معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
جائیں تو جائیں کہاں؟
اب میں کیا کروں، بہت سی خواہشات پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہوں، مگر ہر دفعہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے، مثلاً جب میں اپنے قریب سے لبالب گنّوں سے بھری اور اچھی طرح پیک کی ہوئی کوئی ٹرالی گزرتے دیکھتا ہوں تو جی چاہتا ہےکہ گاڑی روک کر ٹرالی میں سے ایک گنا کھینچ لوں اور اس کے چھلکے اتار کر وہیں کھانا شروع کردوں۔ لاہور کی چوڑی سڑکوں پر سے گزرتے ہوئے مجھے گلہ بکریاں والا کوچہ وزیر آباد کی اپنے گھر کی گلی یاد آتی ہے، جس کے ایک طرف سے داخل ہونے والی گلی کشاد ہ تھی اور دوسری گلی سے دوبارہ بازار کی طرف لے جانے والی گلی اتنی تنگ تھی کہ سامنے سے آنے والے کی کیا مجال تھی کہ وہ ریورس لگا کر واپس بازار میں نہ جائے اور پھر میںادھر سے گزر سکوں، مجھے اپنے گھر کے قریب واقع وہ خالی پلاٹ بھی یاد آتا ہے جسے ہم بچے ’’کھولا‘‘ کہتے تھے اور اللہ جانے کیوں کہتے تھے، جی چاہتا ہے کہ اگر آج بھی بچے وہاں گلی ڈنڈا، پٹھو گرم اور کوکلا چھپاکی کھیلتے ہیں تو میں ایک دفعہ وہاں کھڑے ہو کر پھر سے یہ منظر دیکھ سکوں۔ مجھے اے بلاک ماڈل ٹائون لاہور کا وہ گھر بہت یاد آتا ہے جس کے برآمدے کے شیڈ کو میں چھلانگ لگا کر اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لیتا تھا اور پھر دسیوں بار اپنے پورے جسم کو شیڈ سے اوپر لے جاتا اور پھربار بار نیچے سے اوپر جاتا۔ مجھے اپنے ماڈل ٹائون والے گھر کی وہ بھینس بھی بہت یاد آتی ہے جسے میں سیر کرانے اور کسی چھپڑ میں نہلانے کے لیے گھرسے نکلتا تھا اور بھینس کے واپس گھر جا کر چارہ کھانے کی خواہش کے باوجود اپنے ہم عمروں کے ساتھ دوڑیں لگانے میں مصروف رہتا تھا۔ کئی دفعہ یہ بھینس چھپڑ میں سے نکلنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی اور ایسا عموماً گرمیوں کے موسم میں ہوتا تھا، پھر مجھے لنگر لنگوٹ کس کر ’’میدانِ کار زار‘‘ میں اترنا پڑتا تھا۔مجھے وہ انگیٹھی بھی یاد آتی ہے جس میں لکڑی کا برادہ کوٹ کوٹ کر بھرنے کی ذمہ داری میری ہوتی تھی کہ اس زمانے میں سوئی گیس نام کی چیز کہاں ہوتی تھی۔ لوگ یا تو چولہے میں لکڑیاں جلا کر کھانا پکاتے تھے یا پھر لکڑی کے برادے سے یہ کام لیا جاتا تھا۔ مجھے یہ کام برا لگتا تھا ۔ میرا بنیادی اعتراض یہ تھاکہ یا تو میرا نک نیم ’’شہزادہ‘‘ نہ رکھا جاتا تاکہ اس نام کی تھوڑی بہت لاج تو رہ جاتی۔ مگر اب سب کچھ ایک خوشگوار یاد کی طرح میرے ساتھ رہتے ہیں اور ہاں میں ابا جی کا حقہ بھی بھرا کرتا تھا، ابا جی اپنی حقہ نوشی کو پسند نہ کرتے تھے، میں حقے کی نالی میں سے پانی گزار کر اس کی صفائی کرتااور اس کے بعد چلم میں تمباکو کی مناسب مقدار اور دہکتے ہوئے کوئلے بڑے سلیقے سے دھرتا۔ یہ اہتمام کرنے کے بعد حقہ’ ’چالو‘‘کرنے کے لیے میں اس کی ’’باری‘‘ لگاتا یعنی تین چار لمبے لمبے کش لیتا بلکہ اس وقت تک یہ شغل جاری رکھتا جب تک ابا جی کی آواز نہ آتی’’اتنی دیرلگا دی، کیا کر رہے ہو؟‘‘ دراصل مجھے حقے کی گڑ گڑاہٹ بہت اچھی لگتی تھی، چلیں یہ سمجھ لیں کہ مجھے حقے کی گڑگڑاہٹ’’ہی‘‘ بہت اچھی لگتی تھی!اب میں کیا کروں، یہ سب کام اگر کرنے کو نہیں تو کم از کم ایک بار پھر دیکھنے کو جی چاہتا ہے، مثلاً مجھے لڈو کا کھیل بہت یاد آتا ہے اور اس وقت بہت غصہ آتا تھا، جب سو کے قریب پہنچنے پر سانپ ڈنگ مارتا تھا اور واپس زیرو پر آنا پڑتاتھا۔ میں ایک بار پھر اس نابینا فقیر کو دیکھنا چاہتا ہوں جو ہم دوستوں کے لڈو کھیلنے کے دور ان بھیک مانگنے آ جاتا تھا۔ مگر وہ کچھ مانگتا نہیں تھا صرف ایک آیت (اسے آتی ہی ایک آیت تھی) اپنی انتہائی بے ہنگم آواز میں پڑھنے لگتا۔ ہم اس کی کرخت آواز سے بچنے کے لیے فوراً آنہ دو آنے اس کی نذر کردیتے تھے اور وہ چلا جاتا تھا۔ ایک دن ہم نے اسے کہا کہ یار تم تلاوت نہ کیا کرو کہ اللہ خوبصورت لحن کو پسند کرتا ہے، بس چپ کرکے کھڑے ہوجایا کرو، ہم تمہیں کچھ دے دیا کریں گے۔ ایک روز ہم اپنی گیم میں اتنے مگن تھے کہ پتہ ہی نہیں چلا وہ کب سے ہمارا ’’منتظر‘‘ کھڑا ہے۔ اس نے کچھ دیر صبر کیا اور پھر کہا ’’کچھ دیتے ہو کہ شروع کروں تلاوت‘‘۔
یہ سب کچھ عمر کے اس حصے میں بھی میری یادوں کے ہمراہ ہے، مجھے یہ زمانہ بھی یاد ہے اور اس کے بعد کا زمانہ بھی۔ جب کچھ شہرت نصیب ہوئی، جب میں کالج میں لیکچرار مقرر ہوا، جب نوائے وقت میں کالم نگاری شروع کی، جب الحمرا آرٹس کونسل کا آٹھ سال تک چیئرمین رہا اور استعفیٰ دے دیا۔ جب پی ٹی وی کا چیئرمین بنا اور تین سال مکمل ہونے کا انتظار کئے بغیر استعفیٰ دے ڈالا۔ جب ناروے اور پاکستان کی سفارت کا اعزاز حاصل ہوا اور ملک میں آمریت کی خبر سنتے ہی، اسی وقت اپنا استعفیٰ وزارت خارجہ کو ارسال کردیا۔ مگر ان تمام ادوار میں میرا بچپن، اس کی یادیں جو مجھے ہمیشہ خوشگوار محسوس ہوئیں، کل بھی میرے ساتھ تھیں اور آج بھی میرے ساتھ ہیں۔ میرا حال اس دیہاتی خاتون جیسا ہے جس کا شوہر اسے گائوں سے بیاہ کر لایا اور پھر اپنےساتھ سوئٹزر لینڈ لے گیا۔ اس دیہاتی خاتون کو ایک دفعہ اپنی ایک ہمجولی کا فون آیا اور اس کا حال احوال پوچھا تو اس نے آزردہ لہجے میں کہا ’’میں یہاں ذلیل ہو رہی ہوں اور آپ لوگ ٹیوب ویل میں تربوز ٹھنڈے کرکے کھا رہے ہیں‘‘۔