ہم زندہ قوم ہیں؟

خلیجی ملکوں میں دوستوں کے ساتھ ایک ہفتہ گزار کر واپس آیا ہوں۔ خیال تھا کہ آپ کو اس سفر کی روئداد سنائوں گا مگر وہاں کسی ہوٹل میں پاکستان کا نیوز چینل نہیں تھا۔بس دوستوں سے سیلاب کے حوالے سے ہلکی پھلکی اطلاعات ہی ملتی رہیں مگر کل لاہور واپسی پر تمام چینلز سے جو تباہی اور بربادی کے مناظر دیکھنے کو ملے ہر منظر دل کی ویرانی میں اضافہ کرنے والا تھا۔ لٹنے والے ،برباد ہونے والے، پانی کی لہروں میں بہہ جانے والے، اس سے پہلے کون سی زندگی کی پیش تر نعمتوں سے مستفید ہو رہے تھے، روکھی سوکھی کھاتے تھے، کچے مکانوںمیں رہتے تھے پھر بھی خدا کا شکر ادا کرتے تھے ۔محلات حویلیوں اور بڑے بڑے فارم ہائوسز میں چھٹی کے لمحات کو مزید پرلطف بنانے والے آج بھی ویسی ہی زندگی گزار رہے ہیں۔ خدا کے لئے یہ نہ کہئے کہ یہ عذاب ہمارے گناہوں کی وجہ سے آیا ہے۔ کیا سارے گناہ غریبوں نے ہی کئے تھے جن کے لئے یہ عذاب تجویز کیا گیا ۔مغربی ممالک میں اس سے بھی کہیں خوفناک سیلاب اور آسمانی آفتیں آتی ہیں مگر زندگی اس طرح روا ںدواں رہتی ہے۔ ہمارے ہاں تباہی خدا کے عذابوں کی وجہ سے نہیں آتی بلکہ مس مینجمنٹ کی وجہ سے آتی ہے۔ موجودہ سیلاب کی زد میں وہ ہوٹل اور بنگلے بھی آئے جو دریائوں کی حدود میں کروڑوں روپے دے کر بنائے گئے تھے۔ اس سلسلے کواگر آغاز ہی میں روک دیا جاتا اور ان مقامات پر عمارات بنانے کی اجازت دینے والوں، رشوت دینے اور رشوت لینے والوں کو قانون کے شکنجے میں کسا جاتا تو مال حرام کمانے والوں کے اثاثے بھی محفوظ رہ جاتے کیوں کہ سیلابی ریلے تو صرف تباہی مچا سکتے ہیں، انصاف قائم نہیں کر سکتے ۔

اس ساری المیہ صورتحال میں ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ اربوں کھربوںروپے کمانے والوں نے سیلاب زدگان کے لئے اتنے فنڈز بھی نہیں دیئے جو وہ حکومت سے آنے بہانے ہر سال کروڑوں روپے کی سبسڈی لے جاتے ہیں ۔انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے ذخیرہ اندوزی کرکے ایک روپے کی چیز سو روپے میں فروخت کرتے ہیں اپنی مصنوعات کے منہ بولے دام وصول کرتے ہیں مگر تاجروں کے اس ظالم طبقے نے امدادی فنڈ میں جتنی رقم دی وہ ہاتھی کے منہ میں زیرے کے مترادف تھی ۔ایک نہایت شرمناک صورتحال یہ بھی ہے کہ جو سیاسی رہنما عوام سے بڑھ چڑھ کر امداد کی اپیلیں کر رہے ہیں ان میں سے کسی ایک کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا کہ انہوں نے خودمصیبت زدگان کیلئے کتنے کروڑ ، کتنے ارب روپے دینے کا اعلان کیا۔ سیلاب زدگان کے کیمپوں میں جاکر ان سے ’’سکی‘‘ ہمدردی جتانا اور تصویریں بنوانا بس یہی کچھ وہ کر سکتے تھے ۔یعنی سیاست دانوں اور رہنمائوں کے علاوہ ہماری آرمی کی طرف سے سیلاب زدگان کو سہولتیں فراہم کرنا اپنی جگہ قابل تحسین ہے مگر جنرل باجوہ کو چاہئے تھا کہ وہ اس موقع پر آرمی کی طرف سے اربوں روپوں کی امداد کا اعلان بھی کرتے مگر افسوس کسی طرف سے بھی کوئی زیادہ اچھی خبر نہیں آئی۔ اللّٰہ خیرکہ ایک نجی ٹیلی کام کمپنی نے ایک ارب روپے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے دیا ہے، اللّٰہ کرے یہ خبر سچ ہو اور باقی سب کمپنیاںبھی اسے ’’فرض کفایہ ‘‘ سمجھنے کی بجائے اپنا دل ذرا سا بڑا کریں۔ دل کا کیا بھروسہ ہے یہ کسی بھی وقت اپنی دھڑکن بند کر سکتا ہے اس سے پہلے لوگوں کے دلوں میں اپنے لئے نرمی پیدا کریں تو ان کیلئے اچھا ہے۔

یہ حاصل المناکی کا تاریک پہلو ہے تاہم مثبت پہلو یہ ہے کہ ہزاروں لاکھوں سفید پوش لوگ اور قدرے آسودہ خاندان اپنا بہت کچھ قربان کر رہے ہیں۔ یہ لوگ خطرناک ترین مقامات تک پہنچ کر اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ایک اور بات جو بہت خوش آئند ہے کہ اس بار ہماری دینی جماعتیں بھی اس کارِ خیر میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں، ان کے علاوہ ہماری معروف فلاحی تنظیمیں بھی اس موقع پر بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں مگر آفات نے امیدوں کے پورے پورے باغات جلا دیے ہیں، ہمارے کھیت دریا بن گئے ہیں اور ہمارے بیٹوں، بیٹیوں کی لاشیں ان میں تیر رہی ہیں۔ پانچ بھائی پانی کے عین درمیان میں ایک سوکھی جگہ پر کھڑے اس ہیلی کاپٹر کا انتظار کرتے رہے جس کی اپیل اوپر تک پہنچا دی گئی تھی مگر کس نے وہاں پہنچنا تھا؟ کسی نےبھی نہیں اور یہ پانچ بھائی بھی سیلاب کی خوراک بن گئے ۔

میرا یہ سوال پاکستان کے تمام سیاسی رہنمائوں، تمام ارب پتی اور کھرب پتی طبقوں سے ہے کہ کیا انہوں نے کسی سے یہ اشٹام لکھوا لیا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے محلات میں رہیں گے جس کے مطابق کسی میں یہ جرأت نہیں ہو گی کہ وہ انہیں بھی چھ فٹ لمبی قبر میں اتار سکیں جہاں تا قیامت ان کا قیام ہو گا؟