یہ ہیں ہمارے لیڈر صاحب!

آپ کے متعلق سنا تھا کہ آپ کو مشیر لیا جا رہا ہے۔

کس سے سنا تھا؟

آپ ہی سے سنا تھا۔

ہاں ! لیکن میں نے عین وقت پر انکار کردیا تھا۔

کیوں؟

مجھے اسلام آباد پسند نہیں، وہاں ٹرانسپورٹ کا بہت پرابلم ہے۔ اسلام آباد سے پنڈی جانا پڑ جائے تو آدھی عمر اسی میں بیت جاتی ہے۔

لیکن اگر آپ مشیر ہوجاتے تو آپ کے آگے پیچھے کاریں ہوتیں۔

اس پر میرے ضمیر نے مجھے ملامت کرنا تھی کہ میرے عوام تو ویگنوں میں دھکے کھائیں اور میں کار میں گھومتا پھروں۔

یہ تو کوئی ایسی بات نہیں ۔ آپ اگر چاہتے تو انہیں روزانہ اپنی کار میں لفٹ دے کر باری باری پنڈی پہنچا کر آتے۔ اس سے عوام میں مقبولیت بھی بڑھ جاتی۔ ضمیر پربوجھ بھی نہ ہوتا۔ وقت بھی اچھا کٹ جاتا اور کچھ ٹی اے ڈی اے بھی بن جاتا۔

لیکن اس صورت میں میرے عوام استقبالیوں میں میری شرکت سے محروم رہ جاتے۔

آپ ان سے کہہ سکتے تھے کہ استقبالیوں پر رقم خرچ کرنے کے بجائے یہ رقم آپ کو نقد ادا کردی جائے گی تاکہ آپ عوام کی فلاح و بہبود کے کام میں لاسکیں۔

یہ بھی درست ہے لیکن اب کیا ہو سکتا ہے۔ اب تو میں انکار کر چکا ہوں۔

میرے پاس اس کابھی حل ہے۔

وہ کیا؟

ابھی صوبائی حکومتیں بننا ہیں۔ آپ اپنے صوبے میں مشیر کی مسند پر فائز ہو جائیں۔

نہیں۔

کیوں؟

میں صوبائیت میں یقین نہیں رکھتا۔

بہت اچھے۔ میں آپ کے اس جذبے کی قدر کرتا ہوں۔ ویسے مرکز میں تو آپ یقین رکھتے ہیں نا؟

میں تو یقین ہی مرکز میں رکھتا ہوں۔ اس لئے تو صوبائی مشیر بننا نہیں چاہتا۔

لیکن بالفرض محال اگر عوام نے آپ کو مجبور کیا کہ آپ انہیں ان کے صوبے میں اپنی عظیم قیادت میں چلنے کا موقع عطا کریں تو آپ کیا کریں گے؟

میں عوام کی خاطر یہ قربانی بھی دینے کے لئے تیار ہو جائوں گا بلکہ میں نے ایک دفعہ یونین کمیٹی کی سطح پر عوام کی خدمت کے لئے انتخاب لڑا تھا لیکن عوام نے خدمت کا موقع ہی نہیں دیا۔

دراصل لوگوں کو کھرے اور کھوٹے میں پہچان ہی نہیں ہے۔

بالکل بالکل میں نے محض یہی آزمانے کیلئے ابھی کل ہی اپنے محلے کے نکڑ پر واقع پان سگریٹ کی دکان پر ایک جعلی نوٹ چلایا ہے، حرام ہے کہ دکان دار کو کچھ پتہ چلا ہو۔

محض بصارت پر اعتماد کرنے والے کھوٹے کھرے میں کس طرح پہچان کرسکتے ہیں۔ آپ نے تو ماشااللہ اپنی لیڈرانہ بصیرت سے کتنے ہی لوگوں کی بصارت پر پردہ ڈالا ہوا ہے۔

چھوڑو اس تذکرے کو تم صوبائی عہدے کی بات کر رہے تھے۔

بس میری درخواست یہی ہے کہ آپ ملک و قوم کے بہترین مفاد میں عوام کی یہ درخواست رد نہ فرمائیں اور اگر آپ مشیر ہو جائیں تو پھر اس خاکسار کی کوئی درخواست رد نہ فرمائیں۔

ظاہر ہے بھئی، ایسا ہی ہوگا لیکن اب اس سلسلے میں عملی طور پر کوئی پیش قدمی بھی تو ہو اس کی کوئی صورت تو ڈھونڈی جائے۔

اس کی ایک مؤثر صورت تو یہ ہے کہ حکومت سازی قریب ہو تو اپنے اثر و رسوخ سے اخباروں میں یہ خبر شائع کرائی جائے کہ صوبے میں آپ کو اعلیٰ عہدہ ملنے کے چانسز بہت ہیں ۔ ایسی خبروں سے کچھ اور بنے نہ بنے، امیج ضرور بنتا ہے۔ کبھی کبھار تو آدمی سچ مچ کچھ نہ کچھ بن بھی جاتا ہے۔

بہت خوب! موقع آنے پر یہ کام تمہارے ذمہ ہوگا۔

میں حاضر ہوں بس آپ کے اشارے کی دیر ہے۔

ارے بھائی ، کہاں جا رہے ہو، ذرا سنو تو!

جناب؟

میں تمہارے مشورے کے مطابق عوام کی خدمت پر تیار ہو گیا ہوں۔ اگر مرکزی اسامیوں میں سے کسی اسامی کے لئے بلاوا آگیا تو میں اس کے لئے بھی راضی ہو جائوں گا۔ اب ایک اور مشورہ دیتے جائو۔ اگر مرکز یا صوبے کی کابینہ میں مجھے شرکت کی دعوت نہ ملی تو پھر عوام کی خدمت کے لئے اپنے محلے اسلام پورہ کی اصلاحی کمیٹی کا ممبر بن جائوں؟