بے چاری پولیس!

یہ تو ثابت ہوگیا کہ ہم میں سے کوئی فرشتہ نہیں اور بحیثیت قوم ہم اخلاقی زوال کاشکار ہیں۔ یہ بھی ثابت ہوگیا کہ عدلیہ سے لیکر فوج تک اور پارلیمنٹ سے صحافت تک ہر جگہ ، اگر اچھے لوگ پائے جاتے ہیں تو برے بھی پائے جاتے ہیں ۔ کرپشن اگر پولیس میں ہے تو ثابت ہوگیا کہ وہ عدلیہ میں بھی ہے، بعض جرنیلوں نے بھی بری طرح ہاتھ صاف کئے، سیاستدانوں میں بھی کرپٹ اور چندہ چوروں کی بہتات ہے جب کہ میڈیا میں بھی ضمیر فروش اور بلیک میلرز موجود ہیں لیکن پولیس کا واسطہ چوں کہ براہ راست عوام سے ہے ، اسلئے ہمارے ملک میں صرف پولیس کو نفرت کی علامت بنادیا گیا تاہم گزشتہ چند برسوں سے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پولیس نے جو قربانیاں دیں اور انہیں جس جس طریقے سے قربانی کا بکرا بنایا گیا، اسکے بعد وہ بحیثیت ادارہ ظالم سے مظلوم بن گئے ہیں ۔ ملک درحقیقت فوج چلاتی ہے اور حکومتیں بیوروکریسی ۔ فوج اپنا بدلہ بھی لے سکتی ہے اور بطور ادارہ اس کے جرنیل ایک دوسرے کا دفاع بھی کرتے ہیں یہی رجحان بیوروکریسی میں بھی نظر آتا ہے لیکن پولیس نہ تو اپنا بدلہ لے سکتی ہے اور نہ بیوروکریسی کی طرح جانے والے کا دفاع کیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ ہم سب نے دیکھا کہ عمران خان کی حکومت کو فوج کے چند بندے چلارہے تھے ۔ اس دوران جس جس پر غصہ تھا ، فوج نے اس سے اپنا حساب بھی چکا دیا۔ کسی نے آئین شکنی کی تھی تو اس کا تحفظ کیا گیا۔ اس طرح ججز نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ساتھی ججز سے کوئی حساب لیا اور نہ کسی نے ثاقب نثار اور سعید کھوسہ سے کچھ پوچھا۔ بیوروکریسی اور بالخصوص ڈی ایم جی گروپ کا معاملہ دیکھ لیجئے ۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ حکومت عملاًپرنسپل سیکرٹری چلاتا اوراپنے چہیتوں کو اکاموڈیٹ کرتا ہے ۔ عمران خان کی حکومت میں ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو ہی وزیراعظم سمجھا جاتا تھا لیکن آج انکے ساتھی بیوروکریٹ اعظم خان کو نہ صرف بچارہے ہیں بلکہ ان کے چہیتے بیوروکریٹس کو بدستور نوازا جارہا ہے۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ فوج نے لڑی یا پولیس نے۔ فوج کے کردار کا پھر بھی اعتراف کیاجارہا ہے لیکن پولیس کے شہدا اور غازیوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ صفوت غیور، ملک سعد اور ان کی طرح کے سینکڑوں پولیس افسروں نے شجاعت و بہادری کی نئی تاریخ رقم کی لیکن نہ سرکاری طور پر ان کے دن منائے جاتے ہیں اور نہ ہی ان کی وہ تعریف ہوئی جن کے وہ مستحق تھے ۔ پورے ملک اور بالخصوص پختونخوا اور بلوچستان میں پولیس کے نچلے درجے کے افسر اور سپاہی گزشتہ 20 سال سے ہمہ وقت جان ہتھیلی پہ لئے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن اس کا صلہ ہم نے پولیس کو یہ دیا کہ سیاست کی خاطر یا پھر اداروں نے اپنی اپنی انائوں کی خاطر پولیس کے مورال کو پائوں تلے روند ڈالا ۔ ان کو عدلیہ یا فوج کی طرح خود مختاری حاصل نہیں بلکہ وہ سیاسی یا فوجی حکمرانوں کے ماتحت ہوتے ہیں لیکن ہر جگہ قربانی کا بکرا انہی کو بنایا جاتا ہے ۔ مثلاً بے نظیر بھٹو قتل کیس میں جائے واردات کو دھونے کا فیصلہ پولیس افسروں نے خود نہیں کیا تھا لیکن پولیس افسروں کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔

ماڈل ٹائون واقعہ کسی اور کی سازش تھی اور پولیس نے کسی اور کے حکم کی تعمیل کی تھی لیکن گالی پولیس افسروں کو پڑتی رہی۔پھر عمران خان کے دور میں پولیس کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا۔ اس دور میں پولیس کے ایک ایس پی محمد طاہرداوڑ کو اسلام آباد سے اغوا کرکے اسکی لاش افغانستان سے برآمد کروائی گئی لیکن وزیر داخلہ شہریار آفریدی ساتھ دینے کی بجائے انکے وارثوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے رہے ۔ اپنی حکومت کے آخری دنوں میں عمران خان نے پولیس کو پارلیمنٹ لاجز پر چڑھائی کا حکم دیا ۔ پھر مولانا فضل الرحمان اس وقت کے آئی جی پولیس پر برہم تھے لیکن بڑی مشکل سے ہم نے منت ترلہ کرکے مولانا سے کہہ دیا کہ ان کی آپ سے ذاتی دشمنی نہیں تھی بلکہ وہ عمران خان اور وزیرداخلہ کے حکم کی تعمیل کررہے تھے ۔ اب موجودہ اسلام آباد پولیس کا معاملہ لے لیجئے۔ عمران خان نے اسلام آباد پر چڑھائی کا فیصلہ کیا اور حکومتِ وقت نے انہیں روکنے کا ۔ کم وسائل اور ماضی کے ان تلخ تجربات کے باوجود پولیس نے ان کو اسلام آباد میں گھسنے نہیں دیا ۔ وہ اگر حکومت کی حکم عدولی کرکے عمران خان کو دارالحکومت میں گھسنے دیتی تو حکومت نے ان کو سزا دینی تھی لیکن جب انہوں نے حکم کی تعمیل کی تو سپریم کورٹ نے آئی جی کو بلا کر کھری کھری سنائیں اور انہیں فوری طور پر عمران خان کے جلسے کیلئے ایچ نائن پارک میں انتظامات کرنے کا کہا ۔ پولیس نے عدالت کے حکم کی فوری تعمیل کی لیکن عمران خان نے سپریم کورٹ اور پولیس دونوں کی توہین کرتے ہوئے ایچ نائن پارک کی بجائے ڈی چوک پر دھاوا بولنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں پولیس نے بڑی حکمت سے انہیں کنٹرول تو کیا لیکن آج تک سپریم کورٹ نے اپنی توہین اور پولیس کی توہین کا عمران خان سے کوئی حساب نہیں لیا جب کہ دوسری طرف پرویز مشرف کے حکم پرجس پولیس افسر نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ساتھ بدسلوکی کی تھی، جنرل مشرف کی جگہ ان کو سزا بھگتنا پڑی۔عمران خان کی اسلام آباد پر یلغار کے وقت جن پولیس افسروں نے پی ٹی آئی کے لوگوں کو روکا تھا ، پرویز الٰہی نے آتے ہی ان کو سزائیں دینا شروع کردیں حالانکہ وہ پولیس افسر آج پرویز الٰہی کے احکامات کی اسی طرح تعمیل کررہے تھے جس طرح کہ انہوں نے حمزہ شہباز کی کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ آج اگرپرویز الٰہی پولیس افسروں کو کسی کی گرفتاری کا حکم دیں اور وہ تعمیل نہ کریں تو کیا وہ انہیں چھوڑیں گے ؟ اسی طرح عمران خان نے دھمکی صرف ایڈیشنل سیشن جج کو نہیں دی تھی ۔ انہوں نے آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی اسلام آباد کو بھی دھمکی دی تھی ۔ عدلیہ نے تو ایڈیشنل سیشن جج کو دھمکی دینے پر عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس دیدیا لیکن آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی کو دی جانیوالی دھمکیوں کا کسی کو احساس نہیں۔ حالانکہ پولیس صرف حکومت کے احکامات کی تعمیل کررہی ہے یا پھر عدلیہ کے ۔عدلیہ نے بہت اچھا کیا اور اس جذبے کو سلام پیش کرتے ہیں کہ اپنی ایڈیشنل سیشن جج کو ملنے والی دھمکی کا نوٹس لیا لیکن سوال یہ ہے کہ عدلیہ اسی طرح آئی جی اور ڈی آئی ڈی کو دی جانے والی دھمکی پر برہم کیوں نہیں ہے ؟

اس سلوک سے کیا ہم پولیس کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ حکومتِ وقت کے احکامات کی تعمیل نہ کریں؟ اس طرح تو یہ ملک شہر ناپرسان بن جائیگا۔ یا پھر عدلیہ پولیس کو بھی اپنے ادارے کی طرح خودمختار بنادے کہ کوئی وزیر ان پر حکم نہ چلا سکے اور پولیس بھی عدلیہ کی طرح آزاد اور خود مختار ادارہ بن جائے یا پھر پولیس کی عزت اور وقار سے متعلق بھی وہ حساسیت دکھائی جائے جو باقی ریاستی ادارے اپنے متعلق دکھارہےہیں۔