ربڑ کی گیند!

اس نے ایک ملے جلے ماحول میں آنکھ کھولی تھی۔ اس کے والد دین اور دنیا دونوں سے نباہ کرتے تھے۔ ان کے چہرے پر داڑھی نہیں تھی تاہم ان کے گھر میں نماز روزے کی بہت پابندی تھی۔ فجر کی اذان سے پہلے اس کے والد اس کے کمرے میں آتے اور بہت محبت بھرے ملائم لہجے میں کہتے ”اٹھو بیٹے نماز کا وقت ہو گیا ہے“ مگر وہ سویا رہتا۔ وہ پھر کہتے ”جانِ پدر! اذان ہونے والی ہے، نماز کے لیے تیار ہو جاؤ“ مگر وہ آنکھیں بند کیے لیٹا رہتا۔ اس پر وہ پیار سے اس کے گال تھپتھپاتے اور اسے جگانے کی کوشش کرتے لیکن وہ ”اوں اوں“ کرتے ہوئے دوسری طرف کروٹ لے لیتا۔ اس دفعہ اس کے والد رضائی اس پر سے کھینچ لیتے مگر وہ دوبارہ رضائی اپنے اوپر اوڑھ لیتا۔ اس پر اسے والد کی آواز سنائی دیتی اٹھ ”خبیث آدمی“ اس خطاب کے بعد یہ اس کی آخری مزاحمت ہوتی چنانچہ وہ اٹھ کر بیٹھ جاتا، وضو کرتا اور والد کے ساتھ نماز کے لیے مسجد کی طرف چل پڑتا۔ نماز پڑھ کر گھر لوٹتا تو اس کی والدہ اور بہنیں دوپٹے سر پر لیے قرآن کی تلاوت میں مصروف ہوتیں۔ وہ بھی قرآن مجید نکالتا اور ہولے ہولے اس کی قرأت کرنے لگتا۔ اسے یہ سب کچھ بہت بھلا لگتا تھا۔ اس کی کوشش ہوتی کہ وہ باقی چار نمازیں بھی مسجد میں باجماعت ادا کرے۔ نماز باجماعت ادا کرتے ہوئے اللہ جانے اسے کیوں اپنے طاقتور ہونے کا احساس ہوتا۔ اسے یوں لگتا جیسے وہ کسی بہت مضبوط تنظیم کا رکن ہے جس کے اراکین پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے لیے دل میں گہری محبت محسوس کرتا چنانچہ ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتا اور کوشش کرتا کہ زیادہ سے زیادہ ان کی صحبت میں رہے!

تعلیم سے فراغت کے بعد اس نے ایک فرم میں ملازمت کے لیے اپلائی کیا اور اس کے اعلیٰ پروفیشنل تعلیمی کیریئر کی بنیاد پر اسے ملازمت کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ یہ بہت قیمتی اپائنٹمنٹ تھی کہ اس کا ماہانہ پیکیج تقریباً ڈھائی لاکھ روپے تھا مگر اس کی پوسٹنگ پشاور میں کی گئی چنانچہ اسے لاہور چھوڑ کر پشاور منتقل ہونا پڑا۔ ملازمت کے ایک سال بعد اس کی شادی کے لیے اُس کے اسٹیٹس کے مطابق رشتے کی تلاش شروع ہوئی۔ چنانچہ ایک بڑے گھرانے کی ہاورڈ سے پڑھی لڑکی سے اس کی شادی ہو گئی۔ اس کی بیوی اپر کلاس اور وہ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتا تھا۔ کچھ عرصے بعد اس نے محسوس کیا کہ وہ اپنی بیوی اور سسرال سے مرعوب ہوتا چلا جا رہا ہے۔

چنانچہ ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی وہ ایک گھر کے مکین نہیں تھے تاہم ان کے درمیان ”ورکنگ ریلیشن شپ“ موجود تھی چنانچہ ان کے ہاں تین لڑکیاں اور ایک لڑکا پیدا ہوا۔ اپنے والدین اور بھائی بہنوں سے اس کا ملنا جلنا بہت کم ہو گیا تھا۔ اسے اب اپنے گھر کا ماحول عجیب سا لگنے لگا تھا، تاہم اس دوران وہ خود کو بہت کمزور محسوس کرنے لگا چنانچہ اپنی بیوی اور بچوں کے سامنے وہ آہستہ آہستہ پسپا ہوتا چلا گیا اور بالآخر اس کی نمازیں اور روزے بھی اس سے چھوٹ گئے… اب بچے بھی بڑے ہو گئے تھے اور ان پر اپنے ننھیال کا رنگ غالب تھا! وہ خود بھی صبح دفتر جانے سے کچھ دیر پہلے اٹھتا اور شام کو گھر واپس آ کر اپنی بیوی کے ساتھ کلب چلا جاتا۔ اس کے بچے اور بیوی صبح دیر تک سوئے رہتے۔ اب اس کے کان میں تلاوت کی آوازیں نہیں آتی تھیں اور اسے اپنی بیوی اور بیٹی کے سروں پر دوپٹہ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس نے انہیں کبھی چادر کی بُکل مار کر نماز پڑھتے بھی نہیں دیکھا تھا اس کے بیٹے کا بھی یہی عالم تھا۔ وہ جب بھی گھر آتا اسے اپنے دوستوں کے ساتھ ہاؤ ہو ہی کرتے دیکھتا۔ اس ماحول میں وہ خود کو تنہا سا محسوس کرنے لگا تھا۔ ایک احساسِ رائیگانی اسے آہستہ آہستہ اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا!

اب رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ اسے اس مہینے کی رونقیں یاد تھیں۔ اسے یاد تھا کہ رات کودو بجے وہ اپنے والد، والدہ اوربہن بھائیوں کے ساتھ جاگ جاتا اور رات کے اس ہنگام میں گھر میں چہل پہل شروع ہو جاتی اور یہ صرف اس کے گھر پر موقوف نہیں تھا بلکہ اس وقت سارا محلہ جاگ رہا ہوتا تھالیکن اب خود اس کے اور اس کے گھروالوں کے معمول میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ وہ اپنی روٹین کے مطابق سوتے اور اپنی روٹین کے مطابق جاگتے۔ ایک رات وہ سو کر اٹھا تو اس کی بیوی نے پریشانی کے عالم میں اس سے پوچھا ”یہ تمہیں رات کوکیا ہو گیا تھا؟ تم سوتے میں زار و قطار رورہے تھے۔ میں نے تمہیں جگانے کی کوشش کی لیکن تم بہت گہری نیند سو رہے تھے“ یہ سن کر وہ حیران ہوا اور پھر ہنسنے لگا۔ اسے لگا جیسے اس کی بیوی اس سے مذاق کر رہی ہو لیکن ایسا نہیں تھا۔ وہ سچ کہہ رہی تھی! اس دوران ایک اور عجیب معاملہ ہوا اور وہ یہ کہ اس کی نیند آہستہ آہستہ کم ہوتی چلی گئی !

ایک رات وہ بستر پر کروٹیں بدل رہا تھا، نیند اس سے کوسوں دورتھی مگر وہ آنکھیں بند کئے لیٹا تھا تاکہ اس کی بیوی اسے سویا ہوا ہی سمجھے۔ رات گزرتی جارہی تھی اور اس کی آنکھیں نیند سے خالی تھیں۔ اچانک قریبی مسجد سے اعلان ہوا ”روزہ دارو، جاگو سحری کا وقت ہو گیا ہے“ اس نے اپنے کان اس آواز کے لیے بند کردیئے۔ تھوڑی دیر بعد پھر یہی اعلان ہوا، اس نے خود کو اس اعلان سے بے خبر رکھا۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کے والد اس کے سرہانے کھڑے ہیں اور اسی پیارسے اس کے گال سہلارہے ہیں، جس پیار سے وہ بچپن میں اس کے گال سہلایا کرتے تھے، اس نے آنکھیں کھول دیں مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ ایک روبوٹ کی طرح اپنی چارپائی سے اٹھا اور ٹرانس کی حالت میں اس نے چلنا شروع کر دیا…

صبح ناشتے کی میز پر سب اہل خانہ جمع تھے، اس کی بیوی نے گرم چائے کا کپ اس کی طرف بڑھایا جو اس نے ملائمت سے اس کی طرف سرکا دیا اور کہا ”میں روزے سے ہوں!“ اوراس وقت اس کے چہرے پروہ رونق اورتازگی اور ایک انجانی سی لذت تھی ایسے لگا جیسے وہ یہ لذت پہلی دفعہ محسوس کر رہا ہے۔ حالانکہ یہ سب کچھ تو اس کے رگ وپے میں سرایت کئے ہوئے تھا جسے اس نے بڑی مشکل سے دیس نکالا دیا تھا… دل و دماغ میں راسخ رویے ربڑ کی گیند کی طرح ہوتے ہیں انہیں آپ جتنی طاقت سے زمین پر ماریں گے یہ اتنی ہی طاقت سے واپس آئیں گے!