معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
تیرا امام بے حضور،تیری نماز بے سرور!
ہم لوگوں نے ایک وقت تھا کہ پائیدار قدروں اورجاندار شخصیتوں کو یاد کرنے کیلئے سال میں ایک دن، ایک ہفتہ یا ایک مہینہ مخصوص کر رکھا تھا چنانچہ آگے پیچھے ہم ناپائیدار چیزوں کے پیچھے بھاگتے پھرتے تھے،اس سے قطع نظر رمضان کا مہینہ ہم نے عبادتوں کیلئے مخصوص کر رکھا ہے،گو ہم اس مقدس مہینے میں بھی خدا سے ’’آڈا‘‘ لگانے سے باز نہیں آتے۔ اﷲ تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ رحمتوں والا مہینہ ہے مگر اس مہینے میں چوہدری برکت اپنے منافع میں چار گنا اضافہ کر دیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس مہینے میں شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے مگر ہم میں سے کئی لوگ اس مبارک مہینہ کی آمد سے پہلے شیطان کو انڈوں پر بٹھا دیتے ہیں۔ پھر ان انڈوں سے نکلنے والے شیطان کے بچے سارا مہینہ اودھم مچاتے ہیں۔ البتہ ایک زمانہ تھا ہم ہفتۂ دیانت اور ہفتۂ خوش اخلاقی بھی منایا کرتے تھے، ہفتۂ دیانت میں خوش اخلاقی کو قریب نہیں پھٹکنے دیتے تھے اور ہفتۂ خوش اخلاقی کے دوران دیانت کا ناطقہ بند کر دیا جاتا تھا۔ مغرب میں ایک دن یومِ والدین کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس روز والدین کو ایک کارڈ بھیج کر باقی عرصہ کیلئے انہیں بھلادیا جاتا ہے۔ ایک دن یوم ِمحبوبہ کے حوالے سے مخصوص ہے جسے ویلنٹائن ڈے بھی کہا جاتا ہے اور جو اب ہمارے ہاں مغرب سے زیادہ جوش وخروش سے منایا جانے لگا ہے۔ اس روز محبوبہ کو ’’لارے‘‘ دیے جاتے ہیں اور اگلے روز کسی نئے محبوب کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔ ہم تو پنج وقتہ نماز میں بھی اﷲ جانے کسے چکر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان نمازوں کے دوران کتنی ہی دفعہ کہتے ہیں اللہ سب سے بڑا ہے اور اس دوران اپنے کسی کام کیلئے کسی ’’بڑے‘‘ کی سفارش بھی تلاش کر رہے ہوتے ہیں خواہ وہ بڑا اﷲ کا باغی ہی کیوں نہ ہو۔ ہم کہتے ہیں ’’سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ‘‘مگر ہمارے قلم اور ہماری زبان سے جھوٹے خدائوں کی تعریفیں ادا ہونے کے لیے مچل رہی ہوتی ہیں ہم کہتے ہیں ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی کو مدد کیلئے پکارتے ہیں‘‘ ہم مگرمدد کے لیے انہی کی راہ دیکھتے ہیں جن کی ’’عبادت‘‘ گزشتہ کئی برسوں سے ہم پورے خضوع وخشوع کے ساتھ کر رہے ہیں! ہم خدا سے کہتے ہیں ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا، ان کا راستہ نہیں جو تیرے مغضوب ہیں‘‘ مگر ہم سلام پھیرتے ہی مغضوبین کے راستے پر کھنچے چلے جاتے ہیں۔ دراصل ہمیں یہی راستے محبوب ہیں چنانچہ ہم نفسانی خواہشات کا احرام باندھے لبیک کا وِرد کرتے ہوئے ان راستوں کے طواف میں لگے رہتے ہیں۔ ہم اپنی منزل مدینہ بتاتے ہیں اور ہر دفعہ کوفے کی طرف جا نکلتے ہیں۔ اقبال نے ہم ایسے لوگوں کی نمازوں اور ’’اماموں‘‘ ہی کیلئے کہا تھا ؎
تیرا امام بے حضور، تیری نماز بے سُرور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر!
اب آ جاتے ہیں اقبال کی طرف ! ہم نے اپنے اس نابغہ کو یاد کرنے کے لیے بھی سال میں دو دن مخصوص کئے ہوئے ہیں ایک اس کے یوم ولادت پر اور دوسرا اس کے یوم وفات پر مگر اصل صورتحال یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور ہماری اشرافیہ، عظمت انسان کے علمبردار اور مذہب کی مثبت تشریخ پیش کرنے والے اس سب سے بڑے شاعر کی تعلیمات کا ’’یوم وفات‘‘ روزانہ بڑے اہتمام سے مناتی ہے جبکہ میں زندگی کے تمام شعبوں میں اقبال کے یوم ولادت کا منتظر ہوں ! اقبال ’’وہ واحد شاعر ہے جو تمام شعبوں میں مذہب کے فعال پہلوئوں کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ تو اس تصوف کے بھی خلاف ہے جو انسانوں کو خدا سے ملانے کی بجائے انہیں قصہ کہانیوں میں الجھا کر رکھ دے بلکہ میرے نزدیک تو تصوف کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو دراصل مذہب کا مودبانہ انکار ہے اور ہمارے بعض ’’دانشور‘‘ اسی تصوف کے قائل اور اس کے پرچارک ہیں۔ اقبال کا اسلام نئی دنیائیں اور نئے صبح و شام پیدا کرنے کی تلقین کرتا ہے، وہ ستاروں سے آگے آباد جہانوں کی نشاندہی کرنے والا شاعر ہے وہ تو عالم انسانیت کی زبوں حالی پر خدا سے بھی الجھ پڑتا ہے :
روزِ حساب جب میرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
ہو نقش اگر باطل تکرار سے کیا حاصل
کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ
اپنے لیے لامکاں میرے لیے چار سو
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک
یہ شاعری صرف عظمتِ آدم اور خدا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے حوالےہی سے اہم نہیں ہے بلکہ یہ ان فتویٰ بازوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے جنہوں نے آزادی فکر کا گلا گھونٹنے کے لیے ہماری فکر کی قمیضوں کے کالر اتنے تنگ کر دیئے ہیں کہ نئی نسل کے حلق ’’صدائے الاللہ ‘‘ سے بھی دور ہوتے جا رہے ہیں۔