کتے کا بچہ

میری گلی میں تین کتے ایسے ہیں جن سے میں بہت ڈرتا ہوں۔ ان میں سے ایک کتا پروفیسر مہدی حسن کا ہے، دوسرا کتا کنول فیروز کا ہے اور تیسرا کتا ممتاز گیلانی کا ہے۔ یہ تینوں کتے مختلف عادات و اطوار کے مالک ہیں، تاہم ان کے کتا ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ پروفیسر مہدی حسن کے کتے سے میرا براہ راست واسطہ نہیں پڑتا کیوں کہ پروفیسر صاحب سے میری رسم و راہ نہیں ہے مگر ان کا کتا اکثر مجھ سے فری ہونے کی کوشش کرتا ہے، وہ اس طرح کہ جب میں پروفیسر صاحب کے گھر کے سامنے سے گزرتا ہوں تو وہ بند گیٹ کے نچلے حصے سے اپنی تھوتھنی باہر نکال کر مجھ پر بھونکتا ہے بلاوجہ بھونکنے والے کتے مجھے اچھے نہیں لگتے۔ چنانچہ میں چلتے چلتے رک جاتا ہوں جس پر اس کی بے بسی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے کیوں کہ اس کے گلے میں زنجیر ہوتی ہے اور گیٹ بند ہوتا ہے۔ میں اسے مزید چڑانے کے لئے ادھر ادھر دیکھ کر تھوڑا بہت بھنگڑا بھی ڈالتا ہوں۔ اس پر وہ غیظ و غضب کے عالم میں آہنی گیٹ سے اپنا سر پٹخنے لگتا ہے اور اس کی فریاد کی لے تیز ہو جاتی ہے ۔بس یہی وہ موقع ہوتا ہے جب میں قدم آگے بڑھا دیتا ہوں کہ کوئی پتہ نہیں کب زنداں کا گیٹ کھل جائے اور یہ غلام زنجیریں توڑ کر آزاد ہو جائے۔ غلاموں کی بے بسی کا تماشا دیکھنے والے تمام حضرات کو یہ بات نوٹ کرلینا چاہیے کہ اس میں ان کا بھلا ہے۔

دوسرا کتا جو بہت خونخوار ہے کنول فیروز کا ہے۔ یہ بھی گیٹ کے پاس ہی بندھا ہوتا ہے اور خدا کا شکر ہے کہ گیٹ کے اندر کی طرف بندھا ہوتا ہے میرا فون اکثر خراب رہتا ہے اور اکثر کنول فیروز کی طرف فون کرنے جاتا ہوں اور یہ کتا اکثر مجھ پربھونکتا ہے۔ یہ غالباً جرمن شیفرڈ ہے جب میں گھنٹی بجاتا ہوں تو اس کی حرکات و سکنات سے لگتا ہے کہ مجھ سے اگر ذرا سی بھی چوک ہوئی تو وہ مجھے چیر پھاڑ کر کھا جائے گا مگر اس کتے میں خوبی یہ ہے کہ جب میں واپسی پر کنول فیروز کے ہمراہ اس کے قریب سے گزرتا ہوں تو اس کے چہرے پر بلا کی تابعداری ہوتی ہے۔ وہ نہ صرف یہ کہ مجھ پر بھونکتا نہیں بلکہ ان لمحوں میں وہ کتے سے بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ اس سے دو طرح کے خیالات میرے دل میں آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ مالک کے ساتھ دیکھ کر اسے اطمینان ہو جاتا ہے کہ بندہ ٹھیک ہے یا پھر یہ سوچتا ہے کہ اگر خود گھر کا مالک ساتھ ملا ہوا ہے تو کیا بھونکا جائے۔ اس طرح کے واقعات تو ہماری ملکی تاریخ میں بھی ملتے ہیں۔ میری گلی کا تیسرا خونخوار کتا ممتاز گیلانی کا ہے۔ ممتاز گیلانی نوائے وقت میں میرے کولیگ ہیں اور پرانے دوست ہیں جب یہ صبح دفتر جانے لگتے ہیں تو میں اپنا کام ان کےسپرد کردیتا ہوں کہ مجید نظامی صاحب کو دے دیں۔ممتاز گیلانی کا کتا میرے قدموں کی آہٹ پہچانتا ہے۔ چنانچہ میرے گھنٹی بجانے سے پہلے وہ بھونکنے لگتا ہے کہ ہٹ جائو مجھے اس شخص سے نمٹنے دو۔ دریں اثنا ممتاز گیلانی گیٹ کا چھوٹا دروازہ کھولتے ہیں جس پر وہ اپنی توجہ میری بجائے اپنے مالک کی طرف مبذول کرتا ہے اور پہلے سے زیادہ زور وشور سے بھونکنے لگتا ہے۔ میرے خیال میں یہ کتا اپنے مالک کویہ تاثر دیتا ہے کہ وہ ڈیوٹی کے دوران اپنے مالک کی بھی پروا نہیں کرتا۔ چنانچہ ممتاز گیلانی کو چاہیے کہ وہ اسے گریجوایٹی وغیرہ دے کر فارغ کردیں۔

میری گلی میں ان کتوں کے علاوہ کچھ کتے اور بھی ہیں۔ مثلاً ایک کتا تو نہیں کتے کابچہ ہے۔ یہ بے چارہ ایک ٹانگ سے معذور ہے اور گھسٹ گھسٹ کر چلتا ہے مگر کتا تو آخر کتا ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک دو دفعہ موصوف بھی مجھ پر بھونکتے ہیں مگر میں ہر ایرے غیرے سے ڈرنے والا نہیں ہوں ،لہٰذا ایسے مواقع پر میں اس کے پاس جاکر کھڑا ہو جاتا ہوں وہ منہ میری طرف کرکے زور زور سے بھونکنے لگتا ہے مگر اس کی آنکھوں میں انتہائی لجاجت بھری درخواست ہوتی ہے کہ خدا کے لئے میری عزت بنی رہنے دو تھوڑی دیر کے لئے ادھر ادھر ہو جائو ، ضرور لوگوں پر یہ ظاہر کرنا ہے کہ میں صرف بھونک سکتا ہوں کاٹ نہیں سکتا۔ مگر اس کی عزت سے زیادہ مجھے اپنی عزت عزیز ہے لہٰذا میں وہیں کھڑا رہتا ہوں جس پر وہ تھوڑی دیر بعد منہ دوسری طرف کرکے پائوں سے اپنے کان کھجانے لگتا ہے۔ قارئین نوٹ فرمائیں کہ کچھ عرصے بعد امریکہ نے بھی یہ کرنا ہے۔ان کتوں کے علاوہ کچھ آوارہ کتے بھی ہیں جو گلی میں ویسے ہی پھرتے رہتے ہیں ان میں سے کچھ پر مجھے شبہ ہے کہ وہ ہیروئن پیتے ہیں ۔ ان میں سے ایک کتیا بھی ہے جو بہت سوشل ہے، وہ ہمیشہ دو چار کتوں کے جلو میں نظر آتی ہے۔ یہ کتے اجنبیوں کو کچھ نہیں کہتے، عموماً ایک دوسرے پر بھونکتے ہیں۔ یہ کتے اقتصادی طور پر خاصے پسماندہ ہیں اور یوں رہائش اور خوراک وغیرہ کے مسائل سے دو چار ہیں۔نیز بیمار پڑ جائیں تو انہیں دوا تک نہیں ملتی جس کے نتیجے میں یہ جھنجھلاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔ چنانچہ یہ اپنا سارا غصہ ایک دوسرے پر نکالتے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک کتا مجھے بہت اچھا لگتا ہے یہ کچھ زیادہ ہی شریف النفس قسم کا کتا ہے، میں نے دو چار دفعہ اسے اپنے گھر کے باہر بیٹھے دیکھا اور وہ بھی کچھ اس طرح کہ تھوتھنی اوپر کو اٹھائی ہوئی ہے، چہرے سے یتیمی برس رہی ہے اور لگ رہا ہے جیسے’’ دے جا سخیا راہ خدا تیرا اللہ ہی بوٹا لاوے گا‘‘ کہہ رہا ہے۔ چنانچہ میں نے اندر سے بچا کھچا لا کر اس کے سامنے ڈال دیا۔ اس دن سے یہ روزانہ دروازے کےباہر بیٹھا میری راہ تکتا رہتا ہے جب میں اسے نظر آتا ہوں تو وہ فوراً اپنی دم ہلانے لگتا ہے اور پائوں کو چاٹنے کے لئے بے قرار دکھائی دیتا ہے۔ پروفیسر مہدی حسن، کنول فیروز اور ممتاز گیلانی کی کوٹھیوں میں بندھے کتے مجھے اچھے نہیں لگتے کہ وہ مجھے کچھ نہیں سمجھتے جبکہ یہ کتا مجھے اچھا لگتا ہے اور اس کتے کو میں اچھا لگتا ہوں شاید اس لئے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں اور وہ یوں کہ حکمرانوں کی طرح میں بھی بہت خوشامد پسند ہوں چنانچہ مجھے ایک پائوں چاٹنے والا چاہیے اور گلی کا یہ کتا مجھے مڈل کلاسیا لگتا ہے جو میری کوٹھی کے مین گیٹ کے باہر کھڑا ہے اور اندر آنا چاہتا ہے خواہ اس کےلئے اسے کسی کے پائوں ہی کیوں نہ چاٹنے پڑیں۔ (خندِ مکرر)