معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
’’پلیز…. تھینک یو …. سوری‘‘
ویٹی کن سٹی میں کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نےشادی شدہ جوڑوں کو تین الفاظ کبھی نہ بھولنے کا انتہائی خوب صورت مشورہ دیا۔ آپ نے اپنے ایک خط میں لکھا کہ خاندان اور معاشرہ کو مضبوط اور مستحکم رکھنے کےلئے یہ تین الفاظ ہمیشہ یاد رکھیں۔
’’پلیز‘‘
’’تھینک یو‘‘
’’سوری‘‘
واقعی یہ انسان کی پہچان ہیں۔ حیوان تا حشرات الارض ان سے آشنا نہیں اور بدبختی کی انتہا کہ ہمارے معاشرے میں بھی ان لفظوں کا قحط عروج پر ہے۔ کاش ہمارے پادری اور پوپ بھی اسی طرح کے سادہ لفظوں میں ہمیں سمجھایا کریں۔ ڈرایا کم کریں سمجھایا زیادہ کریں کہ باقی وعظوں، تقریروں، خطابوں، لیکچروں، بھاشنوں کا انجام تو ہمارے سامنے ہے۔
میں نے چند روز پہلے ہی حضورؐ کے ایک فرمان کا حوالہ دیا کہ ایک صحابی نے پوچھا ’’میں اپنے غلام کو کتنی بار معاف کروں؟‘‘ آپ خاموش رہے اور تیسری بار پوچھنے پر فرمایا ’’دن میں کم از کم 70بار‘‘ تو کیوں نہ ہم بھی ایک دوسرے کو معاف کرنا شروع کریں؟
غصیلے، جھگڑالو، چڑچڑے، منتقم، بدتمیز، بدکلام، بدمزاج، اور لڑاکو قسم کے ہم لوگ جنہیں خود پر کوئی کنٹرول نہیں۔ ایسی ایسی معمولی باتوں پر مار دھاڑ اور قتل تک آمادہ ہو جاتے ہیں کہ بندہ سوچنےپر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ انسان ہیں یا حیوان؟
مسلمان ہونا تو قصہ ہی اور ہے کہ انہیں ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا جس کے ایک عضو کو تکلیف ہوگی تو پورا بدن اذیت میں مبتلا ہو جائے گا جبکہ آج ہم ایک ایسے جسم کی مانند ہیں جس کا ہر عضو دوسرے کو چیرنے، پھاڑنے، کاٹنے کے درپے ہے اور اس قتل ِ عام کی بے شمار شکلیں ہیں۔
’’وہ بھوک ہے اعضاکہیں اعضا کو نہ کھالیں‘‘
عوام تو عوام، نام نہاد، جعلی، دو نمبر اشرافیہ ہی دیکھ لو جو رسیلی ہڈیوں، چھیچھڑوں اور حرام گوشت کی بوٹیوں پر آپس میں برسرپیکار ایک دوسرے کے چیتھڑے اڑانےپر تلی ہے۔
عدل، احسان، صلۂ رحمی، میرٹ، پیار، بھائی چارہ، قصۂ پارینہ، خمیر سے ہی رخصت ہو چکے۔ نہ سیلف کنٹرول ، نہ درگزر جو انسان کی اصل پہچان۔
عجیب لوگ ہیں ہم کہ اپنےلئے تو اللہ سے معافیاں مانگتے ہیں، اس کی مخلوق کو غلطی یا حماقت بھی معاف نہیں تو جو معاف نہیں کرتا اس یقین کےساتھ قبر میں اترے کہ اسے بھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ جن معاشروں کو ہم ڈھٹائی یا جہالت کے سبب بے راہروی اور فحاشی کا شہکار قرار دیتے ہیں ان کا ایک قدم کرہ ارض پر اور دوسرا مریخ پر ہے اور ان کے ایمان کا حصہ اور پریکٹس یہ ہےکہ :
“EVERYBODY HAS THE RIGHT TO BE WRONG.”
کبھی ہمارے ہاں بھی زبان زدعام تھا کہ ’’انسان خطا کا پتلا ہے‘‘ لیکن آج صورتحال کو سمجھنے کےلئے ایک ’’کامن نالج‘‘ آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔ تقریباً سبھی وزیر اعظم عمران خان اور ان کے کزن حفیظ اللّٰہ نیازی کی تہہ در تہہ قرابت داری سے واقف ہیں۔
دونوں ہی پرجوش قسم کے مسلمان بھی ہیں لیکن گزشتہ کئی سالوں سے بول چال بند ہے جبکہ دو عام مسلمانوں کے درمیان بھی غالباً تین دن سے زیادہ قطع کلام کی اجازت نہیں لیکن یہ بات نہ انہیں یاد ہے نہ کسی اور نے یاد دلانے کی زحمت فرمائی تو قول وفعل کے ان تضادات کا انجام بھی ہمارے سامنے کہ سارے معاشرہ پر جیسے کسی آسیب کا سایہ ہو۔
’’ہم ہیں منافقت کے سمندر کی مچھلیاں‘‘
آپ چاہیں تو منافقت کو ذرا نرم کرتے ہوئے جہالت پر گزر بسر کرلیتے ہیں۔
قوم اگر ہو تو افراد کا مجموعہ ہوتی ہے اور جن لوگوں کو خود پر کوئی کنٹرول نہیں، انہیں کبھی کسی شے پر کوئی کنٹرول حاصل نہ ہوگا۔
ان کی معیشت سے لے کر ثقافت تک پر دوسروں کا کنٹرول ہوگا جس کے ثبوت قدم قدم پر ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں اور ہمیں یاد دلا رہے ہیں کہ کٹھ پتلیو! کیا تم واقعی وہی ہو جن کے اسلاف نے کبھی قیصر و کسریٰ کو دھول چٹا دی تھی لیکن آج تم آج کے قیصر و کسریٰ کے غلاموں کے غلام ہو۔
گورے کہتے ہیں “TO STAY OUT OF HOT WATER, KEEP A COOL HEAD” لیکن کھوکھلی انائوں کی آگ میں بھسم یہ نہیں جانتے کہ ہم اپنی زندگیوں کی لمبائی تو نہیں بڑھا سکتے تو کیا اس کی گہرائی اور چوڑائی بھی بس میں نہیں رہی؟ تم اپنے چہرے تبدیل نہیں کرسکتے تو اس کے ایکسپریشنز ہی تبدیل کرلو۔
تم اپنی زبانیں تبدیل نہیں کرسکتے توگفتگو اور موضوعات ہی بد ل لو، اگر موسموں پر تمہارا اختیار نہیں تو اپنی فکری فضا ہی تبدیل کر لو کہ …. کردار، سیلف کنٹرول کے بغیر بدکرداری کےسوا کچھ بھی نہیں۔
کون نہیں جانتا کہ برہمی اورتلخی سے جان چھڑانا سگریٹ نوشی ترک کرنے سے بھی مشکل ہے لیکن یہ مشکل آسان ہوسکتی ہے اگر یہ جان لیں کہ امان اور معافی ’’فتح مکہ‘‘ کا اہم ترین پیغام ہے اور ہم تو ’’کفار مکہ‘‘ بھی نہیں۔
معیشت بس میں نہیں لیکن ایک دوسرے کے لئے معافی اور مہربانی تو ہمارے اختیار میں ہے کہ یہ وہ ’’آئل‘‘ ہے جو معاشرہ کی مشین کو FRICTION سے محفوظ کر سکتا ہے جیسے کار کا ’’آئیل‘‘ انجن کو فرکشن سے محفوظ رکھتا ہے۔
زبان اس لئے نرم ملائم اور کسی ہڈی کے بغیر ہے کہ تمہیں نرمی ملائمت کی اہمیت یاد دلاتی رہے۔ نامہربانوں کے ساتھ بھی شفقت و مہربانی کا برتائو کرو کیونکہ ان کو اس کی بہت ضرورت ہے۔
یہ ’’پلیز‘‘ ….’’تھینک یو‘‘ اور ’’سوری‘‘ تین لفظ نہیں، ایک ’’رویہ‘‘ کا نام ہے۔ کچھ اور نہیں بدل سکتے تو رویے ہی تبدیل کرلو تو شاید رب کو ہم پر رحم آ جائے ورنہ . . . . . .
’’ورنہ یہ عمر بھر کاسفر رائیگاں تو ہے‘‘
مشرقی پاکستان کی برسی کو تو ابھی چند روز بھی نہیں گزرے
روپیہ تو بری طرح ڈی ویلیو ہو ہی چکا
’’رویہ‘‘ ہی بچالو یا یہ بھی کسی IMF کے سپرد کر چکے۔