عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک؟

عمران خان کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ سمجھ گئے کہ دھمکیوں اور روٹھ جانے کی پالیسی سے کام نہیں چلے گا۔چنانچہ انہوں نے معافیاں مانگنی شروع کردیں۔ برینفنگز کے نام پر ان کے ہاں حاضریاں بھی لگوائیں اور گھر پر دعوتوں کا اہتمام بھی کیا۔

مختصراً یہ کہ انہوں نے صرف رجوع کر لیا ہے بلکہ اب کی بار زیادہ مدح سرائی کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے ترجمانوں کی زبانیں ایک بار پھر دراز ہوگئی ہیں۔ ’’وہ سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ دینے لگے ہیں۔

شیخ رشید احمد کی پیش گوئیوں اور دھمکیوں کا سلسلہ بھی دوبارہ زور پکڑ گیا ہے اور پی ٹی آئی کے فصلی بٹیروں کا اپوزیشن کی صفوں کی طرف پرواز کا سلسلہ بھی وقتی طور پر رُک گیا ہے لیکن اس کے باوجود عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں کی گھبراہٹ ختم نہیں ہورہی۔

انہوں نے انٹیلی جنس بیورو کے ایک ایک اہلکار کا جینا حرام کردیا ہے۔ ان سے ان لوگوں کی بھی سخت نگرانی کروائی جارہی ہے جن سے معافیاں مانگ رہے ہیں۔دم درود اور جھاڑ پھونک کا سلسلہ بھی بڑھا دیا ہے۔

حالانکہ سرِدست اپوزیشن کی صفوں میں اعتماد نظر آتا ہے اور نہ وہ ان کو ہٹانے کے لیے کوئی لائحہ عمل بناسکی ہے۔ تو پھر اس گھبراہٹ کی وجہ کیا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں ان کی خاطر میڈیا کو کسی اور جگہ سے مثبت رپورٹنگ کی ہدایات ملتی تھیں لیکن اب میڈیا ان کے میڈیا منیجروں کو خود مینج کرنا پڑرہا ہے۔

پہلے ان کے لیے الیکشن کمیشن کسی اور جگہ سے کنٹرول کیا جاتا تھا لیکن اب یہ ذمہ داری ان کے کاندھوں پر آگئی ہے۔ پہلے ان کے لیے عدلیہ پر دبائو کہیں اور سے ڈالا جاتا تھا لیکن اب انہیں عدلیہ سے خود نمٹنا پڑرہا ہے۔

اسی طرح وہ شہباز شریف کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ لوگ ان کو گرفتار کروانے میں گزشتہ برسوں کی طرح اپنا حصہ ڈالنے کو تیار نہیں۔ وہ جہانگیر ترین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کا جہاز کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف پرواز کرتا پھررہا ہے۔

علیٰ ہذہ القیاس۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ جو لوگ یہ کام کیا کرتے تھے ان کے ادارے کو بحیثیت ادارہ احساس ہوگیا ہے کہ اس نظام کو لانے اور چلانے کے لیے جو کچھ کیا گیا، اس کی وجہ سے اس کا وقار مجروح ہوا اور اِس سلسلے کو اسی شدت کے ساتھ اگر مزید جاری رکھا جاتا ہے تو ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا۔

اس لیے وہ مزید فریق اور سرپرست نظر نہیں آنا چاہتا لیکن عمران خان کو رُخصت کرنے کا کوئی منصوبہ بنایا ہے اور نہ ہی اپوزیشن کو کوئی اسکرپٹ دیا ہے۔

وہ عمران کو یہ یقین دلارہا ہے کہ ان کی رخصتی کا ان کا کوئی منصوبہ نہیں اور اپوزیشن کو یہ باور کرارہا ہے کہ وہ غیرجانبدار اور اپنے آئینی رول تک محدود ہوگیا ہے لیکن عمران خان کو چونکہ ماضی جیسی سرپرستی نہیں مل رہی اس لیے وہ شک کررہا ہے کہ مجھے رخصت کیا جارہا ہے اور چونکہ اپوزیشن کو باقاعدہ اسکرپٹ نہیں مل رہا، اس لیے وہ بھی شک کررہی ہے کہ اس نے بدستور عمران خان کے سر پردستِ شفقت رکھا ہوا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ فضا صاف نہیں ہورہی۔ ہر طرف بداعتمادی ہے۔ ہر فریق اپنے اپنے اندازے لگارہا ہے اور ان اندازوں کے مطابق قدم اٹھارہا ہے۔ ایک دن ایسا کچھ ہوجاتا ہے جس سے لگتا ہے کہ حکومت آج گئی کہ کل گئی اور دوسرے دن ایسا کچھ ہوجاتا ہے کہ جس سے عمران خان کی رخصتی کے خواہشمندوں کی آرزوئوں پر پانی پھر جاتا ہے۔

چند روز قبل تک شہباز شریف پیپلز پارٹی کو منانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن پیپلز پارٹی کی طرف سے جان بوجھ کر ایسی حرکتیں کی جارہی تھیں، جو قربت کی بجائے دوری کا باعث بن رہی تھیں۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو اب اچانک ایک ساتھ میاں شہباز شریف کے در پر حاضر ہوئے اور حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کی تجویز پیش کی جس سے دوبارہ ایک ہلچل پیدا ہوئی۔

نون لیگ نے ان کی تجویز اتنی سنجیدہ لے لی کہ اگلے ہی روز زوم کے ذریعے مشاورت کرلی اور حسبِ روایت اختیار میاں نواز شریف کودے دیا۔ دوسری طرف زرداری صاحب چوہدری شجاعت کے پاس پہنچ گئے جبکہ عمران خان نے اس چوہدری پرویز الٰہی کو مدعو کیا جنہیں وہ کسی زمانے میں پنجاب کا سب سے بڑا چور پکارتے تھے۔ حکومت کے دیگر اتحادیوں کے تیور بھی بدلنے لگے اور ایم کیوایم نے بھی اپوزیشن جماعتوں سے ملاقاتوں کا آغاز کردیا۔

جہاں تک اپنی خواہش کا تعلق ہے تو میرے نزدیک عمران خان کو پانچ سال پورے کرنے کا موقع دینا چاہیے کیونکہ اب تبدیلی کا کوئی فائدہ نہیں۔ معیشت، سفارت اور معاشرت کے حوالوں سے جو تباہی ہونی تھی وہ ہوچکی۔ سونامی سرکار کے ذریعے ریاستی اداروں کو جتنا تباہ کیا جانا تھا، وہ تباہ ہوچکے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جب کچھ کرنے کا وقت تھا تو اپوزیشن جماعتوں نے کچھ نہیں کیا اور اب اچانک انہیں جلد از جلد رُخصت کرنے کے لیے بے تاب ہوگئی ہیں۔

اپوزیشن اگر واقعی سنجیدہ ہے تو عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بڑی آسانی سے کامیاب ہوسکتی ہے تاہم اس کے لیے زرداری اور نواز شریف کو اعتماد کی فضا پیدا کرنی ہوگی جو وہ ابھی تک پیدا نہیں کرسکے۔

اسی طرح، میاں نوازشریف کو شہباز شریف پر مکمل اعتماد کرنا ہوگا جو وہ نہیں کررہے۔ زرداری کا ایجنڈا یہ ہے کہ اس کے بعد اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں جبکہ دوسری طرف میاں نواز شریف چاہتے ہیں کہ عدم اعتماد کے بعد فوری انتخابات ہوں۔

میاں شہباز شریف اگر متبادل وزیراعظم بنتے ہیں تو اس صورت میں بھی نواز شریف نہیں چاہتے کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں۔ زرداری اس معاملے میں پھر بھی واضح ہیں کیونکہ وہ اقتدار ملنے کی صورت میں ہر فریق کو ہر طرح کی گارنٹی دینے کو تیار ہیں لیکن سب سے زیادہ کنفیوژن نوازشریف کے ہاں پائی جاتی ہے۔ وہ بیک وقت دو کشتیوں پر سواری چاہتے ہیں۔

میاں صاحب ڈیل توچاہتے ہیں لیکن ڈیل کرتےنہیں۔پاکستان کی سیاست اور اپنی جماعت کی سیاست اپنے ہاتھ میں رکھناچاہتےہیں لیکن یہاں آکرجیل جانے کو تیار نہیں۔ شہباز شریف کو صدر بنا رکھا ہے لیکن انہیں فیصلہ کرنے کا اختیار دیتے نہیں۔ اپنے نہ آنے کے لیے ابھی تک بیماری کو جواز بنا رکھا ہے لیکن علاج کراتے ہیں اور نہ بیماروں کی طرح آرام سے گھر بیٹھتے ہیں۔

حالانکہ اگر وہ بیک وقت دو کشتیوں پر سواری ختم کرکے شہباز شریف کو مکمل طور پر بااختیار بنادیں اور پھر وہ آصف زرداری کے ساتھ مستقبل کے حوالے سے کسی کلیے پر متفق ہوجائیں تو عدم اعتماد کی تحریک کو کامیابی سے کوئی روک نہیں سکے گا۔

وجہ صاف ظاہر ہے۔ ایک طرف جہانگیر ترین اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا بدلہ لینے کے لیے موقع کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور دوسری طرف آدھی سے زیادہ تحریک انصاف کے ایم این ایز چھلانگ لگانے کو تیار ہیں۔