معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
آئندہ کے لئے معذرت!
دو روز پیشتر میرا ایک کالم شائع ہوا جس میں ، میں نے شیخیاں ماری تھیں کہ میں اعلیٰ درجے کے نہایت قیمتی برینڈڈ سوٹ خود ہی نہیں پہنتا بلکہ دوستوں کو بھی گفٹ کرتا رہتا ہوں۔میں نے اس کالم میں یہ بھی لکھا تھا کہ چند روز تک میں د بئی جا رہا ہوں، اگرچہ وہاں مقیم میرے دوست ماشااللہ بہت خوشحال ہیں اور اعلیٰ درجے کے ملبوسات پہنتے ہیں،مگر تحفہ تو تحفہ ہی ہوتا ہے چنانچہ میں ان کے لئے بھی یہاں سے برینڈڈسوٹ لے کر جا رہا ہوں اگرچہ کالم کے آخر میں ،میں نے بعض قارئین کی ’’سہولت‘‘ کے لئے یہ واضح کر دیا تھا کہ میں لنڈا بازار کے برینڈڈ ڈریسز کی بات کر رہا تھا مگر کچھ قارئین یہ سمجھ بیٹھے کہ میں واقعی نہ صرف یہ کہ نہایت قیمتی سوٹ پہنتا ہوں بلکہ دوستوں کو بھی گفٹ کرتا ہوں!
اس کالم کی اشاعت کے بعد ایک صاحب کا فون آیا کہ آپ کو یاد ہے قاسم علی شاہ فائونڈیشن کی ایک تقریب میں آپ سے ملاقات ہوئی تھی اور آپ بہت محبت سے مجھے ملے تھے میں نے آپ کےساتھ سیلفی بھی بنائی تھی ۔حرام ہے اگر ان صاحب کی بتائی ہوئی ایک بات بھی مجھے یاد ہو مگر میں مروتاًان کی ہر بات کی تصدیق کرتا رہا اس پر ان صاحب نے کہا ’’یہ میرے لئے کتنے اعزاز کی بات ہے کہ میرا شمار بھی آپ کے دوستوں میں ہوتا ہے میں نے کہا کیوں نہیں اس پر ان کی باچھیں کھل گئیں جس کا اندازہ مجھے ان کے اس جملے سے ہوا کہ اب جب آپ اپنے دوستوں کے لئے قیمتی سوٹ خریدنے جائیں تو اپنے اس دوست کو نہ بھولیں ۔خدا کا شکر ہے کہ موصوف کو میرا قہقہہ سنائی نہیں دیا کیونکہ یہ قہقہہ میں نے اپنے دل میں لگایا تھا۔
میرے ساتھ اس طرح کا واقعہ پہلی بار نہیں ہوا بہت روز پیشتر میں نے ایک کالم لکھا جو ایک ’’روحانی‘‘ شخصیت کے حوالے سے تھا اور میں نے اس میں لکھا تھا کہ میں ایک عرصے سے کسی مرشد کی تلاش میں تھا اور مجھے علم نہیں تھا کہ میں تو انہیں طویل عرصے سے جانتا ہوں مگر ان میں مرشد ی والی کوئی بات نظر نہیں آئی تھی کیونکہ ان کی داڑھی نہیں تھی وہ مجھے کبھی جبہ و دستار میں نظر نہیں آئے تھے میں نے ان کے ہاتھ میں کبھی تسبیح نہیں دیکھی تھی نہ انہوں نے مجھے کوئی وظیفہ بتایا تھا یہ صاحب ایک حرام خور محکمے میں اعلیٰ افسر تھے جس میں دس بارہ لاکھ روزانہ کی دہاڑی مسئلہ ہی کوئی نہیں تھی، اس کے باوجود وہ سرکاری کار صرف دفتر آنے جانے کے لئے استعمال کرتے اپنے ذاتی کاموں کے لئے انہوں نے بینک سے قرضہ لیکر ایک آٹھ سو سی سی کار خریدی ہوئی تھی ان کا مکان بھی ذاتی نہیں تھا کہتے تھے کہ ریٹائرمنٹ پر جو پیسے ملیں گے ان سے وہ مکان تعمیر کرلیں گے ایک پانچ مرلے کا پلاٹ انہوں نے خرید کر رکھا ہوا ہے ان سے طویل عرصے کی رفاقت کے دوران میں نے انہیں کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا ان کے کسی رویے میں مجھے نخوت اور غرور نظر نہیں آیا چنانچہ جس مرشد کی میں تلاش میں تھا وہ میں نے ان صاحب کی شکل میں پالیا ہے۔ میں نے جب سے ان کے ہاتھ پر زبردستی بیعت کی ، زبردستی اس لئے کہ وہ کہتے تھے میں گنہگار آدمی ہوں میرے ساتھ یہ مذاق نہ کرو چنانچہ میرے اصرار کے باوجود جب انہوں نے بیعت کے لئے اپنے ہاتھ میرے ہاتھ میں نہ دیئے اور میں نے دل میں انہیں اپنا مرشد تسلیم کر لیا تو اس وقت سے آج تک میری تمام پریشانیاں ختم ہوگئی ہیں اور مرشد کی دعا سے میں اس وقت نہایت خوش وخرم زندگی گزار رہا ہوں۔
اب ظاہر ہے کہ اس کالم میں ،میں یہ بتانا چاہتا تھا کہ جن پیروں، فقیروں کے حلیے دیکھ کرتم ان کے ہاتھ چومتے رہتے ہو اور ان کے اعمال پر نظر نہیں ڈالتے تو اصلی اتباع کے قابل وہ شخص ہوتا ہے جس کا باطن نیک ہو مگر یار دوستوں نے اس ساری حکایت میں سے بھی اپنے لئے اس قسم کا مرشد دریافت کر لیا جس طرح کے مرشد ہر شہر میں وافر تعداد میں ملتے ہیں چنانچہ میرے پاس خطوط کے ڈھیر لگ گئے جس میں کہا گیا تھا کہ میرا محبوب مجھے منہ نہیں لگاتا ان سے میرے لئے کوئی ایسا تعویز لے دیں جس سے محبوب قدموں میں آن گرے، میری ساس نے میرے شوہر پر تعویز کئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ہر وقت گھر میں لڑائی رہتی ہے پلیز مرشد سے میری ساس کے تعویز کا توڑ ارسال کروا دیں وغیرہ وغیرہ۔آج اس کالم کو کئی برس گزر چکے ہیں مگر پھر بھی سال میں دو چار ایسے خطوط آج بھی موصول ہوتے رہتے ہیں۔
تاہم ایک صورتحال کو خود میں نے بھی انجوائے کیا تھا اور وہ ایسے کہ میں نے ’’اپنی وفات پر ایک تعزیتی کالم ‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا جس میں ’’مرحوم‘‘ کی شخصیت میں پائے جانے والے تضادات کا ذکر تھا اس روز دس بارہ دفعہ میرے گھر کی گھنٹی بجی اور لوگ ابا جی سے تعزیت کے لئے آتے رہے کہ بہت دکھ ہوا ابھی تو کل انہیں دیکھا تھا اس شام جب میں گھر پہنچا تو ابا جی سخت غصے میں تھے، میں نے کہا ابا جی یہ تو ایک فکاہی قسم کا کالم تھا جس پر ابا جی بولے ’’ہو گا فکاہیہ مگر خبردار اگر آئندہ تم نے ایسی خرافات لکھی‘‘۔
بائی دی وے یہ وہی کالم تھا جس کی اشاعت پر مجھے قدرت اللہ شہاب کا یہ دو سطری خط ملا تھا ’’آج آپ کا کالم ’’آہ عطاء الحق قاسمی‘‘ پڑھا اور دل سے بے اختیار واہ عطاءالحق قاسمی نکلا‘‘۔