معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
رب مہربان تو سب مہربان
آپ کو شاید یہ بات کچھ عجیب سی لگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کالم نگاری سے لیکر اداکاری، مصوری اور گلوکاری تک میں بھی چپ بورڈ، پلاسٹک، فائبر گلاس اور گتہ وغیرہ تھوک کے بھائو استعمال ہوتا ہے میرا اشارہ ایسے ’’فنکاروں‘‘ کی طرف ہے جو اپنا اپنا کام تو ٹھیک ہی کر رہے ہوتے ہیں لیکن طویل اننگز کے باوجود ان کو پذیرائی نصیب نہیں ہوتی ۔وہ پوری زندگی خود ہی اپنی ’’مداحی‘‘ میں گزار دیتے ہیں اورALSO RANسے آگے نہیں بڑھ پاتے، وکٹری سٹینڈ تو بہت دور کی بات ہے حالانکہ صاف دکھائی دے رہا ہوتا ہے کہ بندہ ’’زور‘‘ بہت لگا رہا ہے ۔ایسے لوگوں کیلئے کچھ لوگ ’’بے برکتا‘‘ اور ’’ بددعایا‘‘ ہوا جیسے لفظ بھی استعمال کرتے ہیں حالانکہ ایسا تو نہیں ہوتا لیکن یہ بات طے ہے کہ ان میں ’’ایکس فیکٹر‘‘ کی شدید کمی ہوتی ہے۔ یہ بات حسن وجمال پر بھی اپلائی ہوتی ہے کہ عورت ہو یا مرد خوبصورتی کے ہر معیار پر پورے ہوتے ہیں لیکن کشش اور جاذبیت ان کے قریب سے بھی نہیں گزری ہوتی ۔پھیکے پھیکے اور پھوکے پھوکے سے ہوتے ہیں جس کی ایک معمولی سی مثال ماضی کی ایک بھارتی اداکارہ راکھی تھی جسے آپ تکنیکی طور پر انتہائی حسین کہہ سکتے ہیں لیکن ’’بہت کہیں کہ ہے نہیں ہے ‘‘ والا قصہ تھا ۔ اسی طرح برصغیر پاک وہند کی سینما ہسٹری میں دلیپ کمار صاحب کے بعد اگر واقعی کوئی اداکار تھا تو وہ سنجیو کمار تھا ۔انتہا یہ کہ سنجیو کمار دلیپ کمار صاحب کے ساتھ ’’سنگھرش‘‘ میں کاسٹ ہوا ۔ آج بھی یہ فلم دیکھیںتو بندہNECK TO NECK پرفارمینس دیکھ کر ششدر رہ جاتا ہے لیکن سنجیو کمار سپرسٹارڈم کے قریب بھی نہیں پھٹک سکا ۔ یہی حال مہندر کپور کا تھا جسے خود رفیع صاحب بھی بہت پیار کرتے لیکن وہ بمشکل بی کلاس کے گرد ہی گھومتے گھومتے گم ہو گیا۔خود پاکستان میں بھی جمیلہ رزاق سے لیکر جمیل نامی اداکار سمیت بہت سے لوگ آئے اور چلے گئے لیکن کسی نے ان کی اداکاری یا آمدورفت کا نوٹس تک نہیں لیا۔یہی کچھ ہمارے بہت سے گلوکاروں کے ساتھ بھی ہوا کہ اعلیٰ فنکار ہونے کے باوجود دال دلیہ ہی کر سکے اور ’’مولوی مدن‘‘ کی سی بات پیدا نہ ہو سکی ۔انڈین سینما کی تاریخ میں اک عام سی شکل وصورت والا درمیانہ سا اداکار تھا جس نے عرصہ تک کہرام مچائے رکھا۔نام تھا اس کا راجیش کھنہ جو نیا نیا آیا تو لوگ اسے ’’گورکھا‘‘ کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے لیکن یہی گورکھا ایسا ہٹ ہوا کہ انڈین میڈیا اس کے بارے بار بار یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا ’’اوپر آقا نیچے کاکا‘‘ یاد ررہے کہ راجیش کھنہ کا نک نیم کاکا تھا ۔مختصراً یہ کہ ٹیلنٹ اور محنت یا دونوں کا کمبی نیشن اپنی جگہ لیکن اصل بات یہی ہے کہ ’’رب مہربان تو سب مہربان‘‘ ورنہ جتنی مرضی باندر ٹپکیاں مار لو۔ رہو گے ایکسٹرا کے ایکسٹرا۔ دوسری طرف یہی راجیش کھنہ جب تکبر کی چوٹی سے پھسلا تو خدا کی پناہ۔آخری دنوں میں کسی اشتہاری کمپنی نے کسی اشتہاری فلم کیلئے اسے کاسٹ کیا ۔یہ اشتہاری فلم کسی مشہور الیکٹرک فین کے بارے میں تھی۔راجیش کھنہ مقررہ وقت پر پنکھے بنانے والی فیکٹری میں پہنچا تو چند سطروں پر مشتمل ٹی وی اشتہار کا سکرپٹ اسے دیا گیا تو وہ اسے پڑھتے ہوئے مسکرایا۔اشتہاری کمپنی کے ڈائریکٹر نے پوچھا ’’کھنہ صاحب ! آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں ؟‘‘ تو راجیش کھنہ نے کہا ’’اگر آپ میرے کہنے پر
سکرپٹ تبدیل کر دیں تو آپ کا یہ ٹی وی اشتہار بہت مقبول ہو گا‘‘ اس نے کہا ’’چلیں آپ لکھیں‘‘ تو راجیش کھنہ نے اسی سکرپٹ پر ایک جملہ لکھا ۔
ــ”THESE ARE THE ONLY FANS, I AM LEFT WITH”
ڈائریکٹر نے پڑھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔پھر جب پنکھوں کے جھرمٹ میں بیٹھے راجیش کھنہ نے یہی ایک جملہ بولا تو بھارت میں اس اشتہار نے دھوم مچا دی ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ’’ایکس فیکٹر‘‘ ہے کیا ؟اس کی DEFINITIONکیا ہے ؟ تو سادہ سا جواب تو یہی ہے کہ اگر اس کی کوئی تعریف کی جا سکتی تو اسے ’’ایکس فیکٹر‘‘ کیوں کہا جاتا۔یہ لفظ استعمال ہی اس لئے ہوا کہ اسے ڈی فائن کرنا ممکن ہی نہیں لیکن میں طویل سوچ بچار کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں جس کا صحیح ہوناقطعاً ضروری نہیں کہ جن میں ’’ایکس فیکٹر‘‘ کا فقدان ہوتا ہے ان میں میل، ملاوٹ اور اک خاص طرح کی منافقت ہوتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ اک خاص قسم کی پاکیزگی، بھولپن، سادگی، برجستگی، اور یجنیلٹی کی کمی ہوتی ہے ۔ یہ بہت چتر چالاک اور مکینیکل قسم کے کتابی، نصابی، حسابی قسم کی مخلوق ہوتے ہیں جنہیں اپنے بارے میں احمقانہ قسم کی غلط فہمیاں ہوتی ہیں۔راولپنڈی کا بلراج ساہنی بھی باکمال فنکار تھا حالانکہ باقاعدہ تربیت نہیں تھی ۔اس نے اپنے بڑے اور لاڈلے بیٹے پریکشٹ ساہنی کو یورپ یا شاید امریکہ سے فلم اور ڈرامہ وغیرہ کی اعلیٰ تعلیم دلوائی لیکن تمام تر اثرو رسوخ اور باپ کی لیگسی کے باوجود وہ زندگی بھر سی کلاس فنکار ہی رہا کیونکہ اس کے کام میں چپ بورڈ، پلاسٹک، فائبر گلاس اورگتے وغیرہ کا عنصر بہت زیادہ تھا ۔باپ بیٹے میں زندگی بھر وہی فرق قائم رہا جو خالص لیدر اورریگزین میں ہوتا ہے ۔
منو بھائی مرحوم ’’ایکس فیکٹر‘‘ کیلئے ’’شٹرنگ‘‘ کا لفظ استعمال کیا کرتے تھے مثلاً فلاں لکھنے والے میں ایک خاص طرح کی ’’شٹرنگ‘‘ ہے یا فلاں لکھتا تو اچھا ہے لیکن اللّٰہ نے اسے ’’شٹرنگ‘‘ سے نہیں نوازا۔ یہ وہی فرق ہے جو صادقین، چغتائی، غلام رسول، سعید اختر، مرشد اور ان مصوروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں ٹاپ کیا ہوتا ہے لیکن زندگی بھر کینوس پر سر پٹخنے کے باوجود چغتائی یا صادقین نہیں بن سکتے سو کسی بھی قسم کے تخلیقی، نیم تخلیقی کام کیلئے ضروری ہے کہ اپنے اندر ’’روحانیت‘‘ کا ایک ننھا منا سا چراغ بھی ضرور جلائیں جس میں تھوڑا سا خون جگر ہو کہ یہی اس چراغ کا ’’تیل‘‘ ہے ۔کلرکانہ کاوشوں سے کام نہیں بنتا، ڈنگ ٹپائی ہی ہوتی ہے او رحسد تو ویسے ہی ایسی آگ ہے جو سونے کو کندن نہیں بناتی ،راکھ بنا دیتی ہے۔