کل کا سقراط، بمقابلہ آج کے سقراط!

میں نے کچھ عرصہ قبل سقراط کے بارے میں ایک مضمون پڑھا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ سقراط کے زمانے میں اسے بھی ایک سو فسطائی فلسفی سمجھا جاتا تھا سو فسطائی فلسفیوں کا ایک ایسا گروہ تھا جو بحث کرنے میں یدطولیٰ رکھتا تھا وہ اس بات پر بھی بحث کرنے کو تیار تھے کہ سورج رات کو اور چاند دن کو نکلتا ہے ان کا حلقہ اثر کافی وسیع تھا اور بے شمار نوجوان ان کے شاگرد ہونے کے خواہش مند تھے سو فسطائی منطق کیا تھی اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ ایک سو فسطائی ایک دکان سے کپڑا خریدنے گیا اس نے دکاندار سے پوچھا سرخ رنگ کے کپڑے کا کیا بھائو ہے؟ دکاندار نے کہا دو روپے گز سو فسطائی نے کہا تین گز کاٹ دو، پھر پوچھا نیلا کپڑا کیا بھائو ہے دکاندار نے کہایہ بھی دو روپے گز ہے۔سو فسطائی نے کہا،یہ بھی تین گز کاٹ دو، دکاندار نے ایسا ہی کیا سو فسطائی نے کہا سرخ کپڑا تم رکھ لو اور اس کے بدلے نیلا کپڑا مجھے دے دو دکاندار نے مان گیا چنانچہ اس نے کپڑے تبدیل کر دیئے سو فسطائی فلسفی نیلا کپڑا بغل میں دبا کر بغیر ادائیگی کئے جانے لگا تو دکاندار نے کہا جناب اس کے پیسے ؟سو فسطائی نے کہا کس کے پیسے؟ دکاندار بولا نیلے کپڑے کے، سو فسطائی نے کہا وہ تو میں نے سرخ کپڑے کے بدلے میں لیا ہے۔دکاندار بولا، تو پھر سرخ کپڑے ہی کے پیسے دے دیں، سو فسطائی بولا وہ تو میں نے لیا ہی نہیں۔

یہ واقعہ پڑھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ سو فسطائی حضرات فلسفی تھے یا اچکے؟ بادی النظر میں تو اچکے ہی لگتے ہیں اور ذہن میں ان کا تصور کچھ اس طرح کا ابھرتا ہے کہ وہ دن کے اوقات میں ایک لمبا چوغا پہنے ایک دکان سے دوسری دکان میں داخل ہوتے ہوں گے اور اپنی منطق کے طفیل کہیں سے کپڑا لتا، کہیں سے پھل فروٹ اور کہیں سے سبزی گوشت وغیرہ ہتھیا کر شام کو کامیاب و کامران اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہوں گے اس امر کا امکان بھی موجود ہے کہ رقم کو ’’علم‘‘ پر ترجیح دینے والا کوئی دنیا دار دکاندار ان میں سے کسی دانشور کے کھنے بھی سینک دیتا ہو، تاہم ایسے معاملات میں ایسا تو ہوتا ہی ہے بلھے ؒشاہ ’’علموں بس کریں او یار‘‘یوں ہی تو نہیں کہہ دیاتھا۔ اسی مضمون میں سقراط کے بارے میں ایک مفروضے کو غلط بھی قرار دیا گیا ہے، دراصل سقراط کے متعلق یہ سوال عام طور پر اٹھایا جاتا ہے کہ وہ کیا تھا ؟ مفروضہ یہی ہے کہ وہ کچھ نہیں کرتا تھا بس دن کا بیشتر حصہ ایتھنز کے تجارتی علاقے میں لوگوں سے بحث کرنے میں گزار دیتا تھا گھر اس کی بدتمیز بیوی ہی کسی نہ کسی طرح چلاتی تھی لیکن یہ خیال غلط ہے کیونکہ جب اسے عدالت میں پیش کیا گیا اس پر ایک یہ الزام توضرور تھا کہ وہ شاگردوں سے علم کی قیمت وصول کرتا ہے مگر اس پر یہ الزام نہیں لگایا گیا کہ وہ اپنے گھر اور بیوی بچوں سے بے اعتنائی برتتا ہے خود میرا خیال بھی یہی ہے کہ یہ الزام غلط ہے کیونکہ سقراط کے متعلق بتایا گیا ہے کہ اسے اس کے زمانے میں سو فسطائی فلسفی ہی سمجھا جاتا تھا اور یہ اگرسچ ہے تو پھر متذکرہ الزام خودبخود غلط ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ وہ سب کچھ ہو سکتا ہے مگر کسی سو فسطائی دانشور کے بال بچے بھوکے نہیں مرسکتے۔

متذکرہ مضمون میں نطشے کے حوالے سے ایک بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ سقراط زندگی سے بیزار تھا اور اسی باعث فرار کے تمام مواقع موجود ہونے کے باوجود اس نے نہ صرف زہر کا پیالہ پیا بلکہ زہر پینے کے لئے بیتائی بھی دکھائی حالانکہ وہ کچھ اور لمحے بھی زندہ رہ سکتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ انتہائی بدصورت تھا اور اس کی بیوی اسے ہر وقت لعن طعن کرتی رہتی تھی تاہم یہ سب باتیں یعنی یہ کہ سقراط سو فسطائی (بول بچن کا بادشاہ) تھا اپنے گھر سے بے اعتنائی برتتا تھا اور فراریت پسند تھا واضح طور پر تحقیق طلب ہیں چنانچہ میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ آیا یہ باتیں درست ہیں یا نہیں، البتہ پورے انشراح صدر کے ساتھ یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ یہ باتیں سقراط کے بارے میں نہیں تو آج کے ’’سقراطوں‘‘ کے بارے میں بہرحال درست ہیں۔

آخر میں میری ایک غزل:

میں کڑی رات کی کمان میں ہوں

ایک دنیائے بے امان میں ہوں

لوگ اپنے ہی عشق میں پاگل

میں مریضوں کے درمیان میں ہوں

کوئی کیسے مجھے پڑھے، سمجھے

میں کسی اور ہی زبان میں ہوں

اپنا کردار تو نبھانا ہے

میں محبت کی داستان میں ہوں

اور اسی میں اماں ملی ہے مجھے

میں ترے حسن بے امان میں ہوں

کیسے بے دخل کر سکو گے مجھے

میں تو کب سے اسی مکان میں ہوں

کٹ گیا ہوں زمین والوں سے

جب سے میں تیرے آسمان میں ہوں

اپنے ہونے کا کب یقیں ہے مجھے

اپنے ہونے کے میں گمان میں ہوں

میں کہاں ڈھونڈتا پھروں گا تجھے

میں تو گم سم ترے جہان میں ہوں

میں کہ ہوں خوش گمانیوں کا اسیر

اور خود چشم بدگمان میں ہوں

دھوپ میں بھی مجھے ملے راحت

اس کی رحمت کے سائبان میں ہوں

جس کے ہاتھوں میں کچھ نہیں ہے عطاء

وہ سمجھتا ہے کن فکان میں ہوں