کھوئے والی، باداموں والی قلفی!

میں کافی عرصے سے قاسم علی شاہ کی باتوں میں آ کر لوگوں کے بارے میں حسنِ ظن سے کام لیتا رہا ہوں، صرف یہی نہیں بلکہ لوگوں کے حوالے سے ایسی مصدقہ اطلاعات بھی مجھ تک پہنچتی رہتی ہیں، اگر میں وہ عام کردوں تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔ میں آج بھی ایسے لوگوں کا نام نہیں لوں گا کہ قاسم علی شاہ صاحب مسلسل پردہ داری کی تلقین کرتے رہتے ہیں چنانچہ نام لیے بغیر میں آپ کو ایک بیورو کریٹ کے متعلق بتانا چاہتا ہوں کہ وہ حکومت کو لٹ کر کھا گیا ہے، اس نے کھربوں روپے کمائے ہیں اور یہ رقم اس فنڈ سے بھی زیادہ ہے جو اس کے ’’زیر دام‘‘ آئے تھے۔ یہ اطلاع ایک ’’مصدقہ‘‘ ذریعے سے مجھ تک پہنچی ہے، تاہم اس مصدقہ ذریعہ کی تصدیق کے لیے میں آج دو نفل ادا کروںگا اور پھر غیب سے جو آواز آئے گی مجھے یقین ہے کہ وہ اس ’’مصدقہ‘‘ ذریعے کی تصدیق ہی ہوگی۔ بالفرض اگر ایسا نہیں ہوتا بلکہ غیب سے میرے سر پر ٹھاپیں مار دی جائیں اور صلواتیں سنائی جائیں تو میں سمجھوں گا کہ یہ میرا امتحان لیا جا رہا ہے کہ اس سرزنش کے باوجود میں اپنےسچے انکشافات پر قائم رہتا بھی ہوں کہ نہیں؟

میں نے آج تک اپنے دوستوں کو یہ بات نہیں بتائی کہ پیرزادہ خاندان سے تعلق کی وجہ سے مجھے ایسی آوازیں سنائیں دیتی رہتی ہیں بلکہ میں اگر کسی کے پاس سے بھی گزر جائوں تو اس کی باڈی لینگویج بلکہ اس کے جسم سے نکلنے والی شعائیں مجھے اس کے کردار کی ایچی بیچی بتا دیتی ہیں۔ کل بازار سے گزرتے ہوئے میں نے ایک شخص کو دیکھا، اس کے بدن سے نکلنے والی شعائوں سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ بھی ایک کرپٹ انسان ہے۔ پھر مجھے القا ہوا کہ اس شخص نے سرکاری خزانے سے اپنے دستخطوں کے ساتھ دس لاکھ روپے کی ’’مقوی‘‘ گولیاں درآمد کی ہوں گی جو ان لوگوں میں فری تقسیم کرتا ہوگا جو مطمئن ازدواجی زندگی نہیں گزار رہے۔ میں نے اسے روکا اور اس کی یہ حرکت اسے بتائی تو وہ حیران رہ گیا۔ اس نے میرے ہاتھ کو بوسہ دیا اور کہا پیر، مرشد، آپ کا نورانی چہرہ اور آپ کا یہ کشف مجھے حیران کر رہا ہے مگر آپ یقین جانیں کہ میں نے اپنے دستخطوں سے سرکاری خزانے سے یہ محیرالعقول کام نہیں کیا اور اس پر یقین کرنابھی ناممکن ہے۔ لیکن اگر کوئی کہہ رہا ہے تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میرا یہ کرنے کا ارادہ ہے تاکہ سردیوں کی شاموں میں اداس پھرنے والے ان دوستوں کا گھر میں بھرم رہ سکے۔ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے کشف سے میرے دل کی بات بھانپ لی۔

میرے ’’مصدقہ‘‘ ذرائع نے مجھے ایک عالم دین کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ عالم دین نہیں بلکہ اس کے والدین نے اس کا نام علم دین رکھا تھا جس کی وجہ سے وہ عالم دین مشہور ہوگیا۔ اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ میرے سامنے ظہور پذیر ہوا تھا، جب ریل کی سیٹی بج گئی اور ٹرین آہستہ آہستہ سرکنے لگی تو ایک شخص کا اسلام نامی بیٹا کہیں پلیٹ فارم پر ہی رہ گیا اس کے والد نے پوری قوت سے اسے پکارا ’’اسلام‘‘ اس کے جواب میں پلیٹ فارم پر کھڑے سینکڑوں لوگوں نے پورے جذبے سے جواب دیا ’’زندہ باد‘‘ اس پر اسلام کے والد نے جھلا کر پھر اسلام کو پکارا،اس بار پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ لوگوں نے ’’زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا اور یوں ’’اسلام‘‘ بے چارہ پلیٹ فارم ہی پر کھڑا رہ گیا اور گاڑی آگے نکل گئی۔

میرے پاس ’’مصدقہ‘‘ خبروں کے ڈھیر کے ڈھیر پڑے ہیں، ان میں سے کچھ آپ اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں مگر میری ہدایت کے مطابق وہ میرا نام نہیں لیتے کیونکہ میں نے انہیں کہا ہوا ہے کہ وہ کسی کا نام نہ لکھیں کہ میںلوگوں کے عیوب پر پردہ ڈالنے کا حامی ہوں، مگر رپورٹر نہ صرف یہ کہ میری ہدایت پر عمل نہیں کرتے بلکہ مزید نمک مرچ لگا کر اپنی اسٹوری فائل کر دیتے ہیں اور لوگ فوراً ’’آمنا و صدقنا‘‘ کہتے ہوئے ہر ناقابل یقین خبر پر یقین کر بیٹھتے ہیں۔ ان دنوں میں ایک اور کام کرنے لگا ہوں۔ ’’مصدقہ‘‘ خبروں کے علاوہ جن کی تصدیق کی ضرورت کوئی محسوس نہیں کرتا، اپنے اینکر دوستوں سے بھی رابطہ کرنے والا ہوں۔ وہ اکثر بتاتے ہیں کہ خلوت میں ایجنسیوں والے انہیں کیا خبریں دیتے ہیں۔ حکومتی اور اپوزیشن کے ارکان اپنی پارٹی کے خلاف کیا باتیں کرتے ہیں، مجھے یہ افسوس نہیں کہ یہ سب لوگ مجھ ایسے لائوڈ اسپیکر کا نام کیوں نہیں لیتے، میں ان خبروں میں دس گنا زیادہ ’’فاسد‘‘ مواد کا اضافہ کرکے پبلک کے سامنے پیش کروں گا اور اس کے پیچھے میرا مقصد کسی کو بدنام کرنا نہیں کیونکہ میں نام تو لوں گا نہیں، میرا مقصد پاکستان کو ترقی کی راہ پر لانے کے لیے اس فرسودہ جمہوری نظام کا خاتمہ کرنا ہے۔ جب کبھی جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی ہم نے کیا کچھ پایا اور کیا کچھ کھویا۔ میں یہ لکھتے ہوئے بھی پردہ داری سے کام لے رہا ہوں تاکہ اگر کوئی چاہے تو ’’پایا‘‘ سے میری مراد سری پائے اور ’’کھویا‘‘ سے مراد ’’کھوئے والی باداموں والی قلفی‘‘ قرار دے ڈالے۔ امید ہے آج میرے اس تھوڑا لکھے کو ’’بوتا‘‘ سمجھا جائے گا، گھر میں سب بچوںکو درجہ بدرجہ سلام دعا!

اور اب آخر میں ایک دوست کی بھیجی ہوئی پوسٹ جو ہمارے معاشرے کی ایک تلخ تصویر ہے۔

میاں بیوی(عجیب کہانی)

تم اور میں کبھی بیوی اور شوہر تھے،پھر تم ماں بن گئیں اور میں باپ بن کے رہ گیا۔تم نے گھر کا نظام سنبھالا اور میں نے ذریعہ معاش کا اور پھرتم ’’گھر سنبھالنے والی ماں‘‘ بن گئی اور میں کمانے والا باپ بن کر رہ گیا۔بچوں کو چوٹ لگی تم نے گلے لگایا اور میں نے سمجھایا لیکن تم محبت کرنے والی ماں بن گئیں اور میں صرف باپ ہی رہ گیا۔بچوں نے غلطیاں کیں تم ان کی حمایت کر کے’’Understanding Mom‘‘ بن گئیں اور میں ’’نہ سمجھنے والا‘‘ باپ بن کے رہ گیا۔’’بابا ناراض ہوں گے‘‘ یہ کہہ کر تم اپنے بچوں کی”Best Friend” بن گئیں اور میں غصہ کرنے والا باپ رہ گیا۔تم روزانہ بچوں سے رازونیاز کرتے ہوئے اپنا مستقبل محفوظ بناتے ہوئے بچوں کے ذہنوں میں زہر منتقل کرتی گئیں اور میں فقط گھر کا مستقبل بنانے کے لیے اپنا آج برباد کرتا گیا۔ تمہارے آنسوؤں میں ماں کا پیار نظر آنے لگا اور میں بچوں کی آنکھوں میں فقط بے رحم باپ رہ گیا۔تم چاند کی چاندنی بنتی چلی گئی اور پتہ نہیں کب میں سورج کی طرح آگ اگلتا باپ بن کر رہ گیا۔ تم ایک ’’رحم دل اور شفیق ماں‘‘ بنتی گئیں اور میں زندگی کا بوجھ اٹھانے والا صرف ایک باپ یا یوں کہہ لو بوجھ اٹھانے والا گدھا بن کر رہ گیا۔ پسند اپنی اپنی، نصیب اپنا اپنا۔