بے وفا لاہور نہیں ہم ہیں!

ایک ٹی وی چینل پر کچھ دانشور لاہور کی تاریخی حیثیت کے حوالے سے بہت معلومات افزا گفتگو کر رہے تھے، میں بھی عاشقانِ لاہور میں سے ہوں، چنانچہ بہت دلچسپی سے یہ پروگرام دیکھ رہا تھا، میرے ایک دیرینہ دوست جو بہت اچھے فکشن رائٹر اور سفرنامہ نگار ہیں۔ انہوں نے دورانِ گفتگو پچاس ساٹھ کے لاہور کا ذکر شروع کیا اور کہا کہ یہ بہت خوبصورت شہر تھا مگر اور نج ٹرین، میٹرو بس، انڈر پاسز اور فلائی اوورز وغیرہ نے شہر کی اصل پہچان گم کردی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ شہر کی پرانی شناخت بحال کرنے کے لیے یہ سب کچھ مسمار کردینا چاہیے۔ یہ سن کر مجھے ایک جھٹکا سا لگا۔ مجھےبھی وہ پرانا لاہور یاد آتا ہے جس میں، میں گھوما پھرا کرتا تھا، ما ل روڈ یاد آتی ہے، اس کے کیفے یا د آتے ہیں جہاں شام کو ادیبوں، دانشوروں اور صحافیوں کی محفل برپا ہوا کرتی تھیں۔ اب یہ سب کچھ نہیں ہے مگر شہر کے مختلف مقامات پر کیفے اب بھی قطار اندر قطار موجود ہیں، اگر وہاں ادیب، شاعر اور صحافی نہیں جاتے تو ان کی مرضی، مگر دنیا کے تمام شہر اپنی شکل تبدیل کرتے رہتےہیں۔ ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے خدو خال کچھ اور ہوتے ہیں، جو عمر کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں تاہم بنیادی شناخت باقی رہتی ہے۔ شہروں کی بنیادی شناخت اس کے گلی کوچے ہوتے ہیں۔ چنانچہ پرانا لاہور آج بھی تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ ویسے کا ویسا ہی ہے، جیسا میں ستر سال سے دیکھتا چلا آ رہا ہوں، وہی رونقیں، وہی کلچر، وہی ناشتے، وہی کھانے اور وہی درودیوار۔ اگر ہم نے لاہور کے تاریخی دروازوں کے باہر کا پرانا احوال سننا ہے تو مجھ سے سن لیں۔ میں ماڈل ٹائون سے ’’شہر‘‘ آنے کے لیے بس میں بیٹھتا تھا تو اچھرے تک کوئی آبادی نہیں تھی اور اس کے بعد مزنگ کےقریب ’’شہر‘‘ کے آثار شروع ہوتے تھے مگر اب یہ تمام روٹ بسوں، کاروں اور موٹر سائیکلوں سے اٹا ہوتا ہے۔ اب اس کو دوبارہ اس لاہور میں کیسے تبدیل کروں جو میرے ناسٹلجیا کا حصہ ہے اور جس کے ساتھ میں نے پون صدی سے زیادہ کا وقت ایک عاشق کے طور پر گزارا ہے؟ یہ تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں، یہ ایک تاریخی عمل ہے اور ہمیں اسے قبول کرنا چاہیے۔

اگر ہم اس سے بھی پیچھے چلے جائیں تو جہاں آج چوبرجی ہے وہاں کھیت ہوتے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل مال روڈ کے کچھ حصے میں چند دکانیں ہوتی تھیں، یہاں ٹانگے بھی چلا کرتے تھے۔اور یوں شہر کا یہ ’’چہرہ‘‘ بالکل اور طرح کا ہوتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی لوگ یہاں واک کرتے تھے، پودوں کے جھرمٹ ہوتے تھے۔، سب کچھ تبدیل ہوگیا، ابھی شہر نے اپنی کئی اور شکلیں بدلنا ہیں۔ کیا ہم ہر نئی شکل کو مسمار کرتے جائیں گے؟ ایسا نہیں ہوتا، ایک بات اور میں نے جس لاہور میں اپنی زندگی کے بہترین سال گزارے ہیں اس وقت شہر کی آبادی چند لاکھ تھی، آج دو اڑھائی کروڑ ہے، یہ آبادی بھی شہر کی پرانی شناخت کو ختم کر رہی ہے تو کیا اس شناخت کی بحالی کے لیے ’’فالتو‘‘ آبادی کو تہس نہس کر دینا چاہیے؟ ظاہر ہے ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا! اس بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب ٹریفک وغیرہ کے جو مسائل پیدا ہوئے اس کے لیے اورنج ٹرین، میٹروبس، انڈر پاسز اور فلائی اوورز وغیرہ تعمیر کئے گئے، اس سے جہاں ٹریفک کو کنٹرول کرنے میں کچھ مدد ملی وہاں غریب عوام کوبے پناہ سستی اور آرام دہ سفری سہولتیں بھی میسر ہوئیں، ہم اپنے ناسٹلجیا کو دیکھیں یا تصویر کے اس پہلو کو جو ترقی کے سفر کی نشاندہی کرتا ہے۔

مجھے بھی اپنے متذکرہ دوست کی طرح پرانے شہر سے بے پناہ پیار ہے، میں اپنے خوابوں میں ابھی تک اسی شہر میں گھومتا پھرتا ہوں، مجھے اب نئے رستے یاد نہیں رہتے، مگر آج کی نسل جب ہماری عمروں کو پہنچے گی تو یہ نیا شہر ہی ان کا پرانا شہر ہوگا اور وہ اسے مس کریں گے۔ میرے بہت عزیز دوست! ہم دونوں کا مشترکہ ’’دکھ‘‘ پرانا لاہور ہے، مگر ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم خودپرانے شہر کو خیر باد کہہ کر نئی بستیوں میں آباد ہوگئے ہیں۔ بے وفائی ہم نے کی ہے، پرانے لاہور نے نہیں۔

اور اب آخر میں بہت خوبصورت شاعر عباس تابش کی ایک غزل :

تُو چاہتا ہے کسی اور کو پتہ نہ لگے

میں تیرے ساتھ پھروں اور مجھے ہوا نہ لگے

تمہارے تک میں بہت دل دکھا کے پہنچا ہوں

دعا کرو کہ مجھے کوئی بددعا نہ لگے

تجھے تو چاہیے ہے اور ایسا چاہیے ہے

جو تجھ سے عشق کرے اور مبتلا نہ لگے

میں تیرے بعد کوئی تیرے جیسا ڈھونڈتا ہوں

جو بے وفائی کرے اور بے وفا نہ لگے

میں اس لیے بھی اداسی میں ہنسنے لگتا ہوں

کہ مجھ میں اور کسی شخص کی فضا نہ لگے

ہزار عشق کرو لیکن اتنا دھیان رہے

کہ تم کو پہلی محبت کی بددعا نہ لگے