ہماری سفارتی حماقتیں

ایٹو ٹاکیشی (Ito Takeshi) پاکستان میں جاپان کے ڈپٹی چیف آف مشن ہیں‘ یہ انتہائی سمجھ دار‘ تجربہ کار اور منجھے ہوئے سفارت کار ہیں‘ مجھے چند دن قبل انھوں نے اپنے گھر کھانے کی دعوت دی‘ میں نے ان کے جاپانی کلچر‘ کھانے اور سفارت کاری تینوں کو خوب انجوائے کیا۔

میں نے گفتگو کے دوران ایٹو ٹاکیشی کو بتایا قائداعظم نے قیام پاکستان کے لیے 14 اگست کا انتخاب جاپان کی وجہ سے کیا تھا‘ وہ یہ سن کر بہت حیران ہوئے‘ میں نے انھیں بتایا ہندوستان کا آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن تعیناتی سے پہلے اتحادی فوج کی ساؤتھ ایسٹ ایشیا کمانڈ کا سربراہ تھا‘ جاپان نے اس کی سربراہی میں 15 اگست 1945 کو سرینڈر کیا تھا‘ یہ اس کے بعد ہندوستان کا وائسرائے بن گیا۔

بھارت اور پاکستان کی تقسیم کا وقت آیا تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 15 اگست کا دن تجویز کیا‘ برطانیہ اس دن جاپان کی فتح کی دوسری سالگرہ منا رہا تھا‘ وائسرائے کا خیال تھا یوں اس کے پروفائل میں دو پندرہ اگست لکھے جائیں گے۔
15 اگست 1945 اور 15 اگست 1947‘ یہ تجویز جب قائداعظم اور جواہر لال نہرو کے سامنے رکھی گئی توقائد اعظم نے یہ کہہ کر مسترد کر دی ہم اپنے قیام کا دن جاپان جیسی بہادر قوم کی شکست کے دن پر نہیں رکھنا چاہتے جب کہ جواہر لال نہرو نے یہ آفر خوشی سے قبول کر لی چناں چہ بھارت اور پاکستان دونوں ملک ایک ہی دن آزاد ہوئے لیکن ہم پاکستانی یوم آزادی 14 اگست کو مناتے ہیں جب کہ بھارت میں یہ دن 15 اگست کو عین اس دن منایا جاتا ہے جب جاپان نے سرینڈر کیا تھا‘ ایٹو سمجھ دار سفارت کار ہے۔

اس نے مجھے یہ تاثر نہیں دیا کہ یہ اس حقیقت سے ناواقف تھا مگر مجھے محسوس ہوا ہم لوگوں نے اسے یہ تاریخی حقیقت نہیں بتائی تھی‘ میں نے اسے یہ بھی بتایا دوسری جنگ عظیم میں سب سے زیادہ اموات ہندوستانی فوجیوں کی ہوئی تھیں لہٰذا برطانیہ ہر سال جاپان سے جتنا تاوان جنگ وصول کرتا تھا اس کا بڑا حصہ ہندوستان کو ملتا تھا۔

اس رقم میں پاکستان کا چھٹا حصہ تھا مگر قائداعظم نے جاپان کو اس وقت یہ رقم معاف کر دی تھی جب ہمارے خزانے میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا پیسہ بھی نہیں تھا لہٰذا جاپان کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات قیام سے پہلے استوار ہو گئے تھے‘ ایٹو نے اس پر مسرت کا اظہار کیا۔

مجھے محسوس ہوا ہم شاید جاپانیوں کو بھی اپنی سفارتی تاریخ سے مطلع نہیں کر سکے لہٰذا جاپان کے ساتھ بھی ہمارے وہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں جو ہونے چاہیے تھے۔

ہم اگر ان تعلقات کو باقاعدہ وقت دیتے‘ ہمارے وزراء خارجہ اور وزراء اعظم جاپان کے مسلسل دورے کرتے رہتے‘ ہم اگر جاپان اور جاپان ہم سے سفارتی مدد لیتا رہتا تو شاید آج دونوں ملکوں کے درمیان ویزہ فری آمدورفت ہوتی اور ہمارے لاکھوں ورکرز جاپان اور جاپان کے ہزاروں ماہرین پاکستان میں کام کر رہے ہوتے مگر افسوس ہم ان تعلقات کو بھی عملی شکل نہ دے سکے اور آج جاپان بھی ہم سے اتنے ہی فاصلے پر ہے جتنے فاصلے پر یورپ‘ امریکا اور کینیڈا ہیں‘ہمارا اب بھی زیادہ نقصان نہیں ہوا‘ ہم اگر آج اپنی سفارتی حماقتوں کا تخمینہ لگا کر سفارت کاری کے ’’ایس او پیز‘‘ طے کرلیں تو ہم اقوام عالم میں دوبارہ قدموں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔

ہم اگر زیادہ نہ کریں تو بھی ہم دنیا کے مختلف ملکوں پر اپنے سفارتی احسانات کی فہرست بنائیں‘ اپنے لوگوں کو یہ رٹائیں اور یہ جب بھی اس ملک کے سفارتی عملے سے ملیں تو یہ انھیں اپنے تعلقات کی سفارتی تاریخ سے مطلع کریں‘ اس سے بھی اجنبیت کی دیواریں چھوٹی ہوں گی اور ہمارے سفارتی تعلقات میں اضافہ ہو گا مثلاً ہم نے آج کی دو سپر پاورز امریکا اور چین کو ایک میز پر بٹھایا تھا اور یہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا سفارتی واقعہ تھا۔

جنرل یحییٰ خان نے 1971میں چین اور امریکا کے درمیان پل کا کردار ادا کیا تھا‘ امریکا میں اس وقت رچرڈ نکسن کی حکومت تھی اور ہنری کسنجر ان کے قومی سلامتی کے مشیر تھے‘ جنرل یحییٰ خان صدر رچرڈ نکسن کو اپنے ہاتھ سے خط لکھتے تھے‘ اس خط کو خود سیل لگاتے تھے اور یہ خط بعدازاں پاکستان کے امریکا میں سفیر آغا ہلالی صدر کو وائیٹ ہاؤس پہنچاتے تھے‘ دو صدر اس معاملے کو خفیہ رکھنے کے لیے خط ٹائپ بھی نہیں کراتے تھے۔

اس ’’لیٹر ڈپلومیسی‘‘ کے نتیجے میں 9 جولائی 1971کو ہنری کسنجر پاکستان آئے‘ ان کا پیچھا کرتے ہوئے برطانیہ‘ امریکا اور روس کا میڈیا بھی اسلام آباد پہنچ گیا‘ جنرل یحییٰ خان میڈیا کو چکر دینے کے لیے نتھیا گلی کے ایوان صدر میں منتقل ہو گئے‘ ہنری کسنجر سے ملتا جلتا ایک گورا تیار کیا گیا‘ پی ٹی وی کے میک اپ آرٹسٹ سے اس کا کسنجر جیسا حلیہ بنوایا گیا اور اس جعلی کسنجر کو صدارتی موٹر کیڈ میں اسلام آباد سے نتھیا گلی روانہ کر دیا گیا۔

انٹرنیشنل میڈیا اس کے پیچھے دوڑ پڑا جب کہ دوسری طرف سے ہنری کسنجر کو چک لالہ ائیرپورٹ سے بیجنگ روانہ کر دیا گیا‘ہنری کسنجر نے چین میں وزیراعظم چو این لائن اورچیئرمین ماؤزے تنگ سے خفیہ ملاقات کی‘ ملاقات امریکا اور چین کا پہلا باقاعدہ سفارتی رابطہ تھی۔

ہنری کسنجر چین سے واپس راولپنڈی آیا‘ جعلی کسنجر کو بھی اس دوران سرکاری پروٹوکول کے ساتھ نتھیا گلی سے اسلام آباد لایا گیا اور اس کا اصلی کے ساتھ تبادلہ کر دیا گیا اور یوں ہنری کسنجر یحییٰ خان کے ساتھ تصویریں اتروا کر امریکا واپس چلا گیا اور اس ملاقات کے نتیجے میں21 فروری 1972 کو رچرڈ نکسن نے چین کا پہلا صدارتی دورہ کیا اور آج امریکا اور چین دونوں سپر پاورز ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی میز پر بیٹھی ہیں۔

ہنری کسنجر کی عمر اس وقت سو سال ہے اور یہ 52سال بعد 18 جولائی کو ایک بار پھر چین کے دورے پر گیا‘ میں نے چند دن قبل اس کی چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ تصویریں دیکھیں اور مجھے یہ ساری سفارتی تاریخ یاد آ گئی۔

ہم ہنری کسنجر کو پاکستان کیوں نہیں بلاتے اور اس کی ان لوگوں سے ملاقات کیوں نہیں کراتے جنھوں نے 1971 میں ان کے دورے کا بندوبست کیا تھا یا وہ ان کے ساتھ چین گئے تھے اگر وہ تمام لوگ فوت ہو چکے ہیں تو بھی ان کے بچے زندہ ہوں گے‘ آپ ہنری کسنجر کی ان سے ملاقات کرائیں‘ امریکا اور چین کے سفیروں کو بھی بلائیں اور ہنری کسنجر کے اعزاز میں اسلام آباد میں تقریب کا اہتمام بھی کریں تاکہ پاکستان کی نئی نسل اور دنیا کو علم ہو سکے ہم کیسے کیسے تاریخی واقعات کے بانی ہیں۔

ہماری افغانستان کے ساتھ 70 سالہ رفاقت ہے‘ افغانوں کی دو نسلیںروسی یلغار کے بعد پاکستان میں پروان چڑھیں‘ آج بھی دنیا بھر میں ایسے لاکھوں افغانی خاندان اور بزنس مین موجود ہیں جو 1980 اور 1990 کی دہائی میں پاکستان کے ذریعے دنیا کے مختلف ملکوں میں پہنچے تھے‘ پاکستان نے انھیں پاسپورٹ تک دیے تھے مگر ہم نے رابطہ استوار کرنے کے بجائے انھیں اپنا دشمن بنا لیا اور یہ اب پاکستانیوں کو دیکھ کر اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔

مجھے چند برس قبل آسٹریلیا میں ایک افغانی ریستوران میں جانے کا اتفاق ہوا‘ ریستوران کا مالک قندہار سے تعلق رکھتا تھا‘ وہ پاکستان کے ذریعے آسٹریلیا آیا تھا اور پاکستانیوں سے شدید نفرت کرتا تھا‘ میرے ساتھ بھی اس نے بدتمیزی شروع کر دی۔

میں نے کھانے کے بعد اسے قہوے کی دعوت دی‘ اس نے بڑی مشکل سے دعوت قبول کی‘ میں نے قہوے کے دوران اس سے دو سوال کیے‘ ایک‘ کیا تم پاکستان سے آسٹریلیا آئے تھے؟ اس کا جواب ہاں میں تھا‘ میں نے اس کے بعد پوچھا اور اگر پاکستان اس وقت افغانوں کے لیے اپنی سرحدیں نہ کھولتا تو پھر تم اور تمہارا خاندان کہاں ہوتا؟ اس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔

میں نے اس سے کہا ہو سکتا ہے ہم پاکستانیوں کا تمہارے ساتھ رویہ اچھا نہ ہو لیکن ہم اس کے باوجود ان افغانوں سے بہتر تھے جن کی وجہ سے تم اپنا وطن چھوڑ کر پاکستان اور پھر آسٹریلیا شفٹ ہونے پر مجبور ہوئے‘ ہم نے کم از کم تم لوگوں کو قتل نہیں کیا۔

ہم نے تمہیں پناہ دی‘ تھوڑی ہی سہی لیکن خوراک بھی دی اور پھر آسٹریلیا جیسے ملکوں میں سیٹل ہونے کا موقع بھی فراہم کیا اور یہ تم پر پاکستان کا چھوٹا احسان نہیں ‘ آپ یقین کریں میں جب اس کے ریستوران سے نکلا تو اس نے مجھے گلے لگا کر رخصت کیا۔

پاکستان کے شمالی افریقہ کے تمام اسلامی ملکوں پر بھی بے تحاشا احسانات ہیں‘ مراکش ہو‘ تیونس ہو یا پھر الجیریا ہو ہم نے ان کی آزادی میں بہت اہم کردار ادا کیا ‘ ہم نے ان کی قیادت کو اپنے پاسپورٹس بھی دیے اور اقوام متحدہ میں اپنی سیٹ سے ان کے خطاب بھی کرائے ‘ پولینڈ سے لے کر جرمنی‘ عراق سے یو اے ای اور فلسطین سے لے کر اردن تک پاکستان کے احسانات کی طویل تاریخ ہے لیکن ہم اس کے باوجود آج سفارتی تنہائی کا شکار ہیں۔

کیوں؟ کیا ہماری سفارتی حماقتیں اس کی وجہ نہیں ہیں‘ کیا یہ ہمارا مارکیٹنگ فیلیئر نہیں ہے؟ ہم اگر کسی دن صرف امریکا کے لیے اپنی قربانیاں گننا شروع کردیں تو یقین کریں درجنوں کتابیں لکھی جا سکیں گی لیکن آج امریکا بھی ہم سے منہ موڑ کر بیٹھا ہے۔

کیوں؟ آج چین بھی ہم سے خوش نہیں ہے اور افغانستان‘ ایران اور وہ برادر عرب ملک بھی جن کے ہاتھ پکڑ کر ہم نے انھیں دنیا سے متعارف کرایا تھا‘ کیوں؟ کیا یہ ہماری سفارتی ناکامی نہیں ہے چناں چہ میری درخواست ہے آپ اگر ایک نیا معاشی ایجنڈا طے کر رہے ہیں تو آپ پلیز ایک سفارتی این او سی بھی طے کر دیں تاکہ ہم یک سو ہو کر دنیا کو اپنے قریب لا سکیں‘ یہ فاصلے اور یہ سفارتی حماقتیں ہمیں تنہائی کے قبرستان میں دفن کر دیں گی۔