ایک تھا ، ایک ہے سر فراز شاہد !

جب ہمسفروں میں سے کوئی آدھے سفر میں راہی ملک عدم ہو جاتا ہے تو پائوں من من کے ہو جاتے ہیں اور گزشتہ دو تین برسوں سے میرے ساتھ یہ مسلسل ہو رہا ہے ۔میرے شاعر دوستوں میں سے خالد احمد مجھ سے بچھڑ گیا۔ نجیب احمد چلا گیا ،حسن رضوی، ناصر زیدی اور اجمل نیازی بھی راہی ملک عدم ہوئے۔ جب میراکوئی دوست مجھ سے بچھڑتا ہے تو مجھے لگتا ہے میرے جسم کا کوئی حصہ مجھ سے الگ ہوگیا ہے اور یوں میں کچھ برسوں سے قسطوں میں مر رہا ہوں!

اور کچھ دن پہلے میری نظر اچانک ایک خبر پر پڑی ،’’سرفراز شاہد انتقال کر گئے ‘‘ مجھے اس خبر پر یقین نہ آیا ایک ’’زندہ شخص‘‘ کیسے مر سکتا ہے، مردہ دلی کو خوش دلی میں بدلنے والا شخص کیسے مر سکتا ہے۔ لوگوں کو مسکراہٹ کا تحفہ دینے والا لوگوں کی آنکھوں میں آنسوئوں کی لڑی کیسے پرو سکتا ہے ؟ میں نے برادرم انعام الحق جاوید کو اسلام آباد فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت سرفراز شاہد کی تدفین میں شرکت کے لیے قبرستان آئے ہوئے ہیں ۔چلو جی میری یہ خوش فہمی تو دور ہوئی کہ مرتے صرف وہ ہیں جو زندگی کے کاندھوں پر بوجھ ہوتے ہیں اور جو لوگوں کے دلوں کے بوجھ کم کرتے ہیں وہ کبھی نہیں مرتے!مگر اگلے ہی لمحے میں نے سوچا کہ انعام الحق جاوید نے تو مجھے سرفراز شاہد کے فانی جسم کی تدفین کی خبر سنائی ہے ۔مگر لوگوں کے لبوں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والا، زندگی کی ناہمواریوں کی نشاندہی کرنے والا، ظالموں پر طنز کے تیر چلانے والا سرفراز شاہد تو زندہ وتابندہ ہے اور اپنی کتابو ںمیں سے ہمیں جھانک رہا ہے ۔ ابھی ابھی اس نے مجھے آنکھ مار کر کہا ہے عطا جی میرا نوحہ نہ لکھو ،میری کتابیں آپ کے پاس ہیں وہ کھولو اور مجھ سے ملاقات کرو۔میں کل بھی زندہ تھا، آج بھی زندہ ہوں اور آنے والے کل میں بھی زندہ رہوں گا ۔

میرے برادر بزرگ ضیاالحق قاسمی خود تو دنیا سے چلے گئے مگر مزاحیہ شاعری کو ایک تحریک کی صورت میں اپنے ورثے کے طور پر چھوڑ گئے۔ چنانچہ ٹی وی چینلز کے توسط سے شہر شہر اور ملکوں ملکوں مزاحیہ مشاعرے منعقد ہونے لگے جس کے نتیجے میں بعض سنجیدہ شاعر بھی مزاح کی طرف آ گئے۔مزاحیہ شاعری کے اساتذہ میں سید ضمیر جعفری، دلاور فگار مرحومین تھے اور انور مسعود اللہ تعالیٰ انہیں عمرِ خضر عطا کرے، مزاحیہ شاعری کی آن اور بان ہیں اس وقت پاک وہند میں ان کے برابر کا کوئی نہیں۔ انسان بھی بہت اعلیٰ، شاعر بھی بہت اعلیٰ اور پرفارمر بھی بہت اعلیٰ ۔ان کے بعد سرفراز شاہد کا نمبر آتا تھا خالص شاعری کے ’’لوازمات‘‘سے پوری طرح آگاہ، نفسِ مضمون کے بیان پر مکمل قدرت حاصل اور اس کے ساتھ گہری سوچ میں ڈھلا ہوا بلند آہنگ قہقہہ بھی ۔میرے پاس ان کے تمام شعری مجموعے موجود ہیں جو میں کبھی خوشی اور کبھی اداسی کی کیفیت میں کھول کر بیٹھ جاتا ہوں ۔خوشی کے لمحوں میں غمزدہ کرنے والی سوچیں بھی سامنے آتی ہیں اور اداسی کے لمحوں میں میرے دل سے غم کے غنچے بھی پھوٹنے لگتے ہیں ۔سرفراز شاہد محکمہ موسمیات میں اعلیٰ افسر تھا وہ جب کبھی ہمیں متوقع موسم کے بارے میں بتاتا تو ہم اسے ایک مزاح نگار کی پھلجھڑی سمجھ کر لفٹ نہ کراتے مگر جب بارش کی پیش گوئی کو نظرانداز کرتے ہوئے گھر سے سیٹیاں بجاتے ہوئے نکلتے تو رستے میں بارش آبستی،تب ہمیں سمجھ آتی کہ سرفراز صرف شعر ہی نہیں موسم کے رموز سے بھی پوری طرح آگاہ ہے۔

اور اب ہمارے پاس مزاح نگاروں کی ٹیم میں سے انعام الحق جاوید، خالد مسعود،سید سلمان گیلانی، سعید اقبال سعدی، زاہد فخری، ڈاکٹر بدرمنیر، حکیم ناصف اور بہت سے دوسرے انور مسعود کی قیادت میں شاعری کرتے نظر آتے ہیں ۔آئندہ جب کبھی کسی ٹی وی چینل پر مزاحیہ مشاعرہ منعقد ہو گا مجھے یقین ہے کہ ان شعرا کے پس منظر میں سرفراز شاہد بھی مسکراتا نظر آئے گا اور بھائی جان ضیا الحق قاسمی بھی کہ ان کے ہاتھوں لگایا ہوا پودا اب ایک گھنا درخت بن چکا ہے جو غم زدہ لوگوں پر مسکراہٹوں کا سایہ کئے ہوئے ہے۔