’’تو کہاں جا رہا ہے؟‘‘

خوش بختی کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ بہت سے بھلے لوگ آپ کو کتابوں جیسے تحفے کے قابل سمجھتے ہیں۔ اچھے خاصے سائز کی لائبریری چھوٹی پڑنے لگی ہے۔ جس کے نتیجہ میں بہت سی کتابیں ’’بیلی پور‘‘ والے گھر کی سٹڈی میں شفٹ کرنا پڑیں۔ ہفتہ کے روز ڈاکٹرطاہر القادری کی 71ویں سالگرہ تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی کچھ کتابیں بھجوائیں جن میں سرفہرست تھی ۔

“A REAL SKETCH OF THE PROPHET MUHAMMAD”

سبحان اللہ! ابھی زیر مطالعہ ہے اور اس سے دو دن پہلے عزیزی عبدالستار عاصم نے جسٹس سید افضل حیدر کا شہکار بھجوایا جس کا عنوان ہے :

’’کھوج۔ قرآن اور انسان‘‘

قرآن کا بنیادی سوال کیا ہے۔

فاین تذھبون (اے انسان تو کہاں جا رہا ہے) التکویر:26

انسان جانے اور اس کی انسانیت لیکن مسلمان بالخصوص ہم اہل پاکستان کو ضرور سوچنا چاہیے کہ … ہم کہاں جا رہے ہیں؟

قرآن پاک کی تعلیمات کے مطابق وہ اقوام جو شکر یعنی عوامی بہبود کے عمل کو چھوڑ دیتی ہیں، تباہ ہو جاتی ہیں (المائدہ:5)

صراط مستقیم سے کیا مراد ہے؟

سورۃ الفاتحہ میں یہ اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ دراصل سورۃ الفاتحہ مضطرب دل کی کیفیت بیان کرتی ہے۔ انسان پر جب اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ محض عقل سے معاشرتی ناہمواریاں ختم ہوتی ہیں نہ عدل و احسان و توازن کی کیفیت پیدا ہوتی ہے سو ایسی کیفیت میں انسان زندگی کا سفر طے کرنے کے لئے آسمانی ہدایات حاصل کرنے کے لئے دعا کرتا ہے کیونکہ انسانی تاریخ اسے یاد دلاتی ہے کہ ماضی میں قومیں غلط رویوں کو اختیار کرنے کےنتیجہ میں تباہی کے دہانہ تک پہنچیں اور بعض اقوام آسمانی ہدایت کی مدد سے منزل مراد تک پہنچ کر کامران ہوئیں۔ اس دعا کے بعد قرآن پاک کی 113 سورتیں ملتی ہیں یعنی دعا کے نتیجہ میں سوالی کو قرآن کی شکل میں آسمانی ہدایت مل جاتی ہے جو نقل و عقل کا حسین امتزاج ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی کیفیت کو صراط مستقیم یعنی منزل تک پہنچنے کا صحیح، واضح اور محفوظ راستہ کہتے ہیں۔ اسی اصطلاح کو سورۃ المائدہ کی آیت 16 میں ’’سُبل السلام‘‘ بھی کہا گیا ہے یعنی سلامتی اور نجات کا وہ راستہ جوسیدھا منزل کی طرف لے جانے والا ہو۔

اور اب ذرا اس سوال پر غور کیجئے کہ قرآنی تعلیمات کے مطابق معاشرتی سطح پر اسلام کے اہداف کیا ہیں؟

اس سوال کا جواب اگر مختلف زاویوں سے دیا جائے تو ہر جواب دوسرے جواب سے مختلف ہوگا۔ دراصل جواب دینے والے کی اپنی سوچ کا عمل دخل ہوتا ہے کہ وہ کون سے اہداف کو اہمیت دیتا ہے۔ اس تمہید کے بعد میں یہ کہوں گا کہ اسلام کا پہلا ہدف ’’وحدت امت‘‘ ہے (ہم ایک گلی میں بھی اکٹھے نہیں)۔ قرآن پاک کی روشنی میں (سورۃ آل عمران آیت :103) ابتدائی طور پر وہ گروہ جو ایک دوسرے کے دشمن تھے، ان کی نظریاتی و فکری تربیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ قبائل ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔

اسلام کا اگلا ہداف وحدت انسانیت ہے۔ سورۃ الحجرات آیت 13 میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ایک وقت تھا جب تمام انسان ایک وحدت ہوا کرتے تھے۔ سورۃ نسا کی تو ابتدا ہی اس اعلان سے ہوتی ہے کہ تمام انسانوں کی تخلیق نفس واحد سے ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ حضورؐ کو تمام عالموں کے لئے رحمت قرار دیا کیونکہ آپ پر نازل ہونے والا قرآن انسانی ہدایت کے لئے بھیجی جانے والی آخری ہدایت ہے۔ وحدت انسانیت کے تقاضا کے لئے ضروری تھا کہ انسان کو احساس دلایا جائے کہ ایک انسان کا ناحق قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے اور ایک شخص کی جان بچانے کا مطلب تمام انسانوں کی جان بچانا ہے۔ فرد کو انسانوں کی جمعیت کے برابر قرار دیا گیا ہے اور ہر فرد کو دوسرے افراد کے لئے ناگزیر بھی قرار دیا گیا ہے۔ (الزخرف:89)

اور پھر یہ اہم ترین سوال کہ قرآن کی نظر میں مسلمان کیسا ہونا چاہیے؟ رب کی آیات پر ایمان لانے والوں کی فکری سطح کیا ہونی چاہیے؟

جج صاحب فرماتے ہیں کہ اس سوال کا نہایت واضح اور چشم کشا جواب آپ کو سورۃ فرقان کی آیات 63 سے 76 تک اور بالخصوص آیت 73 پر غور کرنے سے مل جائے گا۔ اللہ پاک کا فرمان ہے کہ جب میری آیات میرے بندوں پر پیش کی جاتی ہیں تو وہ بصیرت سے ان آیات کو قبول کرتے ہیں۔ اندھوں اور بہروں کی طرح ان آیات پر گر نہیں پڑتے۔ قرآن اپنے قاری کو مختلف آیات کے حوالہ سے دعوت دیتا ہے کہ وہ اقوام کے عروج و زوال کے اسباب و محرکات، نتائج اور تاریخی شواہد پر غور کرے۔ کائنات میں قوانین فطرت، تخلیقی نظام، متوازن معاشروں کے قیام کے لئے اخلاقی ضابطوں، رہنمااصولوں اور مستقل اقدار پر توجہ مرکوز کرے۔ موت و حیات اور آخرت کے تصور پر سوچے، توحید کے تصور کی وسعتوں پر غور کرے۔ سیاسی و معاشی نظاموں کوپہچانے، تکریم آدم کے تصور کی ضرورت کو سمجھے۔ قرآن کہتا ہے کہ کیا اندھے اور بصارت والے برابر ہو سکتے ہیں؟

ہم کہاں جا رہے ہیں؟