یہ محاورے نہیں آئینے ہیں

محاورے کسی قوم کی اجتماعی دانش کی داستان اور تجربات کا نچوڑ ہوتے ہیں اور ’’تجربہ‘‘ کس خونی بلا کا نام ہے؟ اسے صحیح طور پر سمجھنے کیلئے ساحر لدھیانوی کا یہ شعر سمجھنا ضروری ہے؎

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

جو کچھ مجھے دیا تھا وہ لوٹا رہا ہوں میں

سیاست دانوں، شاعروں، واعظوں کو چھوڑو، محاوروں میں خود کو تلاش کرو تو اپنا اصل، اپنی شناخت وہیں ملے گی۔ میں چند محاورے مع تبصرے کے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں جن پر غور کرنے کا فائدہ ہو نہ ہو، نقصان بہرحال نہ ہو گا۔

’’لوٹ کے بدھو گھر کو آئے‘‘

حالانکہ لوٹ کے گھر جانے میں ہی بہتری اور بھلائی ہے ورنہ بیوروکریٹ شاعر مصطفیٰ زیدی کو یہ کبھی نہ کہنا پڑتا۔

تتلیاں اڑتی ہیں اور ان کو پکڑنے والے

سعئی ناکام میں اپنوں سے بچھڑ جاتے ہیں

اور یاد رہے ’’افراد‘‘ ہی نہیں کبھی کبھی ’’اقوام‘‘ بھی تتلیاں پکڑنے کے شوق میں اپنوں سے بچھڑ جاتی ہیں۔ انہیں وصال صنم تو کیا ملتا، اپنے خدا سے بھی بچھڑ جاتی ہیں یعنی وہ ڈبو جو گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا۔ یہ وہ کوے ہیں جو ہنس کی چال چلتے چلتے اپنی چال بھی بھول جاتے ہیں ۔آدھے تیتر رہتے ہیں نہ آدھے بٹیر بلکہ ’’ممولے‘‘ بن کر رہ جاتے ہیں اور ممولے شہبازوں سے صرف شاعری کے مجموعوں میں ہی لڑتے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ قدرت نے ممولوں کو شہبازوں کی خوراک کے طور پر ڈیزائن کیا ہے، ان سے نبردآزمائی کیلئے ہرگز نہیں باقی سب مبالغہ اور جذباتی استحصال ہے۔

’’ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا‘‘ بھی خاصا احمقانہ محاورہ ہے کیونکہ جو ’’زندہ قومیں‘‘ غیروں کے اشاروں پر ناچتی ہیں سو فیصد درست ناچتی ہیں اور اس سے قطعاً کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آنگن ٹیڑھا ہے یا سیدھا، ہموار ہے یا اونچا نیچا، غلیظ ہے یا صاف ستھرا، گرم ہے یا ٹھنڈا، اس پر قالین بچھے ہیں یا کانٹے، ہماری پنجابی فلموں میں بھی یہ سین کبھی بہت مقبول رہا جس میں ’’چودھری ‘‘ بلکہ ’’ولن‘‘ عفت مآب ہیروئن سے کوڑا لہراتے ہوئے کہتا ہے ’’نچ نی‘‘ اور اس وفا کی پتلی کو ناچنا پڑتا ہے اور ’’نچ کے یار منانا‘‘ تو ہمارا کلاسیکل فلسفہ ہے جو جب کبھی ’’خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیر ی رضا کیا ہے ‘‘جیسے فلسفے سے ٹکراتا ہے تو ایک زبردست دھماکے کے بعد دھول اڑتی ہے یا گہری دھند کا راج شروع ہو جاتا ہے۔میری بات سمجھ نہ آئے تو اپنے ذاتی وزیر خزانہ سے پوچھ لیں کہ ’’آنگن‘‘ جیسا بھی ہو، ’’آئی ایم ایف ‘‘ کی جنبش ابرو پر ’’نادھن دھنانادھن دھنا‘‘ کرنا پڑتا ہے یا نہیں ؟ والز کہیں یا رمبا سمبا، ٹویسٹ کہیں یا دھمال سب صحیح صحیح دکھا کر اسے محظوظ کرنا پڑتا ہے اور ستم بالائے ستم …ظالم ’’ویلیں‘‘ بھی نہیں دیتے کیونکہ بدتمیز مجرے کے آداب سے بھی واقف نہیں۔ ہائے ہمارا شوکت ترین جسے ہارویسٹر کے بغیر اسحاق ڈاروں کی کاشت کی ہوئی فصلیں کاٹنی پڑ رہی ہیں اور وہ بھی درانتی سے!

اب چلتے ہیں اسلاف کی طرف سے ملے اس ورثہ نما گھٹیا ترین محاورے کی طرف کہ ’’جس کے گھر دانے اس کے کملے بھی سیانے‘‘ تو یہاں آپ چاہیں تو ’’دانوں‘‘ کو ’’ووٹوں‘‘ کا جڑواں بھائی بھی سمجھ سکتے ہیں یعنی جس کا نوٹ، اس کا ووٹ اور یہی اس ووٹ کی اصل عزت اور اوقات ہے۔اسی لئے کہنے والے کہتے ہیں ’’ووٹ کو عزت دو، عقل دو نہ دو، شعور دو نہ دو، ہوش دو نہ دو، غیرت دو نہ دو،عزت دو‘‘ جسے خریدنے کیلئے گھر میں اور بیرون ملک ’’دانے‘‘ بہت کافی ہیں۔ وہ ایک گانا ہے، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کا جس میں ہیروئن کہتی ہے ’’انہی لوگوں نے چھینا دوپٹہ میرا‘‘ مطلب ووٹ کو عزت یعنی دوپٹہ دو، پھر ہم جانیں اور یہ دو ٹکے کا دوپٹہ !!!لیکن بے عقلی اور بے غیرتی کا اپنا ہی مزہ ہے۔

اک اور ذلیل سا محاورہ یاد آیا ’’قاضی کی لونڈی مری سارا شہر آیا، قاضی خود مر گیا کوئی بھی نہ آیا‘‘ ۔مقامی محاورے ہیں ’’آئینی ترمیم‘‘ کچھ یوں کی گئی کہ ’’پٹواری کی بکری یا کتیا مری تو سارا گائوں آیا، پٹواری مرا تو کوئی بھی نہ آیا ‘‘ یہ ہے ہمارا اصل کلچر جس میں مجھ جیسے احمق نے یہ گردان شروع کی کہ ’’ہمارا مسئلہ اقتصادیات نہیں اخلاقیات کی تباہی ہے‘‘ اور اب ہر للو پنجو ڈھیٹوں کی طرح اسے ذاتی دریافت قرار دے رہا ہے حالانکہ انہیں اس سنگل لائنر کی الف بے بھی معلوم نہیں لیکن زندہ قوموں میں مال ہی نہیں خیال کی خیانت بھی عام بلکہ مقبول عام ہوتی ہے۔

اک اور محاورہ ہے جو قارئین نے ذرا کم کم سنا ہو گا’’ایک وقت جوگی، دو وقت بھوگی، تین وقت روگی، اس سے زیادہ سوگی‘‘ تو ذرا غور فرمائیں کہ اس معاشرہ میں اکثریت جبری جوگیوں کی ہے، باقی سب بھوگی، روگی اور سوگی ہیں۔ جو ’’افورڈ‘‘ کر سکتے ہیں انہیں رنگ برنگے کھابوں، ڈھابوں اور نام نہاد پوش ریستورانوں سے ہی فرصت نہیں اور باقی سب کا فیورٹ محاورہ ہے ’’روکھی سوکھی کھا ٹھنڈا پانی پی‘‘ حالانکہ اب تو عام پانی میں بھی ’’آرسینک‘‘ کی فراوانی ہے۔ یاد رہے کہ سینٹ ہلینا جیسے جزیرہ میں نپولین بوناپارٹ کو ’’آرسینک‘‘ سے ہی سلو پوائزن کہا گیا تھا جبکہ نپولین نہیں، میرا مسئلہ تو وہ ’’ہجوم‘‘ ہے جس کے بارے اقبال نے کہا تھا کہ ’’برسوں میں نمازی بن نہ سکا‘‘ میرا دعویٰ ہے کہ اس پاکستان میں اگر صرف نماز پنجگانہ ادا کرنے والے ہی چند مشکل فیصلے کرلیں تو چند سالوں میں سارے قرضے ادا ہوسکتے ہیں لیکن نہیں صرف نماز کی ادائیگی ہی کافی ہے۔

اور صدقے جائوں اس محاورے کے کہ اگر ’’سب کتے کا نشی گئے تو ہنڈیا کس نے چاٹی؟‘‘ پاکستان کی اقتصادی ہنڈیا کھائی چاٹی ہی نہیں گئی، اس کا پیندا بھی کھایا جا چکا ہے لیکن سب ہی ’’دیانتدار‘‘ ہیں ، کرپشن ثابت ہی نہیں ہو رہی تو پھر یہ کام میں نے اور میرے قارئین نے کیا ہو گا تو ہمیں پھانسیاں دے دو ورنہ آئندہ نسلیں ہماری قبروں پر تھوکیں گی کہ ’’مقتول کی لاش تو چوراہے میں پڑی گل سڑ رہی تھی لیکن ہمارے بڑے ’’قاتل‘‘ کبھی نہ ڈھونڈ سکے۔

اس ننگی چٹی تضادات سے بھرپور بے حیائی پر رونا آتا ہے لیکن میں بے حس ہوں’’ٹرانسپیرنسی‘‘ کی رپورٹ پر ہنس کے آگے نکل جاتا ہوں کیونکہ میں قلم کار نہیں کامیڈین ابن کامیڈین ابن کامیڈین ہوں، اوریجنل سوچ میرے نصیب میں ہی نہیں۔

اور یہ بھی بہت ہی پرانا محاورہ ہے، میرے پرکھوں سے بھی پرانا محاورہ

’’باڑ لگائی کھیت کو باڑ کھیت کو کھائے

راجہ ہو اور چوری کرے تو نیائو کون چکائے‘‘

محاورہ ہے ’’قبر پہ قبر نہیں بنتی ‘‘ یعنی قرض پہ قرضہ ممکن نہیں لیکن یہاں ؟؟؟

قارئین ! آپ کی قسم یہ محاورہ بھی کتابوں میں محفوظ ہے ’’ حجرا بھی اور مجرا بھی ‘‘ اور ہمیں تو آج تک یہی سمجھ نہیں آرہی کہ ہمیں کس کس سیٹ اپ اور گیٹ اپ نے کیسے کیسے ذلیل و رسوا کیا۔ ہم تو وہ بدنصیب ہیں جن کے ’’فکری رہنمائوں‘‘ نے ’’مسدسِ حالی ‘‘ کیا بیچتی ہے کہ یہاں تو

’’خودبدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں‘‘