادیاں تو ہونا ہی ہوتی ہیں وہ تو نہیں روکی جا سکتیں مگر ’’بندوبست‘‘ والی ہدایت پر مکمل طور پر عمل کررہا ہے۔ ایک ’’محب وطن‘‘ نے اپنے انتہائی عزیز دوست کو صرف اس بنا پر قتل کر دیا کہ وہ اس کے لیڈر کو برا بھلا کہتا تھا یہ شخص پولیس کی تحویل میں بیان دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اسے اپنے اس فعل پر اسےکوئی ملال نہیں۔ پاکستانی ایئر پورٹ پر اگر کسی ’’محبِ وطن‘‘ کو کوئی ’’غدار‘‘ نظر آ جائے تو اس پر آواز ے کسے جاتے ہیںلاہور کے ایک ریستوران میں کچھ ’’غدار‘‘ اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے چائے پی رہےتھے کہ ایک ’’محبِ وطن‘‘ جو اپنی فیملی کے ساتھ وہاں موجود تھا اس نے انہیں خواتین کی موجودگی میں ننگی ننگی گالیاں دینا شروع کر دیں اس قسم کا واقعہ لندن کے ایک ریستوران میں بھی پیش آیا اور کمال کی بات یہ ہے کہ ’’محبِ وطن‘‘ قیادت کی طرف سے خانہ جنگی کی طرف لے جانے والے ان واقعات کی نہ صرف کبھی مذمت کی گئی بلکہ اس کا جواز پیش کیا گیا۔دشمن اس صورتحال پر کتنا خوش ہے اس کا اندازہ اس ویڈیو کلپ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں ایک ریٹائرڈ انڈین فوجی افسر برملا یہ بات کہہ رہا ہے کہ انڈیا اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اربوں روپے خرچ کرکے بھی پاکستان کو اس طرح تباہی کی طرف نہیں لے جا سکتا تھا جو پاکستان کے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک موجود ’’محبِ وطن‘‘لوگ اس ملک کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔
یہاں میں ایک وضاحت ضرور سمجھتا ہوں اور یہ کہ فاشسٹ قیادت باکمال خطابت، پورے اطمینان کے ساتھ بولے جانے والے جھوٹ اورسوشل میڈیا کی اعلیٰ مہارت رکھنے والوں کی شبانہ روز کوششوں کے نتیجے میں عوام کا ایک طبقہ اس سارے پراپیگنڈے کو سچ سمجھ کر پاکستان کو بچانے کے لیے ان کا آلہ کار بن رہا ہے یہ سادہ لوح لوگ غدار نہیں ہیں بلکہ اتنے ہی محبِ وطن ہیں جتنے باقی پاکستانی ہیں انہیں صورتحال کی اصل صورت دکھائی جا سکتی تھی اگر حکومت پراپیگنڈے کے جدید ترین اصولوں سے نہ صرف واقف ہوتی بلکہ ان کا بھرپور استعمال بھی کرتی مگر پرابلم یہ ہے کہ یا تو حکومت کو اس خطرے کا پوری طرح احساس نہیں ہے جو ملک کو تباہی کی طرف لے جانے والا ہے اور یا اس میں اتنی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ ابھی تک’’کرپشن کرپشن‘‘ کے نعرے لگا کر عوام کے ایک حصے کو متاثر کرنے کا توڑ ہی نہیں کیا گیا حالانہ سابقہ حکومت کرپشن میں پوری طرح لتھری ہوئی تھی ممکن ہے ان کے خلاف کیس تیار کئے جا رہے ہوں مگر رفتار اتنی سست ہے کہ ’’تا تریاق از عراق آوردہ شود، مارگزیدہ مردہ بود ‘‘یعنی جب تک عراق سے سانپ کے کاٹے کا تریاق آئے گا اتنے عرصے میں سانپ کا کاٹا زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا ہو گا آپ اندازہ لگائیں کہ سابقہ حکومت نے موجودہ حکومت کے کئی قائدین بغیر کسی ثبوت کے کال کوٹھری میں بند کر دیئے تھے اور ان پر ہر طرح کا تشدد کیا گیا تھا ان میں موجودہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ بھی شامل تھے اور دوسری طرف موجودہ حکومت تمام تر ثبوت موجود ہونے کے باوجود مقدمے کی کارروائی کا آغاز بھی نہیں کر سکی، ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ مسائل کے اتنے ڈھیر جمع ہوگئے ہوں کہ ان سے مطلوبہ فراغت ہی نہ ملتی ہو وجہ جو بھی ہو ابھی تک سارا پراپیگنڈہ ایک طرف سے ہو رہا ہے اور بہت موثر انداز میں ہو رہا ہے۔
آپ یقین جانیں میں یہ کالم آسانی سے نہیں لکھ رہا بلکہ سخت شش وپنج کے عالم میں لکھ رہا ہوں کہ قوم کو خانہ جنگی کی طرف لے جانے والی قوتیں اگر اپنے اس مذموم مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو پاکستانی عوام کے مقدر میں جو تباہی آئے گی اسے سوچا بھی نہیں جا سکتا اور بیان بھی نہیں کیا جا سکتا اس صورت میں گروندےبچیں گے اور نہ عالی شان محل سیاسی کارکنوں کی جگہ بدمعاش اورلٹیرے کونوں کھدروں سے نکلیں گے اور گھروں میں گھس کر صرف لوٹ مار نہیں کریں گے بلکہ عصمتیں بھی لوٹی جائیں گی اور یہ لوگ ایسا کرتے وقت یہ نہیں دیکھیں گے کہ جس گھر میں وہ گئے ہیں وہ کس جماعت کے لوگوں کا گھر ہے اللہ نہ کرے پاکستان پر کبھی ایسا وقت آئے لیکن زہریلی زبان بولنے والوں پر بہرحال قدغن لگانا ہو گی۔