معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
سانحہ مری۔ ذمہ دار کون ؟
مری اور گلیات میں برف باری پہلی مرتبہ نہیں ہوئی۔ ہاں البتہ پاکستان میں سونامی (تباہی) سرکار پہلی مرتبہ لائی گئی ہے لیکن اس سرکار کو آئے ہوئے بھی اب تین سال سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا اور اب تو اسے تھوڑا بہت سیکھ جانا چاہئے۔ تمام ایسے علاقے جہاں برف باری ہوتی ہے، کے لیے پہلے سے ایک نظام اور ایس اوپیز موجود ہیں ۔ ہر سال برفباری کے موسم سے پہلے متعلقہ حکام ان پر عمل کرتے ہیں ۔ مثلاً برف ہٹانے والی مشینیں اور ٹریکٹر وغیرہ متعلقہ جگہوں پر پہنچا دی جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اب اگر وہ مشینیں اسٹور میں کھڑی ہوں اور شدید برفباری ہوجائے تو اِن حالات میں ان کا کوئی فائدہ نہیں ۔ مری، میاں نواز شریف کی جبکہ نتھیاگلی عمران خان کی پسندیدہ جگہ ہے، اس لیے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے اپنے ہر دور میں مری پر اربوں روپے خرچ کئے ۔ مری ایکسپریس وے اس کی ایک مثال ہے ۔سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے 1122کے نظام سے بھی مری کو فائدہ ہوا لیکن سب سے اہم بات یہ تھی کہ میاں شہباز شریف اور چوہدری پرویز الٰہی کے ادوار میں وہ پہلے بطور وزیراعلیٰ اجلاس منعقد کرتے ۔ متعلقہ سیل اور اداروں کو متحرک کرتے ۔ برف ہٹانےو الی مشینیں اور نمک یا دیگر لوازمات متعلقہ مقامات پر پہنچائے جاتے اور بعض مواقع پر مری کو اضافی نفری بھی دی جاتی لیکن اس مرتبہ بزدار حکومت نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ مری سے منتخب ہونے والے پی ٹی آئی کے ایم این اے صداقت عباسی نے بھی پنجاب حکومت سے یہ کام نہیں کروائے ۔ چنانچہ جب فرسٹریشن کا شکار لوگوں نے دیکھا کہ مری میں برفباری ہوئی تو وہ جوق درجوق مری کی طرف جانے لگے ۔اِن حالات میں وزیراطلاعات فواد چوہدری کا ٹویٹ آیا جس میں انہوں نے مری کے حالات کو سیاحت کے فروغ اور معیشت کی بہتری کے لیے دلیل کےحق میں استعمال کیا جبکہ اسی دن محکمہ موسمیات کی طرف سے شدید برفباری کی وارننگ جاری کی گئی تھی لیکن اس وارننگ کی حکومت کی طرف سے کوئی تشہیر ہوئی اور نہ ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی تیاری کی گئی۔ وہ حکومت جس کے وزیراعظم سے لے کر ایم این اے تک اور وزیراعلیٰ سے لے کر ہر ایم پی اے تک، ہر کوئی وزیراطلاعات ہے اور جس کی تمام تر توجہ ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے پر ہے، اس حکومت نے اس وارننگ سے لوگوں کو آگاہ نہیں کیا۔ اس سانحہ کے بعد جب میں نے محکمہ موسمیات کی ویب سائٹ کو وزٹ کیا تو پہلی مرتبہ میں اس وارننگ کو سامنے لایا حالانکہ وہ 5جنوری سے وہاں پر موجود تھی ۔ محکمہ موسمیات کی پریس ریلیز کے آخری پیراگراف کے الفاظ یہ ہیں کہ 6 سے 9 جنوری کی دوپہر تک مری،گلیات ،دیر، سوات، چترال، ناران، کاغان، ہنزہ، گلگت، اسکردو، ہنزہ،نیلم ولی،باغ اور حویلی کے اضلاع میں (برفباری کی وجہ سے) رابطہ سڑکیں بند ہونے کا خدشہ ہے۔ سیاحوں کو محتاط رہنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی جبکہ آخر میں نوٹ کے طور پر تمام اداروں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس تنبیہ کے باوجود متعلقہ ادارے محتاط اور الرٹ کیوں نہ ہوئے؟
محکمہ موسمیات کے اس الرٹ کی تشہیر کس کی ذمہ داری تھی ؟ اور ہنگامی صورت حال کے لیے اداروں کو الرٹ کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟ ظاہر ہے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ،جو پوری نہیں کی گئی ۔ تو پھر جو کچھ ہوا اس کے ذمہ دار وفاقی حکومت کے سربراہ عمران خان اور صوبائی حکومتوں کے سربراہان یعنی عثمان بزدار اور محمود خان کے سوا اور کون قرار پاتا ہے ؟ واضح رہے کہ محکمہ موسمیات نے یہ الرٹ سوات، چترال اور کاغان ناران کے بارے میں بھی جاری کیا ہے۔ وہاں پر بھی کئی جگہوں پر سڑکیں بند ہیں۔ مری کے سانحہ کے بعد کئی سیاحوں نے وہاں کا رُخ کیا ہے لیکن تادم تحریر خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے ان علاقوں سے متعلق دیگر تیاریاں تو دور کی بات ہے ،عوام کو محتاط رہنے کی ہدایت بھی نہیں کی گئی، اگر ایسا کیا گیا ہے تو مجھے آگاہ کیا جائے۔ کل اگر خاکم بدہن وہاں بھی کوئی سانحہ رونما ہوجائے تو پھر حکومتی وزرا عوام کو الزام دیں گے کہ وہ وہاں کیوں گئے ؟
اب ایک اور حوالے سے دیکھ لیجئے ۔ وفاقی حکومت جس کے سربراہ عمران خان ہیں کا ایک ذیلی ادارہ ہے جسے این ڈی ایم اے (نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی) کہا جاتا ہے ۔ اس ادارے کا دفتر وزیراعظم سیکرٹریٹ میں ہے ۔ اس ادارے کی ہر صوبے میں برانچیں پی ڈی ایم اے (پرونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی)کے نام سےموجود ہیں ۔ اس ادارے نے بھی5 جنوری کو یہ ٹویٹ جاری کیا کہ :’’ وہ برفباری سے پیدا ہونے والی صورت حال کو ملک بھر میں مانیٹر کررہی ہے ، تمام صوبائی پی ڈی ایم ایز کے ساتھ بھی رابطے میں ہے ۔ جب اور جہاں ضرورت ہوگی تو لوگوں کو مدد فراہم کی جائے گی ‘‘۔
اب سوال یہ ہے کہ مری کے حوالے سے یہ تیاری کہاں تھی اور وہاں مددکیلئے پکارنے والوں کو یہ مدد کیوں نہ پہنچ سکی؟
حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ ہوا ، وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی اور بدانتظامی ہی کا نتیجہ ہے اور جو لوگ لقمہ اجل بنے اور تکالیف سے گزرے یا گزر رہے ہیں، ان کے ہاتھ روز قیامت ان حکمرانوں کے گریبانوں میں ہوں گے ۔ تاہم حکومت نے سانحہ مری کے حوالے سے ایک بہتر عمل کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ یہ کہ اس سانحے کو زرداری اور نواز شریف کے کھاتے میں نہیں ڈالا۔ تاہم اب بھی امکان ہے کہ اگر دبائو زیادہ بڑھ جائے تو عمران خان اور ان کے ترجمانوں کی طرف سے یہ بیانیہ اپنا لیا جائے کہ ”چونکہ شاہد خاقان عباسی کا تعلق مری سے ہے ۔ اس لیے شہباز شریف کے ساتھ مل کر انہوں نےکئی سال تک برفباری کو (نعوذباللہ) مصنوعی طریقے سے روکے رکھا اور اب ہماری حکومت کی مجبوری تھی کہ ڈالر اور روپے کی طرح برفباری کے معاملے کو بھی توازن پر لانے کے لیے برف کو اپنی مرضی سے گرنے کی اجازت دے۔