معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
نظریہ یا ضرورت
میں نظریے کی حد تک نظریۂ ضرورت کا مخالف ہوں مگر عملی طور پر اس کا بہت قائل ہوں۔ میں جب صبح ناشتے کی میز پر بیٹھتا ہوں تو مجھے انڈے کی ضرورت پڑتی ہے حالانکہ میں جانتا ہوں کہ مرغی نے انڈا دینے کی زحمت میرے ناشتے کے لیے نہیں اٹھائی تھی بلکہ اس نے اس میں سے بچے نکالنا تھے لیکن نظریۂ ضرورت کے تحت مجھے اس کا یہ حق غصب کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ میں اسے اس کے مستقبل کے چوزوں سے محروم کرکے اس کے انڈے چٹ کر جاتا ہوں بلکہ کئی دفعہ تو حکیم صاحب کے کہنے پر نظریۂ ضرورت ہی کے تحت چوزے بھی کھانا پڑ جاتے ہیں۔ ضمیر ملامت تو بہت کرتا ہے لیکن ضمیر کو تو ملامت کے سوا کچھ آتا ہی نہیں۔
اسی طرح دودھ پینا میری ضرورت ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ بھینس نے یہ دودھ میرے لیے نہیں، اپنے کٹّوں کے لیے سنبھال رکھا ہوتا ہے چنانچہ میں بھینس کو چکر دینے کے لیے اس کے کٹے کو اس کے قریب لے جاتا ہوں جس پر وہ فوراً اپنے تھنوں میں دودھ اتار دیتی ہے۔ یہ دیکھ کر میں کٹے کو پرے دھکیلتا ہوں اور اس کا سارا دودھ ایک برتن میں جمع کرکے حسبِ ضرورت استعمال کرتا رہتا ہوں۔
یہ جو نظریہ ضرورت ہے، مجھے اپنی زندگی میں بار بار اس کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اگرچہ میں بنیادی طور پر ایک رحمدل انسان ہوں بلکہ کمزور دل کہنا زیادہ مناسب ہے، چنانچہ کسی کو تکلیف دینا تو کجا کسی کو تکلیف میں دیکھ بھی نہیں سکتا لیکن نظریۂ ضرورت کے تحت میں نہایت معصوم سے جانوروں کا گوشت بہت شوق سے کھاتا ہوں۔ قصائی نے بکروں کے لاشے اپنی دکان پر کنڈے کے ساتھ لٹکائے ہوتے ہیں، میں اس میں سے ایک ران پسند کرتا ہوں اور پھر قصائی نے اپنے پائوں کی انگلیوں میں چھری پھنسائی ہوتی ہے اور وہ میری ہدایت کے مطابق اس کی بوٹی بوٹی الگ کر دیتا ہے اور پھر میں اس معصوم جانور کا یہ لخت لخت گوشت تیز آگ پر پکاتا ہوں اور کھا جاتا ہوں۔میں اسی نظریۂ ضرورت کے تحت کچھ جانوروں کی نشوونماکرتا ہوں اور کئی ایک کو تلف بھی کرتا ہوں۔ درخت لگانے کی مہم بھی چلاتا ہوں اور پھر انہیں کاٹ کر ان سے اپنے دفتر کا فرنیچر وغیرہ بھی تیار کراتا ہوں۔
میں اوپر بیان کئے گئے اپنے اعمال میں سے کوئی عمل بھی پسند نہیں کرتا لیکن کیا کروں نظریۂ ضرورت کے تحت یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے! تاہم یہ نظریۂ ضرورت وہ ہے جو انسانی زندگی کے لیے واقعی ضروری ہے۔ ہم انسانوں کو، خواہ ہم کتنے ہی رحمدل کیوں نہ ہوں، ان بے رحمانہ افعال کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے جو اس کرۂ ارض پر انسان کی بقا کے لیے ضروری ہیں بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اس کرۂ ارض پر آباد مخلوق ایک سطح پر اگر مظلوم ہے تو دوسری سطح پر وہ ظالم بھی ہے، چنانچہ سانپ چوہے کی تلاش میں رہتا ہےآپ خوبصورت رنگ برنگے پرندوں کو دیکھیں جو پوری بے رحمی سے زمین میں چونچیں مار کر کیڑے مکوڑے چٹ کر رہے ہوتے ہیں، شاید اسی لیے شاعر نے کہا تھا،
ایک معصوم سا پرندہ بھی
اپنی جاگیر میں شکاری ہے
سو یہ جو ایک دوسرے کو شکار کرتے ہیں، یہ ان کی زندگی کے لیے ضروری ہے اور یوں نظریۂ ضرورت یہاں لاگو ہو سکتا ہے لیکن جو نظریۂ ضرورت مجھے سمجھ نہیں آتا وہ غاصبوں کو سہارا دینے والا نظریۂ ضرورت ہے۔ اگر ایک شخص کے پاس کوئی نوکری نہ ہو اور اسے اپنا پیٹ پالنا مشکل ہو رہا ہو اور ان حالات میں وہ شب خون مار کر کسی کی نوکری ختم کرکے خود اس پہ براجمان ہو جائے تو اخلاقی تقاضوں کو کھینچا تانی کرکے اس کا جواز تلاش کرنے کی تقریباً ناممکن ہی سہی مگر کوشش کی جا سکتی ہے لیکن جو آمر، جو غاصب، جو سرمایہ دار، جو جاگیر دار اور اس قماش کے دوسرے لوگ ہیں، وہ جب اپنے اختیارات اور اپنی مراعات اور مفادات کی توسیع اور استحکام کے لیے قوموں کو بحرانوں میں مبتلا کرتے ہیں تو ان کا یہ نظریۂ ضرورت سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا پوری قوم اس نکتے پر متفق نہیں ہو سکتی کہ ایسے لوگوں کو مہذب معاشرے کی حدود سے اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے؟ یہ قوم کی ضرورت ہے اور میرے خیال میں اس ضرورت کو نظریۂ ضرورت قرار دے کر اس پر عمل شروع کر دینا چاہئے۔