ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے!

سابق صدر پاکستان رفیق تارڑ مرحوم، مغفور سے ملاقات اور ان سے گفتگو کا موقع جن احباب کو ملا ہے، اس کی لذت سے صرف وہی واقف ہو سکتے ہیں، وہ میرے ’’گرائیں‘‘ تھے اور صدر پاکستان کی حیثیت میں بھی جب دو ایک بار ان سے ملاقات ہوئی، ان کی بےتکلفی، خوش طبعی، شعر و ادب سے شناسائی اور پرتپاک رویے سے ان کے عہدے کا ’’خوف‘‘ محسوس نہیں ہوتا تھا۔ ان کی وضع قطع ہمارے بزرگوں جیسی تھی ۔ سر پہ ٹوپی، چہرے پر خوبصورت سفید داڑھی اور اچکن میں ملبوس مرحوم کو دیکھ کرمجھے ہمیشہ ایسے لگا جیسے میں اپنے خاندان کے کسی بزرگ سے مل رہا ہوں۔ رفیق تارڑ کی بذلہ سنجی کاایک واقعہ تو میں کبھی نہیں بھول سکتا جب مجھے صدارتی ایوارڈ ملا اور واقفانِ حال جانتے ہیں کہ ایوارڈ کی اس تقریب کے مہمانوں میں وزیر اعظم، آرمی چیف، سینیٹرز، وزراء اور غیر ملکی عمائدین بھی شامل ہوتے ہیں۔ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض کیبنٹ سیکرٹری انجام دیتے ہیں۔ انہوں نے ایوارڈ کیلئے میرا نام پکارا اور میں اپنی نشست سے اٹھ کر اسٹیج سے کچھ فاصلے پر جا کر کھڑا ہو گیا اس کے بعد کیبنٹ سیکرٹری نے میری ادبی خدمات گنوائیں اور پھر ایوارڈ وصول کرنے کا مرحلہ آیا تو میں اسٹیج پر پہنچا۔ میں ان دنوں بہت وسیع و عریض تن و توش کا حامل تھا اس ہائی پروفائل تقریب میں بھی صدرِ مملکت کی رگِ ظرافت پھڑکی اور مجھے ایوارڈ عطا کرتے ہوئے ان کی نظر میرے تن و توش پر پڑی تو سرگوشی کے انداز میں پوری سنجیدگی سے کہا ’’قاسمی صاحب اگلے برس ہم ان شاءاللہ آپ کو ریسلنگ میںایوارڈ دیں گے‘‘۔ میں نے اپنا قہقہہ تو باہر نہیں آنے دیا مگر اس موقع پر لی گئی تصویر میں ہنسی روکنے کا منظر پوری طرح دکھائی دے رہا ہے۔

رفیق تارڑ اپنی صدارتی مدت کی تکمیل کے بعد بہت ریلیکس نظر آتے تھے، فون پر اکثر ان سے گفتگو رہتی تھی۔ مرحوم عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی خطابت کے بہت بڑے مداح تھے انہیں شاہ صاحب کی تقریروں کے مختلف جملے ازبر تھے وہ فون پر سناتے اور میرا سینہ یہ سوچ کر فخر سے تن جاتا کہ شاہ صاحبؒ میرے دادا مفتی غلام مصطفیٰ قاسمی کے شاگردوں میں سے تھے۔ انہوں نے امرتسر میں درس حدیث میرے دادا سے کیا تھا۔ شاہ صاحب کے علاوہ تارڑ صاحب کو شورش کاشمیری کی شاعری کے بھی بہت سے حصے زبانی یاد تھے۔ وہ ان کے بیسیوں اشعار سنا ڈالتے، مرحوم ومغفور کی آواز میں بہت نکھار تھا۔ شورش کی شاعری کے کچھ حصے ایسے بھی ہیں جن کا سیاق و سباق سمجھنا بھی ضروری ہے چنانچہ وہ ان کی شاعری سنانے سے پہلے اس کا سیاق و سباق بھی بتاتے تاہم کلام کا یہ حصہ بہت کم ہے ان کی شاعری کا زیادہ حصہ قید دائمی نوعیت کا ہے اور زبان و بیان پر ان کی قدرت انسان کو حیران کر دیتی ہے مگر افسوس اس بلبلِ حریت کو ہمارے بعض دانشوروں نے وہ مقام نہیں دیا جو ان سے کم تر شاعروں کو بھی عطا کیا گیا۔

میں نے شورش کے حوالے سے تارڑ صاحب کو اپنی جوانی کی اک شرارت سنائی تو پہلے دل کھول کر ہنسے اور پھر کہا آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ واقعہ یوں تھا کہ ایک مرتبہ شورش اور کوثر نیازی میں ٹھن گئی بلکہ ایک موقع پر یہ دونوں سربازار گتھم گتھا بھی ہو گئے تھے۔ ان دنوں شورش مرحوم نے مولانا کوثر نیازی کی جو ہجویات لکھیں اور اردو شاعری میں ایسی ہجویات کم ہی ملتی ہیں جب کہ کوثر نیازی اس حوالے سے ان کے سامنے طفلِ مکتب کی حیثیت رکھتے تھے مگر وہ حسبِ توفیق ان ہجویات کا منظوم جواب دیتے۔ ان دنوں میں اور گلزاروفا چودھری ایم اے کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے اور گلزاروفا چودھری تیاری کیلئے دو تین ماہ میرے گھر ہی میں مقیم رہے تھے، ہم نے تیاری کہاں کرنا تھی بس ایک دوسرے پر جگتیں کرتے رہتے تھے مگر گھر والے ہمارے لئے دودھ میں بادام گھوٹ کر سردائی بناتے اور پلایا کرتے تاکہ ہمارا دماغ تیز ہو اور ہم امتحان میں شاندار کامیابی حاصل کر سکیں مگر امتحان کی تیاری ہم کہاں کرتے تھے ہم تو ہر وقت غیر نصابی سرگرمیوں میں مشغول رہتے تھے۔ ایک دن ہمیں شورش کے مقابلے میں کوثر نیازی کی بے بسی پر بڑا ترس آیا چنانچہ گلزار وفا چودھری نے ایک زبردست ہجو شورش کے خلاف اور میں نے مولانا کے خلاف قلندر علی مرزا کے فرضی نام سے لکھ کر ان بزرگوں کو ارسال کر دی۔ شورش کو تو کسی ’’غیر ملکی مدد‘‘ کی ضرورت ہی نہیں تھی وہ تو سینکڑوں اشعار ایک نشست میں کہہ ڈالتے تھے چنانچہ گلزار وفا چودھری کی ہجو تو ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی مگر نیازی صاحب نے میری نظم کوغیبی امداد سمجھا اور اپنے ہفت روزہ شہاب کے بیک ٹائٹل پر پورے صفحے پر شائع کر دی۔ رفیق تارڑ کو پہلے تو ہماری اسی شرارت پر بہت ہنسی آئی مگر پھر ڈانٹتے ہوئے کہا، یہ آپ کی جوانی کی لغزش تھی مگر آئندہ زندگی میں ازراہِ تفنن بھی اس طرح کا کوئی کام نہ کرنا۔

جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا کہ رفیق تارڑ کو اساتذہ کے سینکڑوں اشعار یاد تھے اور فون پر موقع کی مناسبت سے سناتے رہتے تھے۔ اقبال کے تو خیروہ عاشق تھے اور اس لحاظ سے وہ میرے پیر بھائی تھے میں نے کالم کے آغاز میں ان کی بذلہ سنجی کا ذکر بھی کیا تھا وہ جب کبھی فون کرتے تو مجھے لگتا فون بھی ان کی گفتگو کا مزا لے رہا ہے۔ وہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے جج بھی رہے تھے اس دور کے بعض دلچسپ واقعات کے عینی شاہد کےطور پر وہ قصے بھی اپنے دلفریب انداز میں سناتے۔ میرے تقریباً ہر کالم پر تبصرہ بھی ضرور کرتے اور کہتے کہ اگر یہاں یہ جملہ اور وہ جملہ بھی آ جاتا تو کالم کا مزا دوبالا ہو جاتا۔ اصل میں وہ اپنی ریٹائرمنٹ کا عرصہ بھرپور آزادی کے ساتھ انجائے کر رہے تھے بطور جج بھی انہیں ریزرو رہنا پڑتا تھا اور صدر پاکستان کے طور پر بھی! یقیناً میرے علاوہ کچھ اور خوش نصیب بھی ہوں گے جنہیں ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی خوش طبعی سے محفوظ ہونے کا موقع ملا ہو گا لیکن مجھے یہ افتخار حاصل ہے کہ مجھے ہفتے میں کم از کم دو تین بار ان سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوتا تھا اور ان کی زبان سے کچھ ایسے لطائف سننے کا موقع بھی مل جاتا تھا جو وہ شاید کسی اور کو نہ سناتے ہوں اور شاید میں بھی آپ کو نہیں سنائوں گا۔

آخر میں ان کے کردار کی اثابت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ جب پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تو وہ فوری طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہونا چاہتے تھے مگر میاں صاحب نے مشورہ دیا کہ آپ استعفیٰ نہ دیں اس میں ایک گہری رمز پوشیدہ تھی چنانچہ جناب رفیق تارڑ نے اپنی مدتِ صدارت مکمل کی اور اپنی صدارت کو قوم کی امانت جانتے ہوئے اس عہدے کے منافی کبھی کوئی کام نہ کیا۔ انہوں نے 92 برس کی عمر میں وفات پائی ان کی علالت کے دوران میں دو مرتبہ ان کی عیادت کیلئے گیا مگر ان دنوں بھی ان کی شگفتگی میں مجھے کوئی کمی نظر نہیں آئی وہ مجھے اس لئے بھی بہت اچھے لگتے تھے کہ اپنی پارسائی، پابند شریعت ہونے کے باوجود ان میں نیکی اور پارسائی کا وہ گھمنڈ نہیں تھا جس کے تحت دوسروں کو گنہگار سمجھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مرقد کو اپنے نور سے روشن رکھے!