دنیاکا بلند ترین صحرا

آسمان سے چاند غائب تھا‘ شاید چاند نے ذیقعد کی آخری تاریخوں کی وجہ سے نکلنا مناسب نہیں سمجھا تھا یا پھر وہ کسی پہاڑ یا کسی بادل کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا‘ وجہ کچھ بھی ہو سکتی تھی بہرحال وہ غائب تھا مگر شمال کی جانب پہاڑوں کے بالکل سامنے آسمان پر ایک ستارہ بار بار ٹمٹما رہا تھا‘ وہ شاید نارتھ اسٹار تھا یا پھر وینس زمین پر جھک کر حیرت سے دنیا کے اس بلند ترین ٹھنڈے صحرا کی پارٹی دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

ہمارے لیے اس ستارے کی روشنی کافی تھی‘ ہم 65 لوگ تھے‘ رات کے دس بج رہے تھے اور ہم اسکردو سے ذرا سے فاصلے پر شگر کے ٹھنڈے صحرا میں ڈنر کررہے تھے‘ آئی بیکس کے نوجوانوں نے عین صحرا میں ریت پر ڈنر کا بندوبست کیا تھا‘ کیمپ کے چاروں طرف مشعلیں روشن تھیں‘ درمیان میں بون فائر تھا‘ ایک سرے پر پچھلے چار سو سال سے تکے بھونے جا رہے تھے‘ سامنے بوفے ٹیبل لگا تھا‘ بائیں جانب لوکل گلوکار ہارمونیم اور ڈھولکی کے ساتھ بلتی گانے گا رہے تھے اور درمیان میں آگ کے دائیں بائیں ہم لوگ بیٹھے تھے اور ہمارے اوپر بالکل اوپر ستاروں کا تھال تھا‘ زندگی وہاں جا کر رک سی گئی تھی۔

ہم 65 لوگوں نے چھ دن اسکردو میں گزارے‘ ہمارا گروپ بائی روڈ ناران اور بابوسرٹاپ سے ہوتا ہوا اسکردو پہنچا تھا جب کہ ہم آٹھ لوگ جمعہ کو بائی ایئر اسکردو پہنچے‘ ہمارا پہلا دن شگر میں گزرا‘ شگر ویلی اسکردو سے 52کلومیٹرکے فاصلے پر ہے‘ ویلی دریائے سندھ کے ساتھ سنگلاخ اور خشک پہاڑوں کے درمیان واقع ہے‘ شگر ماضی میں آزاد ریاست ہوتی تھی‘ اس کا فرماں روا راجہ کہلاتا تھا‘ شگر کے ٹو کے راستے میں پڑتا ہے‘ مہم جو ٹیمیں یہاں سے ہو کر اسکولی پہنچتی ہیں‘ اسکولی علاقے کا آخری ٹاؤن ہے۔

مہم جو اس کے بعد جنگلوں‘ سنگلاخ پہاڑوں اور گلیشیئرز پر آٹھ دن پیدل چل کر بیس کیمپ تک پہنچتے ہیں‘ یہ لوگ ان آٹھ دنوں میں چار دن اور چار راتیں راستے اور پگھلتے گلیشیئر پر گزارتے ہیں‘ شگر کے راجاؤں کے چار سو سال پرانے محل میں اس وقت سرینا ہوٹل ہے‘ آغا خان فاؤنڈیشن نے محل کی ری پیئرنگ کر کے کمال کر دیا‘ محل کا ایک حصہ میوزیم بنا دیا گیا ہے اور دوسرے حصے میں رہائشی کمرے ہیں جب کہ اصطبل کے جھروکے میں کافی شاپ بنا دی گئی ہے۔

بیرونی دیواروں کے ساتھ گلیشیئر کا یخ ٹھنڈا پانی شور کرتا ہوا گزرتا ہے اور اس کا میوزک ہر وقت فضا میں رقص کرتا رہتا ہے‘ لانز میں چیری اور سیب کے درخت ہیں‘ چیری کے درخت سرخ پھلوں سے لدے ہوئے تھے‘ ہم سب نے درختوں سے چیری توڑ کر کھانی شروع کر دی‘ ہمارا لنچ سیب کے درختوں کے سائے میں تھا‘ دوپہر گرم تھی لیکن درختوں نے گرمی کا احساس چوس لیا تھا چناں چہ فضا میں ہلکی ہلکی خنکی محسوس ہو رہی تھی‘ شگر میں چارسو سال پرانی لکڑی کی مسجدخانقاہ معلی بھی ہے۔

مسجد کے ستون بیس فٹ اونچے ہیں اور ان پر کارونگ ہوئی ہے‘ ہال بلند اور اس کے گنبد پر بھی پچی کاری تھی‘ یہ نور بخشی مسجد تھی‘ اسکردو میں نور بخشی مکتبہ فکر اکثریت سے پایا جاتا ہے‘ یہ لوگ شاہ ہمدانؒ کے ہاتھوں چودھویں صدی میں مسلمان ہوئے ‘ خود کو صوفی کہلواتے ہیں‘ مرد ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں جب کہ خواتین ہاتھ باندھ کر عبادت کرتی ہیں‘ انتہائی دھیمے مزاج کے مہذب اور صاف ستھرے لوگ ہیں‘ بھیک اور بخشیش نہیں مانگتے‘ اونچی آواز میں گفتگو نہیں کرتے‘ نظریں نیچی رکھتے ہیں اور دوسروں سے فاصلے پر رہتے ہیں‘ ان کی سب سے زیادہ تعداد گانچھے ڈسٹرکٹ کے شہر خپلو میں رہتی ہے۔

وہاں 8سو سال پرانی چق چن مسجد بھی ہے‘ ہم نے خانقاہ معلی کا وزٹ بھی کیا اور اس کے بعد ہم صحرا میں آ گئے‘اسکردو میں دو بڑے صحرا ہیں کٹپانا صحرا2226میٹر سطح سمندر سے بلند ہے اوریہ ساڑھے نومربع کلو میٹرپر محیط ہے‘ دوسراسرفرانگاڈیزرٹ 2286میٹر بلند ہے‘ ہم سرفرانگا صحرا میں آ گئے‘ یہ تین اطراف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔

آپ اگر صحرا کے درمیان کھڑے ہوں تو آپ خود کو پیالے کے پیندے میں محسوس کرتے ہیں‘ پیالے کی تین سائیڈز میں پہاڑ ہیں جب کہ چوتھی سمت نیچے گہرائی میں دریائے سندھ خاموشی سے بہتا ہے‘ یہ مکمل طور پر صحرا ہے‘ دور دور تک ریت اور ریت کے اندر سے چٹانوں کے کوہان ابھر رہے ہیں‘ ہوا کے ساتھ ریت اپنی جگہ بھی بدلتی ہے اور دھول بن کر اڑتی بھی ہے‘ اسکردو کے نوجوان آصف مہدی نے اس صحرا کو رونق گاہ بنا دیا‘ اس نے نسٹ سے انجینئرنگ پڑھی اور اس کے بعد واپس آ کر صحرا میں ایک یونٹ سے پیرا گلائیڈنگ کی کمپنی بنا لی‘ یہ کمپنی اب ٹھیک ٹھاک کاروبار کر رہی ہے۔

ان کے پاس اب پیرا گلائیڈز بھی ہیں اور چھوٹے جہاز بھی‘ یہ لوگ جیپ سفاری بھی کراتے ہیں اور تین اور چار پہیے کے موٹر سائیکل (کواٹس) بھی چلاتے ہیں‘ ان کے پاس گھوڑے بھی ہیں‘ اسکردو آنے والے زیادہ تر مسافر صحرا کی ان سرگرمیوں کا لطف لیتے ہیں‘ شام کے وقت سرخ پہاڑوں کے درمیان اور سفید ریت کے اوپر پیرا گلائیڈنگ کا اپنا مزہ ہے‘ یہ حقیقتاً لائف ٹائم تجربہ ہوتا ہے‘ مغرب کے بعد یہ سرگرمی ختم ہو گئی تو ہم کوسٹرز پر صحرا کے اندر چلے گئے‘ ہم نے آصف مہدی کی مدد سے صحرا میں گروپ کے لیے ڈنر کا اہتمام کیا تھا‘ آصف مہدی نے ہمیں اپنی کہانی سنائی‘ اس نے کس طرح پڑھائی مکمل کی اور یہ کس طرح واپس آیا اور اس نے کس علاقے میں سیاحتی سروسز شروع کیں‘ یہ اب گیسٹ ہاؤسز بھی چلا رہا ہے۔

فوڈ کی ایک کمپنی بھی رن کر رہا ہے‘ ڈرائی فروٹس کا کاروبار بھی کرتا ہے‘ گائیڈ کی سروسز بھی دے رہا ہے اور صحرائی ایکٹوٹیز بھی چلا رہا ہے‘ ہم نے اپنی مدد کے لیے عبدالحنان کی خدمات حاصل کی تھیں‘ یہ نوجوان گائیڈ شان دار انسان ہے‘ ناپا سے تھیٹر کی ٹریننگ لی‘ شکل سے ایکٹر اور آواز سے گلوکار ہے‘ معلومات کا خزانہ بھی ہے اور اس کی شخصیت میں ہمدردی اور محبت بھی لبالب بھری ہے‘ یہ آصف مہدی کا دوست ہے۔

ان دونوں نے مل کر علاقے کا کلچر بدل کر رکھ دیا‘ ڈنر کے آخر میں آصف مہدی نے ساری لائیٹس‘ ساری مشعلیں بجھا دیں اور ہم گہرے اندھیرے میں گم ہو گئے‘ وہ لمحہ واقعی ہماری زندگی کا شان دار ترین لمحہ تھا‘ ہمارے چاروں طرف اندھیرا تھا جب کہ آسمان پر ستاروں اور کہکشاؤں کا دربار سجا ہوا تھا‘ ہم نے مدت بعد کھلی آنکھوں سے آسمان کے ستارے‘ سیارے اور کہکشائیں دیکھیں اور ہماری نبضوں نے دھڑکنا بند کر دیا‘ فضا میں اس وقت گہرا سناٹا اور جمود تھا‘ ریت اور ہوا کی آواز تک نہیں آ رہی تھی‘ دریا کی سسکیاں بھی ریت میں گم ہو چکی تھیں‘ اس وقت وہاں صرف ہم تھے‘ ہماری سانسیں تھیں اور دل کی بے مقصد آوارہ دھڑکنیں تھیں اور بس۔

اسکردو میں کنکورڈیا (Concordia)کے نام سے ایک پرانا ہوٹل ہے‘ یہ ہوٹل اسکردو کی سیاسی شخصیت کی ملکیت ہے‘ دنیا کے تمام نام ور مہم جو اور کے ٹو سر کرنے والی ٹیمیں اس میں رہائش پذیر رہیں‘ گورے مہم جو ہوٹل کے پرانے کمروں اور دریائے سندھ کے کنارے لوہے کی کرسیوں کے رومانس میں مبتلا ہیں‘ یہ یہاں چند دن ضرور گزارتے ہیں‘ ہوٹل کے مالک پیپلز پارٹی کے ایم این اے بھی رہے ہیں۔

ان کے ایک صاحب زادے ذوالفقار شگری نے ’’دی یاک ہوٹل‘‘ کے نام سے ہوٹل اورگرینڈکیفے کے نام سے شہر میں ایک کیفے بھی بنا رکھا ہے‘ ہمارا آدھا گروپ کنکورڈیا اور آدھا یاک ہوٹل میں رہا‘ میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کنکورڈیا اسکولی اور کے ٹو بیس کیمپ کے درمیان ایک اسٹاپ کا نام ہے‘ اس کیمپ سے دنیا کی 9بلند ترین چوٹیاں نظر آتی ہیں‘ ان میں کے ٹوبھی شامل ہیں‘ یہ دنیا کا شان دار ترین پکچر پوائنٹ ہے اور یہ مہم جوؤں کی ہر فلم میں دکھائی دیتا ہے‘ کنکورڈیا ہوٹل اس پوائنٹ کی یاد تازہ کرتا ہے‘ ذوالفقار شگری بھی شان دار انسان اور مہمان نوازی سے لبریز شخص ہے‘ اس نے جی جان سے ہماری خدمت کی‘ وہ گروپ کو دیکھ کر نہال ہو جاتا تھا‘ ہمارے ساتھ بزرگ خواتین اور مرد بھی سفر کرتے ہیں۔

ذوالفقار نے ان سب کو اپنا دادا اور دادی بنا لیا اور یہ بھی اس کے صدقے واری جانے لگے‘ ہمارے ساتھ فیصل آباد کی دو بزرگ پروفیسر بھی تھیں‘ یہ ریٹائر ہو چکی ہیں اور اپنی ریٹائرمنٹ ایج کو انجوائے کر رہی ہیں‘ میں ان دونوں کو لڑکیاں کہتا تھا تو یہ کھل کر قہقہہ لگاتی تھیں‘ ان میں ایک انگریزی کی پروفیسر تھیں جب کہ دوسری زنانہ کالج کی پرنسپل رہیں‘ ان دونوں نے نوجوان لڑکیوں کو بہت وقت دیا‘ ہمارے ساتھ اکیلی لڑکیاں بھی سفر کر رہی تھیں‘ ایک اوکاڑہ سے آئی اور دوسری اسلام آباد سے اور ان دونوں کو ان کے والدین نے بھجوایا تھا جب کہ ہمارے ساتھ دس فیملیز بھی تھیں یوں اس گروپ میں ہر سائز‘ عمر اور طبقہ فکر کا شخص شامل تھا اور یہ سب بلتستان کے کلچر اور لوگوں کو انجوائے کر رہے تھے۔

گروپ نے خپلو کے محل میں مجھے راجہ بنا دیا‘ میں بلتی ٹوپی پہن کر راجہ کے تخت پر بیٹھ گیا اور فیصل آباد کا نوجوان زبیراحمد میرا جلاد بن گیا‘ یہ ایجوکیشن کنسلٹنٹ ہے‘ فیصل آباد کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک بھجواتا ہے‘ بالوں پر استرا پھیر کر سر کو ہیلمٹ بنا لیتا ہے‘ ہلکی ہلکی داڑھی رکھی ہوئی ہے‘ داڑھی اور سفید پلین سر اسے بہت جچتا ہے اور یہ اطالوی فلموں کا ایکٹر محسوس ہوتا ہے‘ میرے اس جلاد نے پورے گروپ کو ہنسا ہنسا کر پاگل کر دیا جب کہ میں راجہ بن کر تخت پر بیٹھا رہا اور درباری ایک ایک کر کے میرے ساتھ تصویریں بنواتے رہے۔