کاش ہمارا چیئرمین

’’ہم اسے پکڑیں گے خواہ پورا بینک آف امریکا خالی کیوں نہ ہو جائے‘‘ یہ الفاظ صدر جارج بش کے منہ سے نکلے تھے‘ سی آئی اے کو 2005میں اطلاع ملی اسامہ بن لادن حیات ہے اور یہ افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر کسی گاؤں یا شہر میں روپوش ہے اور سی آئی اے کو اسے تلاش کرنے کے لیے صدر کی خصوصی اجازت درکار ہے۔

کیوں؟ کیوں کہ آپریشن کے لیے رقم چاہیے تھی اور یہ رقم صرف صدر فراہم کر سکتا تھا چناں چہ سی آئی اے کا چیف صدر کے پاس چلا گیا‘ صدر بش نے پوچھا’’ آپریشن کے لیے کتنی رقم درکار ہے؟‘‘ چیف نے جواب دیا‘ ہم سردست کچھ کہہ نہیں سکتے‘ صدر نے پوچھا ’’اور وقت کتنا چاہیے؟‘‘ اس کا جواب پھر وہی تھا ’’ہم کچھ نہیں کہہ سکتے‘ سال بھی لگ سکتا ہے اور دو دہائیاں بھی‘‘ صدر نے لمبی سانس لی اور کہا ’’ڈن تم لادن کی تلاش شروع کرو‘ ہم اسے پکڑیں گے خواہ پورا بینک آف امریکا ہی خالی کیوں نہ ہو جائے‘‘ اور یوں سی آئی اے نے اگلے ہی دن کام شروع کر دیا۔

جارج بش 2009تک صدر رہا‘ اگلے چار سال صدر نے آپریشن نہیں رکنے دیا‘ اس پر اربوں ڈالر خرچ ہوئے‘ صدر یہ رقم خصوصی اختیارات کے تحت جاری کرتا رہا‘ جارج بش کے بعد بارک حسین اوباما صدر بن گئے‘ جارج بش نے اسامہ بن لادن کی فائل ان کے حوالے کی اور وائٹ ہاؤس سے رخصت ہو گیا‘ صدر اوباما نے بعدازاں تسلیم کیا میں نے کئی بار سوچا‘ میں یہ آپریشن بند کرا دیتا ہوں۔

مجھے یہ سعی لاحاصل محسوس ہوتا تھا‘ہم 2011کے شروع تک ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھے تھے لیکن مجھے ہر بار جارج بش کا یقین اور کنوکشن (Conviction) روک لیتی تھی‘بہرحال یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ سی آئی اے مارچ 2011تک اسامہ بن لادن کے ٹھکانے تک بھی پہنچ گئی اور اس نے اس کی وہاں موجودگی کی تصدیق بھی کر لی‘ قصہ مزید مختصر امریکا نے دو مئی 2011 کی درمیانی رات ایبٹ آباد میں آپریشن کیا۔

اسامہ بن لادن کو قتل کیا اور اس کی میت افغانستان لے گیا‘ آپریشن کی تکمیل کے بعد صدر اوباما نے جارج ڈبلیو بش کو فون کیا‘ یہ اس وقت ٹیکساس میں اپنے فارم ہاؤس پر تھے‘ صدر اوباما نے انھیں دعوت دی‘ یہ آپریشن آپ نے اسٹارٹ کیا تھا لہٰذا آپ واشنگٹن آ جائیں‘ ہم دونوں مل کر دنیا کو اس صدی کی سب سے بڑی خبر دیتے ہیں۔

جارج بش نے یہ پیش کش سن کر صدر اوباما کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد کہا‘ مسٹر پریذیڈنٹ‘ میں اپنی مدت پوری کر کے گھر آ گیا ہوں اور اپنی ریٹائرمنٹ ایج انجوائے کر رہا ہوں‘ اس وقت آپ امریکا کے صدر ہیں‘ آپ جانیں‘ اسامہ بن لادن جانے‘ سی آئی اے جانے اور میڈیا جانے‘ آپ میری طرف سے معذرت قبول کر لیں‘جارج بش نے اس کے بعد فون بند کیا‘ وہ اپنے پسندیدہ گھوڑے کے پاس گیا‘ اس کی کمر پر تھپکی دی‘ چھلانگ لگا کر اس کی پیٹھ پر بیٹھا اور اپنے فارم ہاؤس کے چکر لگانے لگا۔

صدر جارج بش کی طرح دنیا بھر کے حکمران اپنی مدت حکمرانی کے بعد پرائیویٹ لائف کو انجوائے کرتے ہیں‘ بل کلنٹن یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتا ہے اور گالف کھیلتا ہے‘ آپ نے اسے کبھی لائم لائٹ میں نہیںدیکھا ہو گا‘ جمی کارٹر 98برس کی عمر میں اپنے گاؤں کے چرچ میں لیکچر دیتا ہے‘ صدر اوباما کتابیں لکھ رہے ہیں اور نیٹ فلکس کے ساتھ مل کر فلمیں‘ سیریز‘ڈاکومنٹریز اور فیچر فلمز بنا رہے ہیں۔

برطانیہ میں جان میجر ریٹائرمنٹ کے بعد لارڈز کے اسٹیڈیم میں کرکٹ میچ دیکھا کرتے تھے‘ مارگریٹ تھیچر 11سال برطانیہ کی وزیراعظم رہنے کے بعد سارا دن کتابیں پڑھتی تھی اور اپنی بطخوں کو دانا ڈالتی تھی‘ صدر یاک شیراک12برس فرانس کا صدر رہا‘ یہ ریٹائرمنٹ کے بعد چھوٹے چھوٹے ٹاؤنز اور دیہات کی سیر کیا کرتا تھا‘ من موہن سنگھ بھارت کا10سال وزیراعظم رہا‘ یہ اس کے بعد گردواروں کے فرش دھوتا تھا‘ یاتریوں کے جوتے صاف کرتا تھا اور اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ کھیلتا تھا۔

اٹل بہاری واجپائی 6سال وزیراعظم رہنے کے بعد کتابیں پڑھتا اور لتا منگیشگر کے گانے سنتا تھا‘ وہ بھجن بھی گاتا تھا اور بوڑھے دوستوں کے ساتھ گپ بھی لگاتا تھا اور جاپان میں اس وقت 18 سابق وزراء اعظم ہیں‘ یہ سائیکل چلاتے ہیں‘ یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتے ہیں‘ کھیتی باڑی کرتے ہیں اور سوشل ورک میں وقت گزارتے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان میں کیا ہوتا ہے؟ ہمارے وزراء اعظم کے پاس صرف دو آپشن ہوتے ہیں۔

اقتدار اور جیل‘ آپ اقتدار میں رہیں گے یا پھر سیدھے جیل جائیں گے‘آپ ایک دن وزیراعظم ہوتے ہیں اور اگلے دن سی کلاس میں نیچے فرش پر لیٹے ہوتے ہیں اور آپ اگر خوش قسمتی سے جیل سے بچ بھی جائیں تو بھی آپ کو عدالتوں اور مقدمات کی ذلت ضرور دیکھنی پڑتی ہے اور اس ذلت کے دوران سابق وزراء اعظم یہ فیصلہ کر لیتے ہیں مجھے اب کچھ بھی کرنا پڑا میں اقتدار میں واپس آؤں گا اور ان تمام لوگوں کو ناک سے لکیریں نکلواؤں گا جنھوں نے مجھے ذلیل کیا اور یوں یہ میوزیکل چیئر دوبارہ شروع ہو جاتی ہے۔

آپ کسی دن پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لے لیں‘آپ حیران رہ جائیں گے‘ مثلاً آپ دیکھیں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ وہ ایک وقت میں عالم اسلام کے سب سے بڑے لیڈر تھے‘ انھوں نے لاہور میں اسلامک سمٹ بلا کر مسلم امہ کو اکٹھا کر لیا لیکن اس کے بعد وہ جیل پہنچے اور ان کا کیریئر پھانسی گھاٹ پر پہنچ کر ختم ہوا‘ جنرل ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں مارے گئے۔

یہ بھی اگر زندہ ہوتے تو ان کے ساتھ بھی بھٹو جیسا سلوک ہوتا‘ جنرل ضیاء الحق کے بعد میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان جیلوںکی میوزیکل چیئر شروع ہوگئی اور یہ دونوں ایک دوسرے کو جیلوں اور عدالتوں میں گھسیٹتے رہے‘ انتقام اور اقتدار کے اس کھیل میں آصف علی زرداری کے 11 سال جیلوں کی نذر ہو گئے جب کہ بے نظیر بھٹو کو جلاوطنی کا ٹنا پڑ گئی۔

میاں نواز شریف کو بھی دو بار جیلیں اور جلاوطنیاں دیکھنی پڑیں‘ میاں شہباز شریف‘ شاہدخاقان عباسی‘ حمزہ شہباز اور مریم نواز کے ساتھ بھی کیا کیا نہیں ہوا اور یہ کس کس جیل میں خوار نہیں ہوئے؟ عمران خان اقتدار میں آئے تو یہ اسٹیبلشمنٹ کی ڈارلنگ تھے‘ یہ طاقت کے گھوڑے پر بیٹھ کر سیاست دانوں کے پنکھے اور اے سی بند کراتے رہے‘ یہ رانا ثناء اللہ جیسے سیاست دانوں پر ہیروئن ڈالواتے رہے‘ یہ سیاسی مخالفین کو مونچھوں سے بھی پکڑتے رہے لیکن آج وہ عمران خان کہاں ہیں؟ جو ڈیڑھ سال پہلے تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ورلڈ کپ جیت رہے تھے‘ مہاتیر محمد اور اردگان کو حکومت کرنے کے طریقے بتا رہے تھے‘ چین کے صدر کو اسلامی معیشت پر آدھ آدھ گھنٹے لیکچر دیتے تھے۔

سعودی ولی عہد کی ڈرائیوری میں ائیرپورٹ آتے اور جاتے تھے‘ جو آرمی چیف کو ایکسٹینشن دے رہے تھے‘ صدر عارف علوی کو عارف کہہ کر بلاتے تھے‘ جو پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیرعلیٰ بنا رہے تھے‘ قومی اسمبلی سے استعفے دے رہے تھے‘ اسمبلیاں توڑ رہے تھے اور ہزاروں گاڑیوں کے قافلوں میں ہائی کورٹ جا رہے تھے اور ان کے متاثرین ان کی گرفتاری پر فوجی تنصیبات پر حملے کر دیتے تھے۔

چیف جسٹس آف پاکستان انھیں اپنا مہمان بنا رہے تھے اور انھیں مرسڈیز گاڑی میں عدالت میں بلا کر انھیں ’’گڈ ٹو سی یو‘‘ کہہ رہے تھے لیکن وہ عمران خان آج کہاں ہیں؟ وہ اٹک جیل کے گیارہ بائی دس فٹ کے اس سیل میں ہیں جہاں بیڈ ہے اور نہ ہی اے سی اور انھیں گھر کے کھانے کی سہولت تک دستیاب نہیں ‘ سیل میں گرمی بھی ہے اور حبس بھی‘ لائٹ بھی بار بار بند ہو جاتی ہے اور ٹونٹی میں پانی بھی نہیں آتا‘ سیل میں اوپن واش روم ہے۔

شاور بھی نہیں‘ کھانے میں بھی دال روٹی ملتی ہے اور جاگنگ اور واک کی سہولت بھی نہیں‘ سیل میں دن بھر مکھیاں بھنبھناتی رہتی ہیں اور رات کے وقت کیڑے اور کاکروچ رینگنے لگتے ہیں‘کپتان کے پاس جائے نماز تک بچھانے کی جگہ نہیں چناں چہ آج اگر چیئرمین کی زندگی کو چار دسمبر‘ جنوری 2023‘ مئی 2022 اور مارچ 2022 چار حصوں میں تقسیم کیا جائے تو اس میں زمین آسمان کا فرق دکھائی دے گا‘ کہاں ایک وقت تھا یہ عثمان بزدار اور محمود خان کو وزراء اعلیٰ اور عمران اسماعیل اور چوہدری سرور کو گورنر بنا دیا کرتے تھے۔

یہ عارف علوی کو صدر‘ اسد قیصر کو اسپیکر اور جنرل باجوہ کو مزید تین سال آرمی چیف بنا دیتے تھے‘یہ صدر شی جن پنگ‘ وزیراعظم مہاتیر محمد اور طیب اردگان کو گائیڈ کرتے تھے اور سعودی عرب اور ایران کے درمیان ساڑھے چودہ سو سال پرانا تنازع ختم کرانے کی کوشش کرتے تھے اور کہاں آج یہ ساری ساری رات مچھر مارتے رہتے ہیں۔

انھیں گولی کھانے کے بعد بھی نیند نہیں آتی اور یہ اپنے وکلاء سے کہتے ہیں ’’جو بھی کرنا پڑے کرو لیکن مجھے جیل سے نکالو‘‘آپ اگر یہ دونوں انتہائیں دیکھیں گے تو آپ کو ان کے درمیان بہت فاصلہ ملے گا‘ یہ فاصلہ کیوں ہے؟

کیا ہمارے وزراء اعظم بھی دنیا کے دوسرے حکمرانوں کی طرح عزت کے ساتھ ریٹائر نہیں ہو سکتے اور کیا یہ بھی اقتدار کے بعد آرام سے زندگی نہیں گزار سکتے اور اگر ایسا ممکن نہیں تو کیاپھر یہ لوگ اپنے لیے کوئی آرام دہ جیل نہیں بنا سکتے اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو کیا یہ لوگ انصاف کو آسان اور جیلوں کو آرام دہ نہیں بنا سکتے۔

کیوں؟ کیوں کہ اگر عدالتیں اور جیلیں ہی ان کا مقدر ہیں تو یہ لوگ ایک ہی بار اپنے آخری ٹھکانوں کو بہتر کیوں نہیں بنا لیتے؟ مجھے آج تک اس سوال کا جواب نہیں مل سکا‘ کاش ہمارا چیئرمین آج بھی سمجھ جائے‘ کاش یہ جیل اسے حقائق سے آگاہ کر دے‘ کاش‘ اے کاش۔