بنی اسرائیل

’’کیا تمہارے پاس گاڑی ہے؟‘‘ میں نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور چند لمحے تک اسے حیرت سے دیکھتا چلا گیا‘ وہ دانت نکال رہا تھا اور بار بار اپنی داڑھی کھجا رہا تھا‘ پارک میں لوگ چہل قدمی کر رہے تھے‘ کچھ لوگ ہلکی ہلکی جاگنگ بھی کر رہے تھے۔

دوپہر مایوس ہو کر رخصت ہو رہی تھی اور شام دھیرے دھیرے مارگلہ کی پہاڑیوں سے نیچے سرک رہی تھی‘ گرم دوپہر کے بعد اسلام آباد کی شام کی اپنی ہی خوب صورتی‘ اپنا ہی سکھ ہوتا ہے‘ میری بچپن کی عادت ہے میں پریشانی یا ٹینشن میں کسی پارک میں چلا جاتا ہوں‘ ایک دو چکر لگاتا ہوں اور پھرکسی بینچ پر چپ چاپ بیٹھ جاتا ہوں‘ وہ بینچ میری ساری ٹینشن ‘ میری ساری پریشانی چوس لیتا ہے اور میں ایک بار پھر تازہ دم ہو کر گھر واپس آ جاتا ہوں‘ میں اس دن بھی شدید ٹینشن میں تھا‘ میں نے پارک کا چکر لگایا اور سر جھکا کر بینچ پر بیٹھ گیا۔

تھوڑی دیر بعد ایک نیم خواندہ پشتون کسی سائیڈ سے آیا اور بینچ پر میرے ساتھ بیٹھ گیا‘ اسے شاید بڑبڑانے کی عادت تھی یا پھر وہ خاموش نہیں بیٹھ سکتا تھا چناں چہ اس نے مجھے بار بار انگیج کرنا شروع کر دیا‘ وہ کبھی آٹے کی مہنگائی کا ذکر کرتا تھا‘ کبھی ٹرانسپورٹ کے کرایوں کا رونا روتا تھا اور کبھی لوگوں کے غیر اسلامی لباس پر تبصرے کرتا تھا‘ میں تھوڑی دیر اس کی لغویات سنتا رہا لیکن جب بات حد سے نکل گئی تو میں نے جیب سے تھوڑے سے روپے نکالے اور اس کے ہاتھ پر رکھ دیے‘ وہ تھوڑی دیر تک حیرت سے نوٹوں کو دیکھتا رہا‘ پھر اس نے قہقہہ لگایا۔

نوٹ واپس میرے ہاتھ پر رکھے اور بولا ’’آپ لوگوں کا بڑا المیہ ہے (وہ المیہ کو لمیا کہہ رہا تھا) آپ دوسروں کو بھکاری سمجھتے ہیں‘ آپ کا خیال ہوتا ہے آپ کے ساتھ اگر کوئی غریب شخص بات کر رہا ہے تو اس کا صرف ایک ہی مقصد ہے وہ آپ سے بھیک لینا چاہتا ہے‘ بابو صاحب مجھ پر اﷲ کا بڑا کرم ہے‘ چوکی داری کرتا ہوں‘ روٹی اوپر والا مالک دے دیتا ہے اور خرچے کے پیسے نیچے والے مالک سے مل جاتے ہیں‘ میں بس آپ کو پریشان دیکھ کر آپ کے پاس بیٹھ گیا تھا‘ میرا والدکہتا تھا پریشان آدمی کو حوصلہ دینا بہت بڑی نیکی ہوتی ہے چناں چہ میں جہاں کسی کو پریشان دیکھتا ہوں میں اس کے پاس بیٹھ جاتا ہوں مگر آپ نے مجھے بھکاری سمجھ لیا‘‘ میری حیرت شرمندگی میں بدل گئی اور میں اس سے معافی مانگنے لگا‘ وہ ہنسااور داڑھی کھجاتے کھجاتے مجھ سے پوچھا ’’کیا تمہارے پاس گاڑی ہے؟‘‘۔

میں نے چند لمحوں تک اس واہیات سوال پر غور کیا اور پھر جواب دیا ’’ہاں تین چار ہیں‘‘ وہ بولا ’’تم کو پتا ہے آج کل پٹرول کی کیا قیمت ہے؟‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’مجھے نہیں پتا‘ ڈرائیور پٹرول ڈلواتا ہے‘‘ اس نے قہقہہ لگا کر کہا ’’اور تم پھر بھی پریشان بیٹھے ہو؟‘‘ میں نے حیرت سے جواب دیا ’’گاڑی کا پریشانی کے ساتھ کیا تعلق بنتا ہے خان؟‘‘ وہ سنجیدہ ہو کر بولا ’’بڑا گہرا تعلق ہے‘ کیا مکان تمہارا اپنا ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’ہاں میرا اپنا ہے بلکہ تین چار ہیں‘‘ وہ مسکرایا اور پوچھا ’’کیا بیوی بچے بھی ہیں؟‘‘ میں نے فوراً ہاں میں جواب دیا۔

اس نے پوچھا ’’بچہ لوگ کیا کرتے ہیں؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’بیٹے اپنا کاروبار کرتے ہیں اور بیٹیاں پڑھ رہی ہیں‘‘ اس نے پوچھا ’’ اورکیا تمہاری بیگم صاحبہ کی صحت ٹھیک ہے؟‘‘میں نے فوراً جواب دیا ’’ہاں الحمد للہ‘ ہم دونوں ٹھیک ٹھاک ہیں‘ ہمیں اللہ نے مہلک بیماریوں سے بچا رکھا ہے‘‘ وہ بولا ’’اور کیا خرچہ پورا ہو جاتا ہے؟‘‘ میں نے اوپرآسمان کی طرف دیکھا اور جواب دیا ’’الحمد للہ‘ خرچے کی کبھی تنگی نہیں ہوئی‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور میرے بازو پر اپنا کھردرا ہاتھ رکھ کر بولا ’’ اور بابو صاحب آپ اس کے بعد بھی پریشان ہے؟ آپ نے پھر بھی منہ بنا رکھا ہے‘ آپ کو پتا ہے آپ بنی اسرائیل ہو چکے ہیں‘‘ میں بے اختیار ہنس پڑا اور پہلی مرتبہ اس کی گفتگو میں دلچسپی لینے لگا۔

میں نے اس سے پوچھا ’’میں بنی اسرائیل کیسے ہو گیا اور بنی اسرائیل کیا ہوتا ہے؟‘‘ وہ سنجیدگی سے بولا ’’ آپ اگر قرآن مجید پڑھیں تو اللہ تعالیٰ بار بار بنی اسرائیل سے کہتا ہے‘ میں نے تمہیں یہ بھی دیا‘ وہ بھی دیا‘ ملک بھی دیا‘ کھیت بھی دیے‘ دشمنوںسے بھی بچایا‘ تمہارے لیے آسمان سے کھانا بھی اتارا‘ باغ اور مکان بھی دیے‘ عورتیں اور بچے بھی دیے اور غلام اور کنیزیں بھی دیں مگر تم اس کے باوجود ناشکرے ہو گئے‘ تم نے اس کے باوجود میرا احسان نہیں مانا‘ ہمارے مولوی صاحب کہتے ہیں ساری نعمتوں کے بعد بھی جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتا‘ وہ اس کے احسان یاد نہیں کرتا تو وہ بنی اسرائیل ہو جاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اسے بنی اسرائیل کی طرح ذلیل کرتا ہے‘ وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی سکون اور امن سے محروم ہو جاتا ہے اور آپ بھی مجھے بنی اسرائیل محسوس ہو رہے ہیں‘ آپ کے پاس اللہ کی دی ہوئی تمام نعمتیں موجود ہیں مگر آپ ان کے باوجود بینچ پر اداس بیٹھے ہیں‘ مجھے آپ پر ترس آ رہا ہے‘‘۔

مجھے جھٹکا سا لگا اور میں شرمندگی اور خوف سے اس کی طرف دیکھنے لگا‘ میں اپنے آپ کو پڑھا لکھا اورتجربہ کار سمجھتا تھا‘ بچپن سے اسلامی کتابیں بھی پڑھ رہا ہوں اور عالموں کی صحبت سے بھی لطف اندوز ہوتا رہتا ہوں لیکن آپ یقین کریں بنی اسرائیل کی یہ تھیوری میرے لیے بالکل نئی تھی‘ میں نے قرآن مجید میں جب بھی بنی اسرائیل کے الفاظ پڑھے مجھے محسوس ہوا اللہ تعالیٰ ناشکرے اور نافرمان یہودیوں سے مخاطب ہے‘ یہ انھیں اپنے احسانات یاد کرا رہا ہے لیکن کیا اﷲ تعالیٰ کی نظر میں ہر احسان فراموش بنی اسرائیل ہو سکتا ہے اور کیا قدرت اس کے ساتھ وہی سلوک کرتی ہے جو اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ وادی سینا اور اسرائیل میں کیا تھا؟ یہ بات میرے لیے نئی تھی‘ میں اپنی جگہ سے اٹھا‘ اس ان پڑھ پشتون کے ہاتھ کو بوسا دیا اور پارک سے چپ چاپ باہر آ گیا۔

میں سارا راستہ اﷲ کی ایک ایک نعمت یاد کرتا رہا‘ اس کا شکر ادا کرتا رہا اور اپنی آستینوں سے اپنے آنسو صاف کرتا رہا‘ میں کیا تھا اور میرے رب نے مجھے کیا بنا دیا مگر میں اس کے بعد بھی پریشان اور مایوس رہتا ہوں‘ مجھ سے زیادہ بنی اسرائیل کون ہو سکتا ہے؟ مجھ سے زیادہ اس کے انتقام کو کون ڈیزرو کرتا ہے؟ میں روتا جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا جاتا تھا‘ اس نے مجھے اپنے اس شان دار ترین وقت میں پیدا کیا جس میں دنیا کے تمام ناممکنات ممکن ہو چکے ہیں‘ پوری دنیا کا علم موبائل فون کی اسکرین میں اکٹھا ہو چکا ہے۔

آپ گوگل پر ٹائپ کریں اور آپ کی ٹائپنگ مکمل ہونے سے پہلے آپ کے سوال کے تمام ممکنہ جواب اسکرین پر موجود ہوتے ہیں‘ دنیا نے کورونا جیسی وبا دو سال میں صفحہ ہستی سے مٹا دی‘ آٹھ مہلک بیماریاں بچپن میں ویکسین دے کر ختم کر دی جاتی ہیں‘ دنیا میں اب نئے دل‘ پھیپھڑے‘ گردے اور جگر لگائے جا رہے ہیں‘ ڈاکٹروں نے پچھلے سال ایک شخص کا گردن سے اوپر سر بدل دیا‘چار دن پہلے اسرائیل میں ایک نوجوان کا کٹا ہوا سر دوبارہ لگا دیا گیا۔

انسان آج ماں کے پیٹ میں موجود بچے کے دل کا بائی پاس آپریشن کر دیتا ہے اور وہ بچہ وقت پر صحت مند پیدا ہوتا ہے‘ آج کی دنیا تمام انسانوں کے لیے کھلی ہوئی ہے‘ آپ ترقی کرنا چاہیں تو آپ بے شک کھرب پتی بن جائیں‘ آپ کو کوئی نہیں روکے گا‘ آپ دنیا کے آخری کونے میں جانا چاہیں آپ چلے جائیں گے‘ آپ ستر سال کی عمر میں پی ایچ ڈی کرنا چاہیں آپ کر لیں گے اور آپ آج سیاہ فام یا انڈین ہوتے ہوئے بھی امریکا اور برطانیہ کے حکمران بن سکتے ہیں۔

اللہ نے مجھے اپنے اس شان دار زمانے میں پیدا کیا‘ اس نے مجھے حادثوں اور بیماریوں سے بھی بچائے رکھا‘ اس نے مجھے بے انتہا رزق بھی دیا‘ اولاد کی نعمت بھی دی‘ عزت اور شہرت بھی عنایت کی‘ ملک اور مکان بھی دیا اور خدمت کرنے والے لوگ بھی دیے اور مجھے بے لوث دوستوں سے بھی نوازا مگر میں اس کے باوجود پریشان بھی رہتا ہوں اور بے آرام بھی لہٰذا مجھ سے بڑا بنی اسرائیل کون ہے؟ مجھے بنی اسرائیل سے متعلق آیتیں یاد آ رہی تھیں اور میں بار بار اپنے آپ سے کہہ رہا تھا تم میں اور ان لوگوں میں کیا فرق ہے؟ وہ بھی اللہ کے احسان بھول گئے تھے اور تم بھی‘ وہ بھی ناشکرے تھے اور تم بھی‘ وہ بھی مزید کی دوڑ سے باز نہیں آ رہے تھے اور تم بھی‘ وہ بھی اللہ کے نافرمان تھے اور تم بھی لہٰذا پھر تمہارے ساتھ وہ سلوک کیوں نہ ہو جو بنی اسرائیل کے ساتھ ہوا تھا‘ وہ سینا کے صحرا میں بھٹک بھٹک کر مر گئے تھے اور تم بھی خواہشوں‘ نفرتوں اور اداسیوں کے جنگلوں میں مارے مارے پھر رہے ہو‘ تم میں اور ان میں آخر کیا فرق ہے؟‘‘۔

میں نے اللہ سے معافی مانگی‘ توبہ کی اور شکوے کو شکر سے بدل دیا‘ آپ یقین کریں میں اس دن سے ایک مکمل مختلف انسان ہوں‘ اداسی اور پریشانی سر سے بادلوں کی طرح غائب ہو چکی ہے اور سامنے وسیع نیلا آسمان اور تاحدنظر پھیلا ہوا سبزہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے معجزوں کی ناختم ہونے والی وادیاں ہیں‘ بے شک ہم اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائیں گے۔