میرا چیئرمین

عرب بدو اپنے اونٹوں کو زمین پر بٹھا کر ان کی ایک ٹانگ گھٹنے کے ساتھ باندھ دیتے تھے جس کے بعد ٹانگ انگریزی حرف وی بن جاتی ہے‘ اونٹ اس کے بعد جب کھڑے ہوتے تھے تو ان کی تین ٹانگیں زمین کے ساتھ لگ جاتی تھیں لیکن چوتھی ٹانگ ہوا میں معلق رہتی تھی‘ اونٹ اس عالم میں کھا‘ پی اور لیٹ تو سکتے تھے لیکن وہ بھاگ نہیں سکتے تھے۔

اونٹوں کی چوتھی ٹانگ کو جس رسی سے باندھا جاتا تھا بدو اسے اپنی زبان میں عقل کہتے تھے‘ لفظ عقل کا ماخذ یہی رسی ہے‘ ہم جب کسی شخص کو ’’عقل کرو‘‘ کہتے ہیں تو اس کا سیدھا سادا مطلب ہوتا ہے اپنی ایک ٹانگ باندھ لو یعنی اپنی دوڑ بھاگ کم کر دو‘ ٹھنڈا کر کے کھاؤ‘ احساس کرو‘ رک جاؤ‘ اپنی اوقات دیکھو‘ صبر کرو اور حالات کو بدلنے دو وغیرہ وغیرہ لیکن انسان بھی بہت بدبخت چیز ہیں۔

ہم سب کچھ کریں گے لیکن عقل نہیں کریں گے چناں چہ ہم کسی نہ کسی مسئلے میں پھنسے رہتے ہیں اور عمران خان اس بے صبری کی تازہ ترین مثال ہیں۔

سیشن جج ہمایوں دلاور نے پانچ اگست کی دوپہر ساڑھے بارہ بجے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ سنا دیا‘ ہمارے چیئرمین اس وقت زمان پارک میں تھے۔

میں آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں چیئرمین اپنا زیادہ وقت زمان پارک میں کیوں گزارتے تھے؟ اس کی تین وجوہات تھیں‘ بنی گالا اسلام آباد میں آتا ہے اور ان کا خیال تھا مجھے وفاقی حکومت کسی بھی وقت راستے سے گرفتار کر لے گی۔

دوسری وجہ‘ زمان پارک کا گھر بشریٰ بی بی کو حق مہر میں مل چکا ہے‘ ان کا خیال تھا مانیکا فیملی میری غیر موجودگی میں آئے گی اور یوں یہ گھر ان کے قبضے میں چلا جائے گا اور تیسری وجہ ان کی غیر موجودگی میں پولیس بشریٰ بی بی کو آسانی سے گرفتار کرلے گی۔

یہ تین ٹھوس وجوہات تھیں‘ 9مئی سے قبل ایک چوتھی وجہ بھی ہوتی تھی اور وہ تھی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ‘ یہ چیئرمین صاحب کو ان جرائم میں بھی ضمانت دے دیتے تھے جو ابھی سرزد ہی نہیں ہوئے چناں چہ چیئرمین ان کے قریب رہنا چاہتے تھے مگر نو مئی کے بعد ہواؤں کا رخ بدل گیا اور یہ دروازہ بھی تقریباً بند ہو گیا لہٰذا اب صرف تین وجوہات ہی تھیں۔

بہرحال پانچ اگست کا دن آیا‘ جج ہمایوں دلاور کا آرڈر آیا اور پنجاب پولیس کو آدھ گھنٹے میں چیئرمین کی گرفتاری کا حکم دے دیا گیا‘ پولیس کے دو سو اہلکار زمان پارک پہنچ گئے‘ چیئرمین کے گارڈز گھر کے باہر کھڑے تھے‘ ڈی آئی جی نے انھیں وارنٹ دکھایا اور انھیں مشورہ دیا آپ ہمیں اپنا کام کرنے دیں۔

آپ کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں ہو گی‘ گارڈز سمجھ دار تھے‘ انھوں نے ڈی آئی جی کو سیلوٹ کیا اور مین گیٹ سے ہٹ گئے یوں پولیس گھر کے اندر داخل ہو گئی‘ چیئرمین کا بیڈ روم بلٹ پروف بھی تھا اور اس کے سامنے مسلح گارڈز بھی کھڑے تھے‘ پولیس نے انھیں بھی ’’کوآپریشن‘‘ کا مشورہ دیا۔

وہ مزاحمت کرنا چاہتے تھے لیکن پولیس کے تیور دیکھ کر ہمت نہ ہوئی‘ ڈی آئی جی نے بیڈروم کے دروازے پر دستک دے کر چیئرمین سے باہر آنے کی درخواست کی مگر دوسری طرف سے انکار کر دیا گیا‘ پولیس نے تھوڑی دیر انتظار کیااور اس کے بعد دروازہ توڑنے کا عمل شروع ہو گیا‘ دروازہ بلٹ پروف تھا مگر ریاست اس سے زیادہ تگڑی تھی چناں چہ دروازہ آٹھ منٹ میں ہمت ہار گیا‘ دروازہ گرنے کے قریب تھا کہ اندر سے لاک کھول دیا گیا۔

پولیس نے دروازہ کھولا تو سامنے بشریٰ بی بی کھڑی تھیں‘ چیئرمین صاحب ان کی آڑ میں کھڑے تھے‘ ایس ایس پی نے بشریٰ بی بی سے کہا ’’بہن ہمارے پاس کورٹ آرڈرز ہیں‘ ہم نے ہر صورت چیئرمین کو گرفتار کرنا ہے۔

آپ کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں ہو گی‘ آپ ہمیں اپنا کام کرنے دیں‘‘ بشریٰ بی بی نے چند سیکنڈ سوچا اور پھر وہ بھی سامنے سے ہٹ گئیں‘ پولیس نے چیئرمین کو گرفتار کر لیا‘ وہ اس وقت ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں تھے‘ ایس ایس پی انھیں لے کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔

انھیں سیدھا ایئرپورٹ لایا گیا‘ چیئرمین کو خصوصی جہاز کے ذریعے اسلام آباد پہنچانے کا حکم تھا لیکن پھر پلان تبدیل ہو گیا اور نئے پلان کے لیے وقت درکار تھا چناں چہ چیئرمین کو ایئرپورٹ پر بٹھا دیا گیا اور پولیس نے ان کے ساتھ گفتگو شروع کر دی۔

چیئرمین کا خیال تھا ’’یہ ناانصافی ہے‘میں نے کیا جرم کیا ہے جس کی سزا دی جا رہی ہے؟‘‘ پولیس افسروں نے انھیں ان کے دور کی نا انصافیاں گنوانا شروع کر دیں‘ ایک افسر نے بتایا‘ مجھے آپ کے دور میں تین صوبوں میں گھمایا گیا اور تینوں میں خوف ناک کرپشن تھی‘میں بھی اگر پیسے دے دیتا تو پنجاب میں رہتا‘ چیئرمین کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا‘ ایک پولیس افسر نے پوچھا ’’آپ کو اگر کھانے کی کوئی چیز چاہیے تو میں لا دیتا ہوں‘‘ چیئرمین نے صرف پانی مانگا‘ انھیں پانی کی بوتل لا دی گئی۔

اس کے بعد انھوں نے اپنی شیونگ کٹ اور کپڑوں کی فرمائش کی‘ ڈی آئی جی نے اپنے ڈی ایس پی کو فون کیا‘ وہ اس وقت تک زمان پارک میں تھا‘ ڈی ایس پی نے بشریٰ بی بی سے چیئرمین کا بیگ مانگا‘ بی بی نے شیونگ کٹ اور کپڑوں کا بیگ اس کے حوالے کر دیا اور یہ بیگ بعدازاں چیئرمین تک پہنچا دیا گیا‘ چیئرمین کو بعدازاں گاڑی میں بٹھا کر اسلام آباد روانہ کر دیا گیا۔

چیئرمین کو اپنی گرفتاری کا یقین نہیں آ رہا تھا‘ وہ گھر میں پولیس دیکھ کر بھی حیران تھے اور سارا راستہ بھی پریشان رہے‘ جیل چیئرمین کی سب سے بڑی کم زوری ہے‘ یہ بند کمرے کے فوبیا کا شکار ہیں‘ عدلیہ بحالی کے زمانے میں یہ سات دن جیل میں رہے تھے‘ یہ سات دن ان کی زندگی کے مشکل ترین دن تھے‘ یہ آج بھی جب انھیں یاد کرتے ہیں تو ان کی آواز میں تکلیف اور درد آ جاتا ہے۔

اپریل 2022میں جب میری ان سے آخری ملاقات ہوئی تو انھوں نے فواد چوہدری اور شہباز گل کی موجودگی میں اعتراف کیا ’’ جیل میں میرا دن آرام سے گزر جاتا تھا لیکن رات کے وقت جوں ہی سیل کے دروازے بند کیے جاتے تھے تو میرا دل بند ہو جاتا تھا اور میں چیخنے پر مجبور ہو جاتا تھا‘ مجھے محسوس ہوتا تھا میں مر جاؤں گا‘‘ فواد چوہدری نے انھیں اشارے سے چپ کرانے کی کوشش کی مگر وہ بولتے چلے گئے اور میں ہنستا رہا‘ آج میرے چیئرمین کی صورت حال کیا ہو گی؟ میں تصور کر سکتا ہوں اور کیا یہ صورت حال عارضی ہو گی؟

میں اس کے بارے میں دعوے سے کچھ نہیں کہہ سکتا تاہم میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں جیل وہ واحد جگہ ہے جہاں سے میرا چیئرمین دو بڑے فیصلے کر سکتا ہے‘یہ سیاست سے ہمیشہ کے لیے تائب ہو جائے اور ملک سے باہر چلا جائے‘ یہ اگر سعودی عرب کے لیے راضی ہو جائیں تو انھیں بھی سرور پیلس میں ٹھہرا دیا جائے گامگر یہ وہاں انٹرویو دے سکیں گے اور نہ باہر جا سکیں گے۔

اس ڈیل کے لیے بھی انھیں عارضی طور پر سیاست سے تائب ہونا پڑے گا اور میرا خیال ہے چیئرمین یہ فیصلہ جتنا جلد کر لیں گے ان کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا‘ چیئرمین نے 2017 میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو میاں نواز شریف کے خلاف استعمال کیا تھا‘ نواز شریف اپنی بیٹی سمیت گرفتار ہوئے‘ عدالتوں اور جیلوں میں طویل خواری برداشت کی اور جلاوطنی بھی دیکھی جس کے بعد چیئرمین ساڑھے تین سال تک ’’ون پیج‘‘ انجوائے کرتے رہے لیکن پھر وہی ہوا‘ دوسری ایکسٹینشن سے پہلے خان بھی سڑکوں پر آ گیا۔

چیئرمین کو اب اگلی ڈیل اگست 2025میں ملے گی‘ اسے پورے دو سال انتظار کرنا پڑے گا اور اس وقت بھی اگر میاں شہباز شریف یا بلاول بھٹو کی حکومت ہوئی تو یہ ڈیل بھی نہیں ہو سکے گی‘ پاکستان میں اس وقت صرف ایک لیڈر بچا ہے جس کے ساتھ عمران خان کا اتحاد ہو سکتا ہے اور وہ ہے نواز شریف‘ یہ دونوں وہ لوگ ہیں جن پر اسٹیبلشمنٹ اعتماد کے لیے تیار نہیں باقی سب ’’سولجرز ودآؤٹ یونیفارم‘‘ ہیں اور چیئرمین کے لیے دوسرا آپشن طویل جیل ہے‘ یہ مردوں کی طرح جیل کاٹیں اور لیڈر بن کر باہر آئیں۔

اب سوال یہ ہے کیا چیئرمین حقیقتاً ایک برا انسان ہے؟ اس کا سیدھا اور سادا جواب ہے ہرگز نہیں‘ یہ شخص واقعی ملک کو بدلنا چاہتا ہے لیکن اس میں پانچ خوف ناک خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے یہ ہمیشہ مار کھا جاتا ہے‘ یہ مردم شناس نہیں ہے‘ یہ ہمیشہ کم زور‘ بزدل اور منافق لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لیتا ہے اور اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو اس وقت نکل رہا ہے۔

دوسرا یہ ایک ہی وقت میں سب سے جنگ چھیڑ لیتا ہے‘ فواد چوہدری انھیں بار بار سمجھاتا رہا سر ہم نے اگر سیاست دانوں سے لڑنا ہے تو پھر ہمیں اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ رکھنا ہوگا اور ہم نے اگر اسٹیبلشمنٹ سے لڑنا ہے تو پھر ہمیں سیاست دانوں سے بنا کر رکھنی ہو گی‘ ہم سب سے لڑ کر نہیں جیت سکتے اور خان یہ غلطی کرتارہا‘ تیسرا یہ ضعیف العقیدہ ہے‘ یہ چالیس سال سے جنوں‘ بھوتوں ‘ تعویزوں اور پھونکوں میں پھنسا ہوا ہے اور اﷲ کو یہ فعل قطعاً پسند نہیں‘ چوتھا یہ بے تحاشا بولتا ہے۔

یہ روزانہ قوم سے خطاب کرتا ہے اور اوور ایکسپوژر لیڈر شپ کے لیے اتنا ہی خطرناک ہوتا ہے جتنا لوہے کے لیے زنگ اور پانچواں یہ بے وفا انسان ہے‘ یہ کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتا‘ لوگوں کو استعمال کرتا ہے اور پھینک دیتا ہے۔

یہ آج اپنی اس خامی کی وجہ سے اکیلا ہو چکا ہے‘ میرا ذاتی خیال ہے یہ اگر اپنی ان خامیوں پر قابو پا لے اور مردوں کی طرح جیل برداشت کر لے تو یہ واپس بھی آئے گا اور ملک کو بدل کر بھی رکھ دے گا‘ کیوں؟ کیوں کہ لوگ اس پر یقین کرتے ہیں اور یہ دولت آج تک کسی پاکستانی لیڈر کو نصیب نہیں ہوئی لہٰذا میرا چیئرمین اگر آج اپنی ایک ٹانگ پر عقل کی گانٹھ مار لے تو یہ واقعی قائداعظم ثانی ثابت ہو سکتا ہے‘یہ ملک بدل سکتا ہے۔