قابلِ احترام بکرا فروش!

گزشتہ روز میں نے اخبار میں ایک بکرے کی تصویر دیکھی جس کے نیچے لکھا تھا کہ اس بکرے کی قیمت دو لاکھ ہے، بہت جی چاہا کہ اس بکرے کے خصائص پر ایک کالم لکھا جائے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ دولاکھ کا یہ بکرا بیس سیر دودھ صبح اور بیس سیر دودھ شام دیتا ہو گا، اگرچہ بکرے کا دودھ دینا خلافِ وضع عمل ہے لیکن اس کے نرخ اگر بالا ہوئے ہیں تو یقیناً یہ بکرا غیرمعمولی صفات کا حامل ہوگا۔ تاہم اس بکرے کی جو تصویر دیکھی ہےاس میں تو کوئی غیرمعمولی بات نظر نہیں آئی اس بکرے کی شکل بالکل بکروں جیسی تھی لیکن جس طرح سارے چینی ،جاپانی اور نیگرو ہمیں ایک جیسے لگتے ہیں حالانکہ ان میں کئی ایسے بھی ہوں گے جن کا شمار اپنے اپنے علاقے کے جوانان رعنا میں ہوتا ہو گا اور وہ جدھر سے گزرتے ہوں گے انگلیاں کٹتی چلی جاتی ہوں گی، سو ممکن ہے یہ بکرا بھی جو دیکھنے میں بالکل بکرا لگتا ہے اپنی برادری میں خاصا حسین وجمیل شمار ہوتا ہو اور جن بکریوں کے ہاتھ پیلے نہیں ہوئے ان کے والدین اس کے آگے پیچھے پھرتے ہوں، اسے اپنے گھر مدعو کرتے ہوئے اور اس کے سامنے’’ ونڈہ‘‘ رکھتے ہوئے کہتے ہوں کہ یہ ڈش عزیزہ نے اپنے ہاتھوں سے تیار کی ہے ۔میرے اس شبے کو تقویت یوں بھی ملتی ہے کہ یہ عزیز غالباً اسی طرح کی دعوتیں کھا کھا کر ہی خوب پلا ہوا ہے،قد کاٹھ کے لحاظ سے بھی یہ خاصا بارعب لگتا ہے اس کی توند بھی نکلی ہوئی نہیں ہے ،لگتا ہے کہ اس نے اپنی ڈائٹ بھی متوازن رکھی ہوئی ہے یا ممکن ہے وہ صبح وشام لمبی واک پر جاتا ہو،رسی کودتا ہو،اِن ڈور اور آئوٹ ڈور گیمز میں حصہ لیتا ہو وجہ خواہ کچھ بھی ہو یہ بکرا تصویر میں خاصا صحت مند اور اسمارٹ لگا ہے ۔

تاہم اخبار میں صرف اس بکرے کی تصویر شائع ہوئی ہے اس کے مالک کی تصویر شائع نہیں ہوئی اگر مالک کی تصویر بھی شائع ہوئی ہوتی تو پورے یقین سے کچھ اور معروضات بھی پیش کرتے چنانچہ تصویر کی عدم موجودگی کی وجہ سے محض شواہد کی بنا پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس بکرے کا مالک ان پڑھ اور سیاسی شعور سے بے بہرہ لگتا ہے، وہ نہیں جانتا کہ ہم لوگ اونچے لمبے اور بارعب شخصیت کے حامل لوگوں کے کس قدر قدردان ہیں، ہمارے ہاں لیڈر شپ کا بنیادی معیار لیڈر کا ’’اُچا لما تے سوہنا‘‘ ہونا ہے چنانچہ ماضی میں ایسے لوگوں کو بھاری تعداد میں ووٹ بھی ملتے رہے ہیں اس اُچے لمے تے سوہنے بکرے کا مالک اگر ان پڑھ نہ ہوتا اور سیاسی شعور سے اس قدر بے بہرہ نہ ہوتا تو اسے بازار میں فروخت کیلئےپیش نہ کرتا بلکہ انتخاب کا انتظار کرتا اور اسے الیکشن میں کھڑا کر دیتا مجھے یقین ہے کہ یہ جوانِ رعنا بھاری ووٹوں سے کامیاب ہوتا اور اس بکرے کے مالک کو اس کے بعد بکروں کا کاروبار کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی ،انسانوں کی خریدوفروخت کا کام کرتا مگر افسوس!

بکرا فروختند و چہ ارزاں فروختند!

تاہم ممکن ہے میں نے بکرے کے مالک کے بارے میں جو مفروضہ قائم کیا ہے کہ وہ ان پڑھ اور سیاسی شعور سے بے بہرہ ہے صد اقت پر مبنی نہ ہو بلکہ صورتحال اس کے برعکس ہو یعنی وہ سیاسی شعور سے اس قدر بہرہ ور ہو کہ اس نے انتخاب کا انتظار کرنے کی بجائے ہتھوں ہتھ رقم کھری کرنے ہی میں اپنی بہتری سمجھی ہو کہ

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

یعنی جب الیکشن ہوں کیا پتہ اس وقت یہ جوانِ رعنا چھڑی کے سہارے چلتا ہو، اس کے ہاتھوں میں رعشہ ہو اور یہ طاقت کے ٹیکے لگوا کر ’’یادِ ایام عشرت ِفانی ‘‘ تازہ کرتا ہو سو اس بکرے کے مالک نے جو فیصلہ کیا ہے وہ خاصا عقلمندانہ لگا ہے۔

خیر یہ ساری باتیں تو بلا ارادہ قلم پر آ گئیں حالانکہ ہم تو اس بکرے کے خصائص پر کالم لکھنا چاہتے تھے مگر جھجک اس لئے رہے تھے کہ اتنے قیمتی بکرے پر اگر بکرے کی اجازت کے بغیر کچھ لکھا تو کہیں وہ ہم سےرائلٹی کا مطالبہ نہ کر دے کہ ہم نے اپنے کالم میں اس کا نام استعمال کیا ہے، دوسرے بڑے لوگوں کے بارے میں لکھتے ہوئے یوں بھی ڈر لگتا ہے کہ کوئی لفظ اِدھر اُدھر ہو گیا تو کہیں ہتک ِعزت کا دعویٰ نہ دائر کر دیں چنانچہ بلاارادہ اس ذی شان بکرے کے بارے میں کچھ بے ادبی ہو گئی ہے یا کوئی ایسا فقرہ لکھا گیا ہے جس سے بکرے یا اس کے مالک کی شان میں کوئی گستاخی سرزد ہو گئی ہو تو تہہ دل سے معذرت خواہ ہوں کیونکہ مقصد کسی کی دل آزاری نہیں، میرے دل میں تو ایسے بکروں کیلئے بے پناہ عزت ہے جو اگر بکائو مال ہیں تو کھل کر اس کا اعتراف کرتے ہیں قیمت کا TAGاپنے گلے میں ڈال کر رکھتے ہیں خود کو ناقابل فروخت نہیں کہتے، اسی طرح ان کے مالک بھی ہمارے لئے قابل احترام ہیں جو بکروں کو پال پوس کر ان کے دام کھرے کرتے ہیں اور پھر ان کی گردنوں پر چھریاں چلنے کیلئے ان کی رسی گاہک کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔یہ بڑے کھرے لوگ ہیں یہ قربانی کے بکرے پالتے ہیں اور انہیں قربانی کا بکرا کہہ کر ہی آگے فروخت کرتے ہیں خود کو بیوپاری کہتے ہیں سیاست دان نہیں کہلاتے۔