ادیب کو منافق ہونا چاہئے ؟

میرے لختِ جگر!

میں تمہیں کتنے ہی خط لکھ چکا ہوں مگر تم نے کسی ایک کا جواب بھی نہیں دیا۔ میں اب اپنی عمر کے آخری حصے میں ہوں، میرا یہ خط، خط نہیں وصیت نامہ ہے چنانچہ اِس کا جواب بھی چاہے نہ دو مگر اِسے سنبھال کر رکھ لو، تمہارے کام آئے گا۔

پیارے بیٹے! میں تمہیں سمجھاتے سمجھاتے تھک گیا ہوں مگر تم آئیڈیل ازم سے نہیں نکلتے۔ جانِ پدر زندگی گزارنا کوئی آسان نہیں ہے، اِس کے لئے جھوٹ کے ساتھ گزارا کرنا پڑتا ہے۔ مصلحتوں سے کام لینا ہوتا ہے۔ارد گرد کی فضا دیکھ کر قدم اٹھانا ہوتے ہیں۔ تم اپنی غزلوں میں موجودہ نظام کے خلاف کیسے کیسے خوفناک اشارے کرتے ہو، خود کو منصور کہتے ہو، انا الحق کا نعرہ لگاتے ہو، دار و رسن کی بات کرتے ہو مگر کیا میں نے کبھی تمہیں اِس سے روکا ہے؟ میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ تم اپنی شاعری میں اپنے کردار کے حوالے سے اِس سے بھی زیادہ دعوے کرنا چاہو تو ضرور کرو لیکن حکامِ بالا سے بھی بنا کر رکھو اور اُن کی خوشنودی حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دو مگر تم پر میری اِن باتوں کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا چنانچہ افسرانِ بالا تم سے ناخوش رہتے ہیں اور روزانہ تمہاری جواب طلبی ہوتی ہے۔

تم کمٹمنٹ کی بات کرتے ہو، بیٹے میں بھی کمٹمنٹ کا قائل ہوں اور تم سے زیادہ قائل ہوں مگر کمٹمنٹ فکر سے ہوتی ہے، عمل سے نہیں! ایک سیاسی جماعت سے تمہاری ہمدردیاں بھی دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں۔ تم کہتے ہو نظام بدلنے کے لئے ادیبوں اور دانشوروں کو ہر اُس سیاسی جماعت کے ہاتھ مضبوط کرنا چاہئیں جو اُن کے نظریے پر خواہ مکمل طور پر پورا نہ اُترتی ہوں مگر اُن کا منشور اور عمل حالات میں کچھ نہ کچھ تبدیلی لا سکتا ہو۔ بیٹے تم نہیں جانتے، خود تمہارے ہم عصر خود تمہاری اِس بات سے اتفاق نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں کہ ادیب اور دانشور کو غیرجانبدار ہونا چاہئے اور کسی کو پتا نہیں چلنا چاہئے کہ کس قومی یا بین الاقوامی مسئلے پر اُس کا نقطۂ نظر کیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر شعراء نظم کے بجائے غزل کو ذریعہ اظہار بناتے ہیں، دارورسن میر اور صیادِ گل اور گلچیں کے پردے میں گول مول باتیں کرتے ہیں تاکہ اُس کی تشریح دوسروں پر چھوڑ دی جائے! اوراگر کوئی قاری براہ راست پوچھ بیٹھے کہ آپ کا اشارہ کس طرف ہے تو وہ جواب میں کہتے ہیں ، میں نے جو کہنا تھا وہ شعر میں کہہ دیا ہے۔ اس سے آگے آپ کا کام ہے!یہی کام تجریدی قسم کے ناولوں اور افسانوں میں بھی کیا جاتا ہے۔ میرے بیٹے یہی بہترین پالیسی ہے، اِسی میں امان ہے۔

دیکھو بیٹے! تم عمر میں مجھ سے بہت چھوٹے ہو، لاحول ولا قوۃ کیسی مضحکہ خیز بات کہہ گیا ہوں، میں کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ تم میرے سب سے چھوٹے بیٹے ہو، میری زندگی کا تجربہ تم سے کہیں زیادہ ہے۔ مجھے دیکھو میں نے آج تک کسی کو اپنے نظریے کی ہوا تک نہیں لگنے دی مگر ہر دور میں رائج الوقت نظریات کا گول مول طریقے سے ساتھ دیتا رہا ہوں چنانچہ ہر دور میں ادیبوں اور دانشوروں کے حلقے میں ایک نظریاتی دانشور کے طور پر ’’اِن‘‘ رہا ہوں کیونکہ یہ سرٹیفکیٹ دینے والے بھی میری ہی طرح کے گول مول دانشور ہوتے ہیں۔ تحریکِ پاکستان کے دوران تین چار سر پھرے شاعروں کے علاوہ کسی نے فرنگی کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ 1857ءکی جنگِ آزادی میں یہی شاعر، ادیب اور دانشور وقت کی نزاکت سمجھتے ہوئے خاموش رہے تھے مگر آج اُن کی غزلوں میں سے فرنگی راج کے خلاف کتنے ہی اشعار نکالے جا رہے ہیں، غالب کا یہ شعر تم نے ضرور سنا ہوگا:

داغِ فراقِ صحبت شب کی جلی ہوئی

اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

اِس دور میں جب انگریز کے باغیوں کو درختوں کی شاخوں پر پھانسیاں دی جا رہی تھیں اور بہادر شاہ ظفر کے خاندان اور اُن کے ساتھیوں کی زندگی اجیرن کر دی گئی تھی، اُس دور میں غزل کا یہ پیرایہ غالب کے کام آیا کیونکہ اُس کا یہ شعر دراصل بہادر شاہ ظفر کے لئے تھا اور یوں انگریزوں کو پتا نہ چل سکا کہ غالب کی ہمدردیاں ہندوستان کے آخری تاجدار کے ساتھ ہیں۔ غالب اپنا کام بھی دکھا گئے اور اپنے ساتھیوں کے انجام سے بھی بچ گئے، تو بیٹے کیا تم غالب سے بڑے آدمی ہو؟ اور ہاں کچھ محقق قسم کے لوگوں کا کہنا ہے کہ غالب کا یہ شعر 1826یا 1827کا ہے، جب ’’غدر‘‘ کا نام ونشان بھی نہیں تھا۔ بہرحال اس طرح کے محقق بالآخر منہ کی کھاتے ہیں۔

1947کی تحریکِ آزادی کے دوران بھی چند ناموں کے علاوہ باقی لوگ غیرجانبدار رہے کہ ادیب کبھی کسی کے ساتھ کھلم کھلا پارٹی نہیں بنتا، ادیب پیغمبر نہیں ہوتا ، انسان ہوتا ہے وہ اپنی تحریروں میں کوئی واضح پیغام نہیں دیتاکیونکہ ادیب ڈاکیہ بھی نہیں ہوتا۔ ادیب اِدھر بھی ہوتا ہے، اُدھر بھی ہوتا ہے باطل دُوئی پسند ہے حق لا شریک ہے، قسم کی باتوں نے ادب کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ 1947میں پاک ٹی ہائوس کے باہر جو اُس زمانے میں انڈیا ٹی ہائوس تھا، گولیاں چل رہی تھیں، لاشیں گر رہی تھیں مگر مجھے یاد ہے میں ٹی ہائوس کے اندر حلقۂ ارباب ذوق کے اجلاس کی صدارت کر رہا تھا، جہاں ایک غزل پر الف اور بے کے گرنے پر بات ہو رہی تھی۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ ہم لوگ انسانوں کے مرنے پہ دکھی نہیں تھے؟ یقیناً تھے مگر ادیب کا کام صرف ادب تخلیق کرنا ہے، وقتی اور مقامی موضوعات اُسے آفاقی ادیب نہیں بنا سکتے۔ اگر تم آفاقی شاعر بننا چاہتے ہو اور پیٹ بھر کر روٹی کھانا چاہتے ہو تو میری باتیں پلے باندھو، جب تم آفاقی شاعر بن جائو گے تو تمہارے نقاد تمہارے شعروں میں سے قومی، وقتی ہر طرح کی کمٹمنٹ خود نکال لیں گے، باتیں تو ابھی اور بھی بہت سی کرنا ہیں مگر تھک گیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے مگر خود بھی اِس سلسلے میں محتاط رہا کرو۔(قندِ مکرر)