خبر در خبر

سادگی اور معصومیت کی انتہا ہے کہ ہم نے نواز شریف کے ایک بےضرر سے سفر کو بھی نہ صرف خبر بنا دیا بلکہ اس میں سنسنی بھی بھر دی۔ نواز شریف نے اگر بیٹوں کے ساتھ ’’بیماری‘‘ کی حالت میں لندن سے 425کلو میٹر دور نیلسن کے علاقہ میں کسی فیکٹری کا دورہ کیا تو اس میں خبر کہاں سے آ گئی؟ خبر تو تب بنتی اگر حضرت کسی لائبریری کا دورہ کرتے یا شیکسپیئر کا گھر دیکھنے جاتے۔ ایک کاروباری سا بندہ فیکٹریوں کے دورے نہ کرے گا تو کیا کتب خانوں اور تاریخی مقامات پر اپنا قیمتی وقت برباد کرے گا؟ میں نے برسوں پہلے اس کلاس کو ڈی فائن کرتے ہوئے ایک سے زیادہ بار لکھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ’’دولت بذریعہ سیاست اور سیاست بذریعہ دولت‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔ سیاست ان کیلئے صنعت و تجارت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ورنہ آج پاکستان IMFسے ایک ارب ڈالر قسط پر لڈیاں نہ ڈال رہا ہوتا۔ نواز شریف تو سر تا پا کاروباری آدمی ہے جبکہ زہریلی ترین حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری سیاست میں تو غیرکاروباری لوگ بھی کاروباری بن جاتے ہیں اور کمشنوں، کک بیکوں کے نشوں میں ایسے غرق ہوتے ہیں کہ باقی سب کچھ بھی لے ڈوبتے ہیں۔ نواز شریف صاحب تو ایسے سیاسی سوداگر ہیں جن کے کمشنوں، کک بیکوں پر گوروں نے اپنی کتابوں میں بھی ’’خراجِ تحسین‘‘ پیش کیا ہے لیکن مجال ہے جو انہوں نے ریمنڈ بیکر جیسوں پر مقدمہ کرنے کا رسک لیا ہو کہ اس طرح بھانڈا گلوبل ویلیج کے چوراہے میں پھوٹ جاتا۔اور اب چلتے ہیں اک اور خبر کی طرف جو واقعی خبر ہے۔ کوا بہت زندہ دل، شرارتی، سمارٹ اور دلچسپ پرندہ، شعروں اور محاوروں میں بھی بہت مقبول ہے مثلاًکاگا سب تن کھائیو چن چن کھائیو ماسدو نیناں مت کھائیو موہے پیا ملن کی آسبھلے وقتوں میں کوا منڈیر پر کائیں کائیں کرتا تو اسے مہمان کی آمد کا اعلان سمجھا جاتا۔ پھر وقت بدلا تو مہمانوں کے ٹھکانے بھی بدل گئے۔ وہ محاورہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا جس میں بی فاختہ انڈوں کی خدمت کرتی ہے اور کوا انہیں چٹ کر جاتا ہے۔ سلمان تاثیر مرحوم ہماری کمیونٹی کو ’’کوا کمیونٹی‘‘ کہتے کہ بھائی ذرا ذرا سی بات پر صحافی فوراً اکٹھے ہو جاتے ہیں جبکہ یہ کوالٹی کوئوں میں بہت ہے لیکن یہ سب تو جملہ ہائے معترضہ تھے، اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں پڑھے لکھے بیروزگار گنے نہیں جاتے جبکہ سویڈن میں کوئوں کو بھی روزگار کی کمی نہیں۔ سویڈن میں کوئوں کو ایسی تربیت دی گئی ہے کہ وہ کچرا اور سگریٹ کے ٹوٹے چننے اور جمع کرنے لگے ہیں جن کے بدلے انہیں عمدہ خوراک پیش کی جاتی ہے۔ اپنے اپنے نصیبوں، بختوں کی بات ہے۔ کچھ معاشروں میں بندوں کی تربیت کا بندوبست بھی نہیں ہوتا اور وہ زندگی بھر آدمی سے انسان نہیں بن پاتے اور کچھ معاشرے اتنے خوش بخت ہوتے ہیں کہ کوئوں کو بھی ’’بندے کا پتر‘‘ بنا کر انہیں صفائی ستھرائی پر لگا دیتے ہیں۔’’کوے کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور‘‘کوا صفائی کا سمبل …..شاہین گند ڈالتے ہیںسبحان اللہ چشم بددور، آج کی تیسری خبر کا تو جواب ہی نہیں۔ طالبان برادران کے اقتدار سنبھالتے ہی پہلی مرتبہ یونیورسٹیاں کھل گئی ہیں۔ طالبات کی حاضری کم اور اس سے بھی بڑی خبر یہ کہ طالبات کو برقع پہننے کی لازمی شرط کے ساتھ یونیورسٹیوں میں آنے کی اجازت دی گئی ہے۔ سعودی عرب میں کار چلانے کی اجازت سے لیکر طالبات کو برقع پہن کر جامعات میں جانے کی اجازت تک نشاۃ ثانیہ کی طرف ہمارا پہلا دوسرا قدم ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ ترکی ڈراموں میں خواتین کو بغیر برقع کے مردوں کے شانہ بشانہ شمشیر زنی کرتے دیکھ کر بہت سے سوال جنم لیتے ہیں لیکن دور دور تک ایسا کوئی دکھائی نہیں دیتا جو ان سوالوں کے جواب دے سکے لیکن ’’افغان باقی کہسار باقی‘‘۔اور یہ خبر کم اور تھپڑ زیادہ ہے جو معروف کاروباری شخصیت میاں محمد منشا نے کہا حالانکہ اس طرح کی بات کسی جمہوری جینئس کی زبان سے پھسلنی چاہئے تھی، میاں منشا نے جو کہا، بلاتبصرہ پیش خدمت ہے۔1۔ریلوے، پی آئی اے اور ایئر پورٹس کو پرائیویٹائز کر دیں۔ 2۔بیوروکریسی میں ریفارمز لانے کی ضرورت ہے۔3۔سرکاری اداروں سے غیر ضروری افراد کو گولڈن شیک ہینڈ دیں۔4۔ٹیکس ریٹ کو کم کرنا ہوگا۔5۔مہنگی بجلی کی ایک وجہ ریاستی مداخلت ہے۔آج نہیں تو کل، کرنا یہی کچھ پڑے گا لیکن ہماری تاریخ تو ’’سو جوتے سو پیاز‘‘ کی تاریخ ہے اس لیے اس وقت تک انتظار کرنا ہوگا جب تک پانی سروں کے اوپر سے نہ گزر جائے ۔اور آخری خبریں آنے تک …ہفتہ وار مہنگائی، 1.35فیصد اضافہ کے بعد 19.53فیصد ہو چکی، زرمبادلہ ذخائر میں 2ارب ڈالر کمی کے ساتھ ساتھ تنخواہ دار طبقہ پر 160ارب روپے کے ٹیکس لگانے کی تیاری زور و شور سے جاری ہے۔لارڈ نذیر کو جیل کی سزا سنا دی گئی۔ جرم کیا تھا؟ شیئر کرتے ہوئے شرم آ رہی ہے۔