’’کانپیں ٹانگ‘‘ جاتی ہیں!

ہم پاکستانی ہر وقت شغل میلے کی تلاش میں رہتے ہیں، اِن دنوں ملک میں سیاسی سرکس لگی ہوئی ہے چنانچہ بہت سے تماشائی اِدھر کا رُخ کر رہے ہیں۔ عمران خان کی SLIP OF TONGEبڑے بڑے کرشمے دکھا چکی ہے، صرف سلپ آف ٹنگ ہی نہیں بلکہ ان کی ماضی کی تقریریں، ان کی زبان سے سرحدوں کا غلط ملط ہو جانا یکایک لاکھوں کی تعداد بارہ تک جا پہنچنا وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ یار لوگ آج بھی روزانہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم خود بھی مزا لیتے ہیں، دوسروں کو بھی ’’مسرت‘‘ کے لمحات فراہم کرتے ہیں۔ اِن دنوں بلاول بھٹو ہمارے ستم ظریفوں کے ’’اڑِکے‘‘ چڑھے ہوئے ہیں، ان میں میرے جیسے بھٹو خاندان کی قربانیوں کے زبردست مداح بھی شامل ہیں اور جمہوری پیشرفت میں ان کے قدم بہ قدم بھی چل رہے ہیں، دراصل گزشتہ ہفتے بلاول کی زبان سے ’’ٹانگیں کانپ رہی ہیں‘‘ کی بجائے ’’کانپیں ٹانگ رہی ہیں‘‘ نکل گیا جس کا مزا ہم سب نے لیا بلکہ بہت سے لوگ ابھی تک لے رہے ہیں۔ یار لوگ تو اس مصرع طرح پر ’’سہ غزلے‘‘ بھی کہہ رہے ہیں مگر اس سے پہلے ’’کانپیں ٹانگ جاتی ہیں ‘‘ کے عنوان سے ایک آزاد نظم ملاحظہ فرمائیں۔

میں اک دل شکستہ ہوں

پرانا PPSC متاثرہ ہوں

جب کوئی غزل لکھوں تو

کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

فصل بیجی کرپشن کی کیاری میں

لگا کب سے تیاری میں

میں جب ماضی میں جھانکوں تو

کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

میں مکمل تیاری کرتا ہوں

رویژن بھی ساری کرتا ہوں

مگر پیپر کو دیکھوں تو

کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

متاثرہ سے ببر شیر بنتا ہوں

میں جب پیپر پاس کرتا ہوں

مگر انٹرویو میں بیٹھوں تو

کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

ایک غزل ’’بلاول لاڑکانوی‘‘کےیہ تین اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں!

مجھے اپنا بتاتا ہے تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

یہ شیدا مسکراتا ہے تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

نہیں ہے خوف پرنالے کے پانی کا مجھے لیکن

جو بادل گڑگڑاتا ہے تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

بلاول میں کسی بھی اور بالر سے نہیں ڈرتا

مگر عمران آتا ہے تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

اور ایک دوست نے تو حد ہی کر دی اس نے میرے پسندیدہ مزاح نگار شفیق الرحمٰن کے ایک مشہور زمانہ کردار ’’شیطان‘‘ کے باب میں سے ایک اقتباس ارسال کیا ہے جس میں اس نوعیت کی ’’سلپ آف ٹنگ‘‘ ہے یہ بھی ملاحظہ فرمالیں:

پھسلی سے سیڑھا

ذرا سی دیر میں لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا رہے تھے ہم پہلی منزل کے برآمدے میں کھڑے تھے، مولانا بھی ساتھ تھے اور نیچے جھانک رہے تھے غالباً انتظار تھا انہیں کسی کا اتنے میں ایک ٹانگہ گزرا مولانا چلا کر بولے ’’بھئی ٹھہرنا تمہارا ٹانگی خالہ ہے کیا؟

ادھر ٹانگے والے نے سنا ہی نہیں مجھے بڑی ہنسی آئی لیکن شیطان بڑی سنجیدگی سے بولے،

’’!قبلہ ! اگر آپ یوں فرماتے تو بہتر تھا …کہ تمہاری خالہ ٹانگی ہے کیا ‘‘

مولانا جھینپ گئے انہوں نے جان بوجھ کر تھوڑا ہی کہا تھا یونہی منہ سے نکل گیا ویسے وہ ڈرے ہوئے ضرور تھے

’’ٹانگے کا انتظار ہوتا رہا شیطان مولانا سے بولے ’’کیوں صاحب، آپ کی بجی میں کیا گھڑا ہے؟

بارہ بجنے والے ہیں ’’وہ بولے ‘‘

میرے خیال میں اب چلنا چاہئے سڑک پر ٹانگہ ضرور مل جائے گا ’’اور ہم تینوں نیچے اترنے لگے‘‘

قبلہ، ان سیڑھیوں کے متعلق بھی ایک پراسرار قصہ ہے ،جسے میں اس اندھیرے میں سنانا نہیں چاہتا ’’اور مولانا اور بھی آہستہ ‘‘ آہستہ اترنے لگے ۔

اجی آپ تو آہستہ آہستہ اُتر رہے ہیں ذرا جلدی کیجئے، ’’شیطان بولے‘‘۔

’’ویسے ہی ذرا …چکنی سیڑھیاں ہیں …کہیں …’’وہ بولے ‘‘

جی ہاں ! واقعی سیڑھیاں اترتے چڑھتے وقت ضرور خیال رکھنا چاہئے کیونکہ پرسوں ہی کا ذکر ہے کہ میں جلدی جلدی زینے سے اترا رہا تھا ،یکلخت جو ایک پھسلی سے سیڑھا تو دور تک سیڑھتا ہوا چلا گیا۔

اور آخر میں اسی طرح کی ایک اور شرارت ملاحظہ فرمائیں، یہ بہت تخلیقی شرارت ہے اور اس کے ساتھ ہی قارئین سے گزارش ہے کہ اب آپ بچارے میاں ولی کا پیچھا چھوڑ دیں غلطان سے انسی ہو ہی جاتی ہے (انسان سے غلطی ہو ہی جاتی ہے) اب آخری پیرا :

بلاول کی تقریر سن کر پانکھوں میں آنی آ گیا اور پھر دل کیا کہ موقع کی خوشی پر حاجر کا گلوہ کھا لوں مگر گھر میں بس آلے انڈو اور مالو اٹر پکے ہوئے تھے اور پھر تسلی کو دل دیا کہ دشت تو دشت صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے بحر ظلمات میں گھوڑا دیے دوڑے ہم نے !