تھینک یو موبائل فون!

موبائل فون کی آمد سے پہلے پی ٹی سی ایل کی ’’حکومت‘‘ ہوتی تھی، جس کے سستے اور مہنگے سیٹ گھروں میں ڈیکوریشن پیس کے طور پر اور دکانوں میں تالے لگا کر رکھے ہوتے تھے۔یہ ٹیلی فون سیٹ جو عموماً کالے رنگ کے ہوتے تھے، بہت نایاب چیز تھے۔ اِس کا کنکشن حاصل کرنا ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں تھا۔ ایسے ایسے پاپڑ بیلنا پڑتے تھے کہ دماغ چکرا جاتاتھا اور جس خوش نصیب کو یہ نعمت حاصل ہو جاتی، خوشی سے اس کے پائوں زمین پر نہیں ٹکتے تھے۔ اس کے ارد گرد کے علاقوں میں اس کی ’’رسائی‘‘ کی دھوم مچ جاتی تھی، مگر اس خوش قسمت شخص کی بدقسمتی کا آغاز بھی ہو جاتا تھا، اس کے رشتے دار اور محلے دار اس کے ہاں فون کرنے کے لیے آتے تھے مگر اس سے پہلے وقت بہت ضائع کرتے تھے۔ ادھر ادھر کی باتیں، گلے شکوے کہ آپ بڑے آدمی ہیں، کبھی ملتے ہی نہیں، آج میں نے سوچا چلو میں ہی مل آئوں۔ آدھ پون گھنٹے چائے پر گپ شپ کے بعد فون پر نظر ڈالتے ہوتے کہتے آہا! آپ کے ہاں تو فون بھی ہے، ماشا اللہ۔ ہم نے تو ایک سال سے اپلائی کیا ہوا ہے مگر ہماری باری ابھی نہیں آئی۔ میں ذرا ایک فون کرکے دیکھوں، کیا ہوتا ہے؟اور اس کے بعد اپنی کسی بہن یا اپنے کسی ’’بھائی‘‘ سے دنیا جہاں کی باتیں ہوتیں۔ تاہم اگر یہ بات کسی ’’بھائی بند‘‘سے ہو رہی ہوتی تو گفتگو سے اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ ’’ہی‘‘ سے بات ہو رہی ہے یا کسی ’’شی‘‘ سے۔ خدا خدا کرکےسڑکوں پر کال سینٹرز اور پی سی اوز کی آمد شروع ہوئی اور یار لوگوں نے اس کاروبار میں بہت پیسہ کمایا۔

مگر یہ ساری گپ شپ میرے باتونی ہونے کی وجہ سے درمیان میں آگئی۔ بات تو مجھے صرف موبائل فون کے حوالے سے کرنی تھی اور ہر کوئی خریدنے کی سکت بھی نہیں رکھتا تھا، کسی چوہدری صاحب کے مزارع نے اسے دونوں ہاتھوں میں تھاما ہوتا اور چوہدری صاحب نے جب بات کرنا ہوتی تو اس کے لیے خاصا اہتمام کرناپڑتا۔ مگر اب تو یہ بے چارہ ’’رُل‘‘گیا ہے۔ صفائی کے عملے کا کوئی رکن کسی گٹر کے اندر سے کسی دوسرے گٹر میں موجود اپنے ’’کولیگ‘‘ سے موبائل پر بات کرتا نظر آتا ہے۔ گھروں میں کام کرنے والی مائیاں، دفتروں کے نائب قاصداور اس درجہ بند معاشرے کے اس ’’نوعیت‘‘ کے لوگ موبائل بردار نظر آتے ہیں۔ موٹرسائیکل پر، کار ڈرائیو کرتے ہوئے بھی یار لوگ موبائل پر گپ شپ میں مشغول نظر آتے ہیں۔ گھروں میں ہر فرد کے ہاتھ میں موبائل فون ہوتا ہے اور سب ایک دوسرے سے ’’بیگانہ وار‘‘ اپنا یا کسی اور کا دل بہلا رہے ہوتے ہیں۔

اور ظاہر ہے ہر نئی روایت یا کسی ایجاد پر پرانی روایات والوں نے اعتراض تو کرنا ہی ہوتا ہے جیسے لائوڈ اسپیکر اور ٹیلی وژن کی آمد پر ان کے استعمال کو حرام قرار دے دیا گیا تھا۔ اب موبائل فون کو حرام تو کسی نے قرار نہیں دیا مگر اس ایجاد کی ’’کردار کشی‘‘ بہت ہورہی ہے۔ موبائل فون کے بے محابہ استعمال پر تنقید تو بجا ہے کہ اب لوگ ایک دوسرے سے ملنے سے بھی گئے۔ نکاح تک موبائل فون پر ہو جاتا ہے۔ مگر ہم نے کبھی نہیں یہ سوچا کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں موبائل فون ہر شخص کا قریبی ترین ’’دوست‘‘ بن گیا ہے۔ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی مادہ پرستی اور خود غرضی پر مبنی رشتوں کی وجہ سے لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرےسے رابطے برقرار رکھتے تھے اور یہ مشینی معاشرہ دن بدن انسانوں میں تنہائی کا زہر گھولتا چلا جا رہا تھا۔ موبائل فون پر ہم ایک کروڑ اعتراضات کریں مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس نے آج کے انسان کی تنہائیوں کو محفلوں میں بدل دیا ہے۔ کانفرنس کال میں وہ سب دوست ایک دوسرے سے گپ شپ کر رہے ہوتے ہیں جو زمینی فاصلوں اور روزی روٹی کے گھن چکر میں پھنسے ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے مل نہیں پاتےتھے۔ اب وہ جب چاہیں ایک دوسرے سے ’’مل‘‘ سکتے ہیں۔ اپنا دکھ سکھ ’’پھرول‘‘ سکتے ہیں۔ اپنی خوشیاں اور غم ایک دوسرے سے شیئر کر سکتے ہیں۔ موبائل فون عمر رسیدہ لوگوں کے لیے ایک نعمتِ غیرمترقبہ ثابت ہوا ہے، جن سے بات کرنے کا وقت ان کی اولاد کے پاس بھی نہیں اور وہ سہولت سے کہیں آ جا بھی نہیں سکتے۔ سوبرادرانِ اسلام! شکر ادا کرو ان سائنسدانوں کا جنہوں نے آج کے انسان کی تنہائیوں کو دور کیا ہے اور وہ اس ایجاد سے اگر کچھ لوگوں سے دور ہوئے ہیں تو پوری دنیا کے بہت قریب بھی تو آگئے ہیں۔ آخر ہم کب تک بسم اللہ کے کنبہ میں قید رہتے۔ موبائل فون صرف گپ شپ نہیں، پوری دنیا کے علوم تک ہماری رسائی بھی ممکن بناتا ہے۔ ظلم کے خلاف آواز بھی اٹھاتا ہے۔ سوشل میڈیا اسی ایجاد کی دی ہوئی نعمت ہے جس کی وساطت سے وہ باتیں بھی زبان پر آ جاتی ہیں جن کے کہے سے زبانیں کاٹ دی جاتی تھیں۔ تھینک یُو موبائل فون۔