رحمن علی بھی کتنا بے وقوف ہے؟

نوجوان نے کہا ’’آپ جن نوجوانوں کو لیپ ٹاپ دے رہے ہیں یہ ایک دن آپ کی کرسی پر بیٹھیں گے‘‘ یہ سن کر وزیراعظم اپنی کرسی سے اٹھے‘ نوجوان کو گلے لگایا اور اسے لا کر اپنی کرسی پر بٹھا دیا، یوں نوجوان کی آرزو پوری ہو گئی۔

میڈیا نے یہ کلپ چینلز پر دکھایا‘ اخبارات میں خبر چھپ گئی‘ نوجوان سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا‘ حکومت کی مارکیٹنگ ٹیم نے فوری طور پر نوجوان کی آرزو اور وزیراعظم کی دریا دلی کو سرکاری اشتہار بنا دیا اور یہ اشتہار آج کل ہر ٹیلی ویژن چینل پر دن میں تیس مرتبہ دکھایا جاتا ہے۔

یہ واقعہ 11 جولائی کو پشاور میں پیش آیا تھا اور یہ پولیٹیکل اسٹنٹ کے لحاظ سے شان دار ہے‘ نوجوان نے جذبات کے اندھے پن میں اپنی احمقانہ خواہش کا اظہار کر دیا اور وزیراعظم نے مارکیٹنگ کی شان دار اور سستی اپارچونٹی کیچ کر کے واہ واہ کرا لی مگر سوال یہ ہے کیا یہ نوجوان یا اس بیک گراؤنڈ کا کوئی دوسرا نوجوان واقعی پاکستان کا وزیراعظم بن سکتا ہے؟
ہرگز ہرگز نہیں‘ وزارت عظمیٰ تو دور یہ نوجوان رحمن علی اس ملک میں مشیر یا وزیر بھی نہیں بن سکتا‘ کیوں؟ کیوں کہ ملک میں اس وقت چار بڑی سیاسی جماعتیں ہیں‘ پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ ن‘ پاکستان تحریک انصاف اور جے یو آئی ایف‘سوال یہ ہے کیا یہ نوجوان یا اس جیسے نوجوان چاروں جماعتوں کے قائد بن سکتے ہیں اور کیا یہ جماعتیں انھیں وزیر‘ مشیر‘ وزیراعظم اور صدر بنا سکتی ہیں؟

جی نہیں‘ حقیقت تو یہ ہے یہ جماعتیں گدیاں‘ جاگیریں اور بادشاہتیں ہیں‘ ان پر صرف زرداری‘ شریف اور مولانا اور ان کی آل اولاد بیٹھیں گی‘ یہ وراثت میں اگلی نسل کو منتقل ہوں گی اور ان کی اگلی نسل خواہ کتنی ہی نالائق‘ کوتاہ فہم اور کرپٹ کیوں نہ ہو‘ پارٹی بھی بہرحال ان کی ہے اور اقتدار بھی حتیٰ کہ ان پارٹیوں میں جاوید ہاشمی‘ چوہدری نثار اور خواجہ آصف کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔

خواجہ آصف میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز سے ذہنی اور اعصابی لحاظ سے کہیں بہتر ہیں‘ یہ دو نسلوں سے سیاست دان بھی ہیں‘ ان کے والد خواجہ صفدر نے قیام پاکستان سے پہلے سیاست شروع کی تھی اور یہ1962 میں اس وقت پورے مغربی پاکستان کے اپوزیشن لیڈر تھے جب شریف فیملی کا بزنس اور سیاست دونوں میں نام تک نہیں تھا۔

خواجہ صفدر سینیٹر بھی رہے اور جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ (قومی اسمبلی) کے اسپیکر بھی اور قائم مقام صدر بھی‘ خواجہ آصف ان کے صاحب زادے ہیں اور یہ 1991 سے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کی خواہش میں ہاتھ باندھ کر شریف فیملی کے پیچھے کھڑے ہیں مگر آج تک انھیں وہ کرسی نصیب نہیں ہوئی جس کے بارے میں نوجوان رحمن علی کا دعویٰ تھا کل ہم میں سے کوئی آپ کی کرسی پر بیٹھے گا‘ چوہدری نثار اور جاوید ہاشمی خواہش کی گٹھڑی اٹھا اٹھا کر تھک گئے تھے لہٰذا یہ لائن سے نکلے اور جا کر گھر بیٹھ گئے۔

خواجہ سعد رفیق‘ ایاز صادق اور شاہد خاقان عباسی کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے‘ ایک لیول کے بعد ان کی گنجائش بھی ختم ہو جاتی ہے‘ ن لیگ نے 2017 میں شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنایا لیکن اس کی وجہ ان کا پروفائل نہیں تھا‘ مجبوری تھی‘ عباسی صاحب کا کوئی گروپ نہیں تھا‘ یہ پہاڑیے ہیں اور اکیلے ہیں لہٰذا پارٹی اور خاندان کو ان سے کوئی خطرہ نہیں تھا‘ میاں نواز شریف نے انھیں شروع میں 45 دن کے لیے کرسی پیش کی۔

اس دوران میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر وفاق میں آنا تھا اور عباسی صاحب نے وزارت عظمیٰ کی کرسی گرم کر کے ان کے حوالے کر دینی تھی لیکن پھرخاندان کو محسوس ہواشہباز شریف کے بعد پنجاب کا کیا بنے گا؟ فوج حمزہ شہباز کو قبول نہیں کرے گی اور دوسری طرف خواجہ سعد رفیق بھی امیدوارہیں لہٰذا شاہد خاقان عباسی کا داؤ لگ گیا‘ یہ 10ماہ وزیراعظم رہے اور انھوں نے اس دوران اپنی ورکنگ سے بیورو کریسی اور فوج دونوں کے دل میں جگہ بنا لی‘ جنرل باجوہ اور تمام فیڈرل سیکریٹری آج بھی ان کی تعریف کرتے ہیں۔

یہ تمام فائلیں نبٹائے بغیر گھر نہیں جاتے تھے‘ چار چار گھنٹے کی میٹنگ لیتے تھے لیکن آخر میں فیصلہ کر کے اٹھتے تھے‘ پروٹوکول اور نمودونمائش کے بھی خلاف تھے اور ان کی یہ خوبیاں پارٹی میں ان کی خامیاں ثابت ہوئیں لہٰذا یہ اب آپ کو کسی جگہ دکھائی نہیں دے رہے‘ مارچ 2022 میں جنرل باجوہ نے شریف برادران کو مشورہ دیا تھا آپ شاہد خاقان عباسی‘ احسن اقبال یا خواجہ آصف کو وزیراعظم بنا دیں۔

آپ کا امیج بچ جائے گا لیکن وفاق تو چھوڑیے ’’پارٹی‘‘ کو پنجاب کے کیک میں بھی کسی کی شرکت گوارا نہیں تھی چناں چہ میاں شہباز شریف وزیراعظم بن گئے اور پنجاب حمزہ شہباز کے حوالے کر دیا گیا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ پوری دنیا کے سامنے ہے‘ پنجاب بھی گیا اور آج وفاق بھی خطرے میں ہے‘ ملک میں اگر الیکشن ہو گئے اور اگر ن لیگ جیت گئی تو پھر چار امیدوار میدان میں ہوں گے۔

میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف‘ مریم نواز اور حمزہ شہباز شریف‘ ملک میں پانچ بڑے عہدے ہیں‘ صدر‘ وزیراعظم‘ وزیر خارجہ‘ وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیر خزانہ‘ اسحاق ڈار ن لیگ کے مستقل وزیر خزانہ ہیں‘ یہ اگر نگران وزیراعظم نہ بنے تو یہ اگلی حکومت میں بھی وزیر خزانہ ہیں اور یہ اگر نگران وزیراعظم یا نگران وزیر خزانہ بن گئے تو یہ پھر مارچ میں چیئرمین سینیٹ ہوں گے اور صدر کی غیر موجودگی میں قائم مقام صدر‘ وزارت عظمیٰ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف دونوں کا حق ہے اگر بڑے حق دار کا فیصلہ نہ ہوا تو میاں نواز شریف صدر اور شہباز شریف وزیراعظم ہوں گے اور اگر میاں نواز شریف وزیراعظم بن گئے تو میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب ہوں گے اور حمزہ شہباز اور مریم نواز وفاق میں آ جائیں گے۔

مریم نواز وزیر خارجہ ہوں گی اور حمزہ شہباز تجارت اور صنعتی پیداوار یا پھر آئل اینڈ گیس اور واٹر اینڈ پاور کی وزارت پسند کریں گے لہٰذا رحمن علی تو دور پارٹی کے تیس تیس سال پرانے لیڈرز بھی کرسی کے نزدیک نہیں پہنچ سکیں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی میں بھی یہی صورت حال ہے‘گو پارٹی نے 2008 میں یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنایامگر اس کی تین وجوہات تھیں‘ اول آصف علی زرداری صدر بننا چاہتے تھے‘ یہ وزارت عظمیٰ کی مصروفیت میں اپنا وقت ضایع نہیں کرنا چاہتے تھے۔

دوم بلاول بھٹو کی عمر اس وقت 20 سال تھی‘یہ وزارت عظمیٰ کے لیے مقررہ حد سے چھوٹے تھے اور سوم پارٹی کی باگ آصف علی زرداری کے ہاتھ میں تازہ تازہ آئی تھی اور یہ تگڑے دھڑوں کو ناراض کرنے کا رسک نہیں لے سکتے تھے چناں چہ انھوں نے سندھ سید قائم علی شاہ اور وفاق یوسف رضا گیلانی کے حوالے کر دیا لیکن حکومت بہرحال زرداری صاحب کے پاس ہی رہی‘ بلاول بھٹو زرداری اب سمجھ دار ہو چکے ہیں چناں چہ پارٹی کی طرف سے اب یہ ہی وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں‘ آصفہ بھٹو بھی ماشاء اللہ ٹرینڈ ہو رہی ہیں‘ یہ بھی پانچ چھ سال میں ملک اور پارٹی کی قیادت کے قابل ہو جائیں گی۔

مولانا فضل الرحمن تیسری خاندانی جماعت کے سربراہ ہیں‘ یہ 43برس سے پارٹی کے صدر ہیں‘ یہ ماضی میں کشمیر کمیٹی کے سربراہ ہوتے تھے‘کیوں؟ کیوں کہ وہاں کام کم تھا اور وسائل بہت زیادہ لہٰذا مولانا خوش تھے‘ سیاست کے حالات تبدیل ہو چکے ہیں چناں چہ مولانا اب صدر بننا چاہتے ہیں‘ ان کے سمدھی حاجی غلام علی اس وقت کے پی میں گورنر اور صاحب زادے اسعد الرحمن کمیونی کیشن کے وفاقی وزیر ہیں۔

اس سے قبل 2009 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں مولانا کے بھائی عطاء الرحمن ٹورازم کے وفاقی وزیر رہے لہٰذا وزارتیں ہوں یا مشاورتیں یہ صرف اور صرف مولانا کے خاندان کا حق ہیں‘ آپ اسی طرح اے این پی کو بھی لے لیجیے‘ آپ اگر باچا خان کے خاندان سے ہیں تو پارٹی کی قیادت اور اہم وزارتیں دونوں آپ کا حق ہیں ورنہ دوسری صورت میں آپ بلور ہی کیوں نہ ہوں ایک خاص حد کے بعد آپ کے تمام پر جل جائیں گے اور پیچھے رہ گئی پی ٹی آئی تو سوال یہ ہے کیا پارٹی کا کوئی ورکر چیئرمین یا وزیراعظم بن سکتا ہے اور کیا یہ صرف اور صرف عمران خان کا حق نہیں؟ اور ان حالات میں بونیر کا نوجوان رحمن علی وزیراعظم کی کرسی پربیٹھنے کا خواہش مند ہے۔

اس کا خیال ہے یہ ایک لیپ ٹاپ کے ذریعے کبھی نہ کبھی وزیراعظم بن جائے گا‘ یہ کتنا بے وقوف شخص ہے یہ اتنا بھی نہیں جانتا اس کو وزیراعظم کی کرسی پر بٹھا کر اس کی صرف تصویر کھینچی جا سکتی ہے اور یہ تصویر بھی صرف اشتہار کا پیٹ بھر سکتی ہے‘ ملک کی اصل حقیقت یہ ہے یہاں خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق بھی آرزوؤں کی گٹھڑیاں اٹھا اٹھا کر قبر کے نزدیک پہنچ گئے ہیں جب کہ یہ نوجوان ایک لیپ ٹاپ اور کالج میں ٹاپ کر کے براہ راست وزیراعظم بننا چاہتا ہے۔

کاش یہ نوجوان یہ جان لے یہ پارٹیاں سیاسی جماعتیں نہیں ہیں‘ یہ فیکٹریاں اور جاگیریں ہیں اور جاگیروں اور فیکٹریوں کو لیڈرز نہیں چاہیے ہوتے مزدور اور غلام چاہیے ہوتے ہیں‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ کسی بھی پارٹی کا پروفائل اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو اس میں دانشور‘ پروفیسر‘ سائنس دان اور یونیورسٹی ٹاپر نہیں ملیں گے۔

کیوں نہیں ملیں گے؟ کیوں کہ یہ لوگ آزاد ہوتے ہیں‘ یہ غلامی کے لیے تیار نہیں ہوتے چناں چہ پارٹیوں کے دروازے ان کے لیے بند ہیں‘پارٹیوں میں صرف وہ لوگ آتے ہیں جو ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو سکیں اور واہ جی واہ کر سکیں‘ عمران خان اس صورت حال میں امید کی نئی کرن تھا‘ قوم کو اس سے بہت امیدیں تھیں لیکن یہ بھی حقائق کی دنیا سے نکل کر اس روحانی سمت نکل گیا جہاں سے پیر‘ مرید اور زائرین کی واپسی ممکن نہیں ہوتی چناں چہ میری نوجوان رحمن علی سے درخواست ہے آپ کو لیپ ٹاپ مل گیا‘ آپ کو مبارک ہو۔

آپ اب مہربانی فرما کر کرسیوں کا خواب دیکھنا بند کریں‘کوئی باعزت نوکری تلاش کریں اور شان دار زندگی گزاریں‘ وہ کرسی جس تک خواجہ آصف نہیں پہنچ سکا آپ اس کے سائے تک نہیں جاسکیں گے‘ بے وقوف نہ بنیں۔