عالم اسلام اور صیہونیت (قسط3:)

ہاں تو میں قصہ سنا رہا تھا راتھ شیلڈ کے منصوبہ کا کہ ”مظلوم ترین“ گلوبل اقلیت ہونے کے باوجود دنیا پر کاٹھی کیسے ڈالی جا سکتی ہے۔ منصوبہ کا خلاصہ بلکہ اس کی چند جھلکیاں پیش خدمت ہیں۔

”کیونکہ لوگوں کی اکثریت نیکی کی بجائے بدی کی طرف مائل ہوتی ہے اس لئے ان پر حکومت کا بہترین طریقہ تشدد اور دہشت گردی کا استعمال ہے نہ کہ علمی مباحثے۔ شر وع میں انسانی معاشرہ کو اندھی طاقت سے ہی قابو میں رکھا جاتا تھا۔ پھر قانون آ گیا لیکن دراصل قانون کے پردے میں بھی اندھی طاقت ہی کام کر رہی ہوتی ہے۔ قانون فطرت بھی یہی ہے کہ حق … صرف طاقت میں ہی پایا جاتا ہے۔

سونے (GOLD) کی طاقت فیصلہ کن ہے۔ حصول مقصد کے لئے ہر حربہ جائز ہے۔ ہمارے ذرائع کی طاقت کو لوگوں سے پوشیدہ رہنا ہو گا۔ عوام پر کنٹرول کے لئے ان کی نفسیات مدنظر رکھنا ہو گی۔ عوامی طاقت اندھی، بے حس، غیر مدلل اور نعروں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ ہم نے ہی سب سے پہلے عوام کے منہ میں ”آزادی“ … ”مساوات“ اور ”اخوت“ کے الفاظ ڈالے جو ابھی تک یہ احمق طوطے دہرا رہے ہیں۔ فطرت میں یہ تینوں لفظ نہیں پائے جاتے۔ عوام کی فطری و نسلی کبریائی کے کھنڈرات پر ہم نے سرمایہ کی کبریائی قائم کرنی ہے۔ صنعتی سرد بازاری اور مالی پریشانیوں سے ہم اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم بیروزگاری اور بھوک پیدا کر کے پسندیدہ نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔ منظم دھوکہ بازی سے جاہل عوام کو بڑے بڑے الفاظ اور نعروں سے بیوقوف بنا کر اپنی مرضی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ”انقلابی جنگ“ کے لئے گلی کوچوں میں لڑنے اور دہشت کی حکمرانی پیدا کرنا ضروری ہے کیونکہ لوگوں کو محکوم بنانے کا یہ سب سے سستا طریقہ ہے۔ عالمی حکومت ہمارا نصب العین ہے جس کے لئے ہر جگہ بڑی اجارہ داریاں اور دولت کے ذخائر کا قیام ضروری ہے۔ اسلحہ اس خیال سے اس مقدار میں بنایا جائے کہ جاہل عوام آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کو تباہ کر دیں۔ نظام نو عالمی حکومت کے ارکان کو آمر مقرر کرے گا اور انہیں سائنس دانوں، ماہرین اقتصادیات و مالیات، صنعت کاروں اور دولت مندوں میں سے چنے گا۔ قومی اور بین الاقوامی قوانین کو بدلا نہیں جائے گا بلکہ اسی حالت میں اس طرح استعمال کیا جائے گا کہ تفہیم میں تضاد پیدا ہو اور قانون سرے سے ہی غائب ہو جائے۔“

امید ہے روتھ شیلڈ سوچ کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہو گیا ہو گا۔1215ء میں رومن کیتھولک کونسل کی میٹنگ ہوئی جس میں سب سے اہم موضوع یورپ کے تمام ملکوں پر ”یہودی یلغار“ تھا۔ میٹنگ میں چرچ کے سربراہوں نے فیصلہ کیا کہ سود کا خاتمہ کر دیا جائے اور یہودی قرض خواہوں کے تجارت میں بے اصول طریقوں کو جس سے وہ عوام کا استحصال کرتے ہیں روک کر بدعنوانی اور بداخلاقی کو چلنے نہ دیا جائے۔

یہودیوں کو ان کے محلوں تک محدود کیا جائے اور عیسائیوں کو ملازم رکھنے سے روک دیا جائے کیونکہ یہودی جائنٹ سٹاک کمپنی کے اصول پر کام کرتے

تھے اور عیسائیوں کو فرنٹ پر رکھتے تھے اور جب کوئی واردات ہوتی تو الزام عیسائیوں پر آتا اور سزا بھی وہی بھگتتے۔ عیسائی عورتوں کو ملازم رکھنے پر بھی پابندی لگائی گئی کیونکہ ان کا بے رحمانہ استعمال کیا جاتا۔ کچھ اور پابندیاں بھی لگیں لیکن کمال دیکھیں کہ چرچ اور ریاست کی متحدہ طاقت بھی ان کا کچھ نہ کر سکی۔ نتیجہ یہ کہ چرچ اور ریاست کی علیحدگی کا پتہ پھینکا گیا۔

1253 میں حکومت فرانس نے یہودیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ اکثر یہودی انگلینڈ چلے گئے جہاں 1255ء تک یہودی قرض خواہوں نے چرچ کے بڑوں اور دوسرے شرفاء پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔ راز کھلنے پر 18 یہودی مجرم نکلے اور بادشاہ ہنری سوم نے انہیں سزائے موت دے دی۔ 1272 میں ہنری سوم فوت ہوا تو ایڈورڈ اول بادشاہ بنا اور عہد کیا کہ یہودیوں کو سودی کاروبار نہ کرنے دے گا چنانچہ 1275میں پارلیمنٹ سے یہودیوں کے متعلق خصوصی قانون پاس کروایا جس کا مقصد تھا کہ مقروضوں کو سود خوروں کے شکنجے سے نکالا جائے لیکن یہودیوں نے پرواہ نہ کی لہٰذا 1290 میں کنگ ایڈورڈ نے ایک خاص حکم جاری کیا جس کے تحت تمام یہودی انگلینڈ سے نکال دیئے گئے نتیجہ یہ نکلا کہ دوسرے یورپین حکمرانوں نے بھی یہی کیا۔

1348 میں سسکیونی، 1360میں ہنگری، 1370 میں بلجیم اور سلوویکیا، 1420میں آسٹریلیا، 1444 میں ہالینڈ، 1492 میں سپین، 1495 میں لتھونیا، 1498 میں پرتگال، 1540 میں اٹلی اور 1551 میں بویریا نے انہیں نکال دیا۔ پناہ ملی تو صرف پولینڈ اور ترکی میں۔ بعض مورخین کے نزدیک یہ یہودیوں کا ”عہد تاریک“ تھا۔ اخراج کے نتیجہ میں یہودی اپنے مخصوص باڑوں، احاطوں میں رہنے لگے جس نے ان کے اندر نفرت اور جذبہ انتقام کو جنم دیا لیکن انہوں نے بڑھکیں اور نعرے نہیں مارے، خود کش جیکٹیں اور حملے ایجاد نہیں کئے، چھچھوروں کی طرح اچھل کود نہیں کی بلکہ ایک ایسی عالمی انقلابی تحریک کو خاموشی سے منظم کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں جو دنیا ان پر تنگ کی گئی تھی …آج ان کے ہاتھوں تنگ ہے اور یہ بھی نہیں جانتی کہ ”ولن“ کون ہے۔ جن ملکوں سے یہودی نکالے گئے تھے انہی ملکوں میں ایک ایک کر کے داخل ہوئے اور زیر زمین کام کرنے کی سٹرٹیجی بنائی گئی۔ کھلی تجارت کی بجائے بلیک مارکیٹ پر توجہ مرکوز کی گئی۔ غرضیکہ ہر غیر قانونی طریقہ اپنایا گیا اور ”جائنٹ سٹاک کمیٹی“ کے بادشاہ تو وہ تھے ہی۔

1600ء میں وہ انگلستان میں آئے اور بادشاہ، حکومت، آجر، اجیر، چرچ اور ریاست کو لڑانا شروع کر دیا۔ جب کنگ چارلس اور پارلیمنٹ میں رسہ کشی شروع ہوئی تو انہوں نے کرامویل سے رابطہ بنا کر ایک بہت بڑی رقم اس شرط پر دینے کا وعدہ کیا کہ وہ بادشاہ کو برطرف کر دے۔ پھر پرتگال کا ایک یہودی کرامویل کا سب سے بڑا اسلحہ کا ٹھیکے دار بن گیا۔ سازش پھیلتی گئی اور کرامویل اس سازش کا حصہ جس نے 18جون 1647کو یہودی ڈائریکٹرز کو لکھا۔ (جاری ہے)