پاکستانی اور اوورسیز پاکستانی

میں بغیر کسی تمہید کے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ہم پاکستان میں رہنے والوں کی شکایات کا بالکل اندازہ نہیں، چنانچہ انہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہمیں بتائیں کہ پاکستانی عوام اپنی زندگیوں کے بہترین دور سے گزر رہے ہیںاور یہ کہ اوورسیز پاکستانیوں نے جس ملک سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے وہاں مہنگائی پاکستانی سے زیادہ ہے۔ تاہم چونکہ ان کی پیدائش پاکستان میں ہوئی تھی مگر وہ پاکستان کی کشتی بھنورمیں چھوڑ کر پھولوں اور پھلوں سے لدے ہوئے ساحلوں پر اتر گئے، اس کے باوجود ان کے دلوں میں ہم پاکستانیوں کے لیے ہمدردی کے گہرے جذبات موجود ہیں۔ چنانچہ میں چند تجاویز پیش کر رہا ہوں، ان پر عمل کرنے کی صورت میں وہ ہم پاکستانیوں کو ’’خوش باش‘‘ رہنے کی تلقین کرنے کے اہل ثابت ہوسکتے ہیں۔ تجاویز درج ذیل ہیں:

1۔ اگر وہ اپنے ملک کی مہنگائی سے تنگ ہیں اور ہمارے بارے میں ان کی رائے ہے کہ ہم ایک خوش قسمت دور سے گزررہے ہیں تو انہیں اولین فرصت میں اپنے سابقہ ملک کو خیر باد کہہ کر ہمارے درمیان آ جانا چاہیے تاکہ وہ بھی اس درخت کے میوے کھا سکیں جو ہم ان کے بائیس کروڑ بھائی روزانہ کھا رہے ہیں۔

2۔ ایک صورت یہ بھی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ملکوں کا ادل بدل کرلیں، وہ ہماری جنت میں آ جائیں، ہم ان کی دوزخ میں جانے کے لیے تیار ہیں۔

3۔ تیسری صورت یہ بھی ہے کہ اتنے وسیع پیمانے پر ’’تبادلۂ آبادی‘‘ ممکن نہیں، چنانچہ وہ اپنے ہاں خوش اور ہم اپنے ہاں خوش رہ سکتے ہیں، وہ جو رقم پاکستان میں مقیم ’’خوش قسمت‘‘ عزیزوں کی مدد کے لیے بھیجتے ہیں اور یا یہاں پراپرٹی کی خرید کے لیے ارسال کرتے ہیں اور یوں کہا جاتا ہے کہ اوورسیز پاکستانی ہمارے محسن ہیں کہ وہ سالانہ اربوں روپے ’’پاکستان‘‘ کو بھیجتے ہیں، جس سے پاکستان کا وجود قائم ہے تو وہ از راہِ کرم اپنے عزیز و اقربا کے علاوہ اپنے دوسرے پاکستانیوں کا چولہا جلانے کے لیے بھی اپنی زکوٰۃ اور خیرات فنڈ سے کچھ نہ کچھ بھیج دیا کریں اور اگر اس کے بعد بھی وہ بھوک کا رونا روتے رہیں تو انہیں رونے دیںکہ ثابت ہو جائے گا یہ ناشکری قوم ہے جس کا رونا دھونا پاکستان کے لیے خوشگوار ترین دور میں بھی ختم نہیں ہو رہا۔

یہاں میں وضاحت کردوں کہ میرے مخاطب صرف وہ اوورسیز پاکستانی ہیں جو یورپ اور امریکہ میں آباد ہیں، خلیجی ممالک کے پاکستانی نہیں کہ ایک تو یہ کہ وہ دوغلی شہریت،سوری، دہری شہریت کے حامل نہیں ہیں اور دوسرے وہ اکثر پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں اور یوں پوری طرح واقف ہیں کہ یہاں کی سیاسی و معاشی اور معاشرتی صورت حال کیا ہے، وہ جب کبھی آتے ہیں، انہیں پتہ چلتا ہے کہ اشیائے خورو نوش، پٹرول، بجلی اور گیس وغیرہ کی قیمتیں کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہیں، انہیں یہاں تھانہ کچہری اور عدالتی معاملات کی دن بدن بگڑتی صورتحال کا پورا پورا اندازہ ہوتا ہے، چنانچہ وہ ہمیں کبھی مشورہ نہیں دیتے کہ آپ کے لیے کون سی حکومت بہتر ہے اور کونسی حکومت بہتر نہیں ہے، وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، حالانکہ زرمبادلہ کی زیادہ یا قدرے کم رقوم انہی خلیجی ملکوں سے آتی ہیں اور یوں وہ ہمیں مشورہ دینے کے زیادہ سے زیادہ حق دار ہیں۔ خلیجی ملکوں کے اوورسیز پاکستانیوں اور یورپین ممالک کے پاکستانیوں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اول الذکر ڈائون ٹو ارتھ ہیں جبکہ دوسرے پاکستانیوں میں ایک خاص تعداد صاحب بہادروں کی بھی ہے، چنانچہ زمین سے جڑے ہوئے لوگ زمینی لوگوں کے دکھوں، تکلیفوں اور نہایت دشوار زندگی سے بخوبی واقف ہیں۔

ایک ضروری بات، اس تحریر سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یورپ اور امریکہ میں بسنے والے اوورسیز پاکستانی پاکستان سے محبت ہی نہیں کرتے۔ لاحول ولا….وہ پاکستان سے بے حد محبت کرتے ہیںاور پاکستانی عوام جب زلزلوں، طوفانوں یا دہشت گردوں کی زد میں آتے ہیں تو ان کے دل بھی مغموم ہوتے ہیں، وہ ایسے مواقع پر قائم کئے گئے فنڈز میں رقوم بھی ارسال کرتے ہیں، تاہم پاکستان میں مقیم پاکستانی ایسے مواقع پر اربوں نہیں کھربوں روپے پاکستان کے غریب عوام کے لیے وقف کردیتے ہیں، میں اگر یہاں ان فلاحی تنظیموں کا ذکر کروں جو اپنے غریب عوام کے لیے کیا کچھ کرتی ہیں تو باہر سے آئی ہوئی رقم سے شاید اس کا موازنہ مناسب ہی نہ لگے۔مقامی پاکستانیوں نے ضرورت مندوں کو لاکھوں کے قریب قرضے بلاسود، ان کے بچوں کے لیے مفت تعلیم، مفت یونیفارم اور مفت کتابوں اور ان کے متعدد دوسرے مسائل کے ازالے کے لیے کھربوں روپے سالانہ مختص کئے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ ہر طرح کے آسمانی اور زمینی عذاب کے دوران اپنے گھر کا سامان بھی دان کر دیتے ہیں۔ یہ سچے محب وطن پاکستانی ہیں۔ اپنے ملک میں رہتے ہیں، اپنے ملک کے عوام کے مسائل سے واقف ہیں، انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں، اسی طرح ہمارے اوورسیز پاکستانیوں کی پاکستان سے محبت بھی ہر طرح کے شکوک و شبہات سےبالاتر ہے۔ تاہم ان کی پہلی وفاداری ان ملکوں کی شہریت کے لیے اٹھائے ہوئے حلف وفاداری کی پابند ہوتی ہے۔ مجھے یہ کالم لکھتے ہوئے اس امر کا پوری طرح احساس ہے کہ بیرون ملک مقیم میرے سینکڑوں دوست مجھ سے خفا ہو جائیں گے، مگر میں کیا کروں ان کی طرح میں نے بھی اپنے ملک سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔