مردانہ قیادت کا انتظار!

اصلی اور نقلی میں فرق کرنا بہت مشکل کام ہے چنانچہ اصلی اور نقلی جمہوریت میں جو نازک سا فرق ہے وہ بھی وہی ہے جو اصلی اور نقلی عورت میں ہوتا ہے۔ آپ نے کبھی کوئی ہیجڑا دیکھا ہے جو بیوٹی پارلر سے بن سنور کر نکلتا ہے اور کاروں کی چیختی چنگاڑتی بریکیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ ہونٹوں پر لپ اسٹک، آنکھوں میں کاجل، کانوں میں بُندے، ہاتھوں میں چوڑیاں، لچکتی بل کھاتی کمریا اور جسمانی نشیب و فراز کا معقول بندوبست! اصلی اور نقلی کا یہ نازک سا فرق اُس وقت سامنے آتا ہے جب وہ بولنے کی غلطی کرتا ہے یا جب اُس کی حرکات و سکنات بولنے لگتی ہیں۔ اِسی طرح نقلی جمہوریت کو پہچاننا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ اُس کے سارے لوازم بظاہر اصلی جمہوریت والے ہی ہوتے ہیں صدر، وزیراعظم، سپریم کورٹ، انتخابات، اسمبلیاں حتیٰ کہ اُس میں وزیرِ قانون بھی ہوتا ہے مگر یہ جمہوریت بھی جب بولتی ہے تو پہچانی جاتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں سڑک پر ایک بنی سنوری نقلی عورت کو دیکھ کر ایک غیر ملکی نے اُس کی طرف اشارہ کر کے اپنے پاکستانی دوست سے پوچھا تھا Prostitute (طوائف)؟ دوست نے جواب دیا No, Substitute (نہیں، اُس کا متبادل) جبکہ نقلی جمہوریت کسی کا متبادل نہیں ہوتی، یہ صرف انہی کے کام آتی ہے جن کے متعلق اقبال نے، اُنہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد، والا مصرعہ کہا ہے!

نقلی جمہوریت میں ہر کام عوام اور پاکستان کے مفاد میں کیا جاتا ہے، اُس میں امریکہ یا مقامی حکمرانوں کا کوئی بھلا نہیں ہوتا، نقلی جمہوریت اتفاقِ رائے کے بھی بہت خلاف ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ نہیں چاہتی کہ قوم اتفاقِ رائے سے اپنا حکمران منتخب کریں کیونکہ نقلی جمہوریت چلانے والے جانتے ہیں کہ اتفاق کتنی بری چیز ہے بلکہ اس کا تجربہ تو آپ کو بھی ہوا ہوگا مثلاً آپ سڑک پر خراماں خراماں چلے جا رہے ہیں کہ ’’اتفاق‘‘ سے رستے میں آپ کو کھلا گٹر ملتا ہے، جس میں آپ گر جاتے ہیں یا آپ گاڑی چلا رہے ہیں اور ’’اتفاق‘‘ سے کوئی ٹرک آپ کے ساتھ آ ٹکراتا ہے، اُنہی وجوہ کی بنا پر نقلی جمہوریت والے عوام کو اتفاق کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے۔ پس ثابت ہوا کہ بعض صورتوں میں نقلی جمہوریت اصلی جمہوریت سے بہتر بھی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تیسری دنیا کے ملکوں کے حکمران اپنے عوام کو نقلی جمہوریت جسے وہ حقیقی جمہوریت کا نام دیتے ہیں، کی برکات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کوڑھ مغز عوام کے پلے یہ بات نہیں پڑتی۔ چنانچہ اُنہیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ اُن کی یہ پیشکش رد کردیتے ہیں۔

اصلی اور نقلی جمہوریت کی طرح اصلی اور نقلی اپوزیشن بھی ہوتی ہے۔ اصلی اپوزیشن وہ ہوتی ہے جو حکمرانوں کو پسند نہیں ہوتی، وہ عموماً اُسے ملک دشمن کا نام دیتے ہیں اور نقلی اپوزیشن وہ ہوتی ہے جو حکمرانوں کو نہیں کھٹکتی بلکہ وہ اُسے صحت مند اپوزیشن قرار دیتے ہیں اس وقت پاکستان میں سلیم احمد مرحوم نے تو کھوٹے اور کھرے کا یہ احوال ایک ایسے مقام پر کھولا تھا، جس کی نشاندہی میں نہیں کر سکتا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اِس احوال کا تعلق بہرحال مردانگی ہی سے ہے چنانچہ لوگوں کو نہ بیچ کی جمہوریت قبول ہے اور نہ بے اثر اپوزیشن ۔مجھے لگتا ہے کہ اب قوم صرف ’’مردانہ‘‘ قیادت کی خواہشمند ہے!

اور اب آخر میں میری ایک غزل :

وہ حقیقت میں بھی گماں میں بھی

میرے ظاہر میں بھی نہاں میں بھی

حسن اس کا بیان سے باہر

اور لکنت میری زباں میں بھی

اس کے قدموں یہ اس کی بانہوں میں

میں زمیں پہ بھی آسماں میں بھی

شاد رہتا ہوں اس کے دیکھے سے

میں قفس میں بھی آشیاں میں بھی

چشم حیراں نہ دیکھ پائی اسے

بے حجابی کے درمیاں میں بھی

جس نے ملنا تھا اس جہاں میں مجھے

وہ ملا مجھ کو اس جہاں میں بھی

سرخرو عشق ہی کرے گا مجھے

زندگی تیرے امتحاں میں بھی

وہ کسی اور داستاں سے ہے

اور وہ میری داستاں میں بھی

عمر رفتہ بھی لوٹ آتی ہے

کوئی ویسا تو ہو جہاں میں بھی

مجھ کو معلوم ہی نہیں تھا عطاؔ

کوئی رہتا ہے جسم و جاں میں بھی