ہم یہ بھی نہیں کہہ سکیں گے

میری چند دن قبل مشرقی یورپ کے ایک ملک کے سفیر سے ملاقات ہوئی‘ یہ ملک اس وقت تیزی سے ترقی کر رہا ہے‘ بیرونی سرمایہ کار وہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں‘ سیاحت بھی عروج پر ہے۔

دارالحکومت میں ہر سال تیس لاکھ سیاح پہنچ جاتے ہیں اور یہ وہاں دو ارب ڈالر خرچ کر جاتے ہیں‘ یونیورسٹیاں بھی انٹرنیشنل رینکنگ میں آ رہی ہیں اور زراعت اور ٹیکنالوجی میں بھی ترقی کر رہا ہے اور یہ ساری تبدیلی چند برسوں میں آئی۔

میری ملاقات کے دوران سفیر نے انکشاف کیا ’’ پاکستان میں یہ میری دوسری پوسٹنگ ہے‘ میں جنرل مشرف کے دورمیں بھی یہاں پوسٹ رہا‘ میں نے اس سے پوچھا‘ آپ کو دونوں ادوار میں کیا فرق محسوس ہوا؟

اس کا جواب بہت دل چسپ تھا‘ اس کا کہنا تھا جنرل مشرف ہم چار سفیروں کو گوادر لے گئے‘ جنرل نے وہاں سگار پیتے ہوئے کہا تھا‘ ایکسی لینسیز آپ اس جگہ کو دیکھ لیں‘ ہم یہاں دوسرا دبئی بنا رہے ہیں‘ آپ جب دوسری مرتبہ آئیں گے تو یہاں ہائی رائز بلڈنگز کا جنگل ہو گا‘ ٹرینز چل رہی ہوں گی‘ کیسینوز‘ بارز‘ ہوٹلزاور مساج پارلرز ہوں گے اور آپ کے ملکوں سے یہاں روزانہ فلائٹس آ رہی ہوں گی‘ ہم نے ان کی بات پر یقین کر لیا‘ پاکستان اس وقت واقعی ٹیک آف کرتا نظر آ رہا تھا۔

ہمارا خیال تھا پاکستان واقعی دس برسوں میںبہت آگے نکل جائے گا لیکن میں اٹھارہ سال بعد یہاں دوبارہ پوسٹ ہوا اور مجھے چند ماہ قبل گوادر جانے کا اتفاق ہوا تو یہ علاقہ وہیں تھا جہاں میں اسے چھوڑ کر گیا تھا‘ وہاں کوئی تبدیلی نہیں آئی‘ وہی پرانا فائیو اسٹار ہوٹل تھا اور وہ بھی بند تھا‘ شہر کی سڑکیں تنگ اور چھوٹی تھیں اور مجھے کسی جگہ جنرل پرویز مشرف کی ہائی رائز بلڈنگز‘ فائیو اسٹار ہوٹلز اور مساج پارلر نہیں ملے‘ شہر ماضی سے بھی دس بیس سال پیچھے چلا گیا تھا۔

مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوا اور میں نے سوچا یہ جگہ اگر ہمارے پاس ہوتی تو اب تک ہم اس سے سو ارب ڈالر کما چکے ہوتے‘ سفیر کا کہنا تھا آپ لوگوں میں بے تحاشا فنانشل پوٹینشل ہے‘ آپ کے پاس 650میل لمبی کوسٹل لائن ہے‘ کراچی سے نکلیں اور سمندر کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے ایران کے بارڈر تک چلے جائیں‘ پورا علاقہ جنت ہے ‘آپ کے پاس صحرا بھی ہیں‘ موہن جوداڑو‘ ہڑپہ اور ٹیکسلا جیسی سولائزیشنز بھی ہیں‘ دنیا کی 30 بلند ترین چوٹیاں بھی ہیں‘ صرف کے ٹو آپ لوگوں کو سالانہ دو چار بلین ڈالر کما کر دے سکتا ہے۔

گلگت بلتستان آپ کے سارے اخراجات اٹھا سکتے ہیں‘ آپ صرف گلگت اور کاشغر کے درمیان فری ٹریڈ شروع کر دیں‘ بلتستان کا فروٹ اور ڈرائی فروٹ چین جائے اور وہاں سے کپڑا اور ریشم آ جائے‘ آپ افغانستان اور ایران کے ساتھ ٹریڈ کھول لیں‘ میں حیران ہوں آپ سینٹرل ایشیا کیوں نہیں جاتے؟

سینٹرل ایشیا میں گیس اور پٹرول پانی کے بھاؤبک رہا ہے‘ آپ کے پہاڑوں سے دنیا کا مہنگا ترین منرل واٹر نکلتا ہے‘ پورا بلوچستان معدنیات سے بھرا پڑا ہے‘ آپ کے پنجاب میں آج بھی کروڑوں ایکڑ زمین بنجر ہے‘ آپ اسے آباد کیوں نہیں کرتے؟

اور میں حیران ہوں آپ کے پاس آبادی کے وسائل بھی ہیں‘ ہم یورپ کے لوگ پلمبر اور الیکٹریشن سے لے کر ڈاکٹر اور انجینئر تک امپورٹ کرنے پر مجبور ہیں جب کہ آپ لوگ 25 کروڑ ہیں‘ آپ اپنے لوگوں کو کارآمد کیوں نہیں بناتے‘ آپ ایک طرف ایٹمی طاقت ہیں اور دوسری طرف آپ آج تک بجلی اور گیس پوری نہیں کر سکے‘ ہم اس کو کیا سمجھیں؟۔‘‘

وہ بولتا چلا گیا اور میں شرمندہ ہوتا گیا‘ اس کی ہر بات درست اور سو فیصد سچ تھی‘ پاکستان بلاشبہ فیلیئر کی خوف ناک کیس اسٹڈی ہے‘ قدرت نے ہمیں ایک شان دار ملک دیا لیکن ہم سب نے مل کر اسے برباد کر دیا لہٰذا آج ملک میں فرسٹریشن کے سوا کچھ نہیں بچا‘ ہم اگر آج بھی عقل کر لیں‘ ہم اگر آج بھی سنبھل جائیں اور ملک کو دوبارہ پٹڑی پر لے آئیں تو ہم دس بیس برسوں میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے لیکن اس کے لیے ہمیں چند بڑے فیصلے کرنا ہوں گے‘ مثلاً ہم گوادر کی ساری پٹی کو بین الاقوامی بنا دیں۔

ہم یہ علاقہ بیرونی کمپنیوں کو دے دیں‘ کراچی سے لے کر ایران کی سرحد تک بیس نئے شہر بننے دیں اور یہ شہر ہر لحاظ سے بین الاقوامی ہوں‘ دبئی کی طرح ان میں مسجدیں بھی ہوں اور فائیو اسٹار ہوٹلز اور مالز بھی‘ ان کے قوانین بھی مختلف ہوں اور یہ ویزا فری بھی ہوں‘ دنیا کے کسی بھی کونے سے لوگ آئیں اور یہ پندرہ دن ان شہروں میں رہ سکیں‘ شہروں کی کرنسی ڈالر‘ یورو اور پاؤنڈ ہو‘ آپ اس ضمن میں مصر کے شہر شرم الشیخ کی مثال لے سکتے ہیں۔

مصر ہم سے زیادہ اسلامی ملک ہے لیکن شرم الشیخ مکمل طور پر دبئی ہے‘ ساحل کے ساتھ ساتھ ریزارٹ ہیں اور ان ریزارٹس میں دنیا جہاں کے سیاح بھرے ہوتے ہیں‘ وہاں ایک ماہ میں اتنے سیاح آ جاتے ہیں جتنے ہمارے ملک میں پورا سال نہیں آتے‘ یہ ویزا فری بھی ہے حتیٰ کہ اسرائیلی بھی ویزے کے بغیر شرم الشیخ جا سکتے ہیں‘ ہم اسی طرح اسکردو اور گلگت کو بھی گوادر کی طرح انٹرنیشنل اسٹیٹس دے سکتے ہیں‘ انھیں بھی انٹرنیشنل فلائٹس کے قابل بنا ئیں اور ویزا فری کر دیں‘ آغا خان فاؤنڈیشن نے ہنزہ اور اسکردو کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

آپ گلگت بھی آغا خان فاؤنڈیشن کو دے دیں اور اسے علاقے میں تبدیلیوں کا اختیار دے دیں‘ یہ علاقے کو بدل دے گی‘ چترال دنیا کا خوب صورت ترین علاقہ ہے‘ آپ اسے بھی انٹرنیشنل اسٹیٹس دے دیں‘ سڑکیں مکمل کریں اور ہوٹلز کی انٹرنیشنل چینز کو فری زمینیں دے دیں‘ یہ علاقہ بھی بدل جائے گا‘ کے ٹو کے بیس کیمپ تک پہنچنے کے لیے اسکولی سے پیدل آٹھ دن لگتے ہیں‘ آپ بیس کیمپ تک جیپ ٹریکس بنوا دیں اور کے ٹو سمٹ کو ویزا فری اور مفت کر دیں‘ پورا علاقہ بدل جائے گا۔

مجھے آج تک یہ نقطہ بھی سمجھ نہیں آیا ہم نے آزاد کشمیر کو عالمی سیاحوں کے لیے کیوں بند کر رکھا ہے اگر گورے جموں اور سری نگر جا سکتے ہیں تو ہم آزاد کشمیر کو سیاحوں کے لیے کیوں نہیں کھولتے؟ آپ اسے بھی کھول دیں اس سے بھی سرمایہ آئے گا‘ ہم ملک کو بودھ‘ سکھ اور ہندو یاتریوں کے لیے بھی آسان کیوں نہیں بناتے؟

آپ یاتریوں کو بھی ویزا فری انٹری دیں‘ ہزار ڈالر فیس رکھ دیں‘ یاتری ایئرپورٹ یا بارڈر پر ہزار ڈالر جمع کرائیں اور ایک ماہ کے لیے ویزا لے لیں‘ یہ اگر اسرائیل کی طرح پاسپورٹ پر مہر لگوانا چاہیں تو ٹھیک ورنہ آپ انھیں پیپر ویزا دے دیں‘حکومت انھیں ٹریک کرنے کے لیے اپنی سم بھی دے سکتی ہے‘ یہ ملک میں صرف یہ سم استعمال کر سکیں چناں چہ یہ ہر وقت حکومت کی نظر میں رہیں گے۔

میں آج تک حیران ہوں ہماری کروڑوں ایکڑ زمینیں کیوں بنجر پڑی ہیں؟ ہم یہ زمینیں زرعی یونیورسٹی کے طالب علموں میں تقسیم کیوں نہیں کر دیتے؟ طالب علم گریجوایشن کریں اور پچاس ایکڑ زمین لے لیں تاہم حکومت امریکا اور یورپ کی طرح مختلف علاقوں کو مختلف فصلوں کے لیے مخصوص کر دے‘ کسی علاقے میں صرف کماد کاشت کیا جائے‘ کسی میں گندم‘ کسی میں کپاس اور کسی میں چاول اور دالیں اور کسی میں گلاب‘ سرسوں اور پھل‘ زرعی گریجویٹس ان علاقوں میں صرف یہی فصلیں اگا سکیں اور ان کی پراڈکٹس بنا سکیں۔

ہم اسی طرح پراڈکٹس کے لیے بھی مختلف ڈسٹرکٹس کیوں نہیں بناتے؟ چین نے پورے ملک کو پراڈکٹس میں تقسیم کر رکھا ہے‘ وہاں ایک ضلع میں فرنیچر بن رہا ہے‘ دوسرے میں قالین‘ تیسرے میں ٹائلز‘ چوتھے میں لائٹس‘ پانچویں میں موٹر سائیکل‘ چھٹے میں گاڑیاں‘ ساتویں میں سائیکل اور آٹھویں میں نوڈلز ‘ چین کے ایک ضلع میں صرف ایک چیز بنتی ہے اور اس کی وجہ سے خام مال بھی سستا ہے‘ ورکرز بھی ٹرینڈ ہو چکے ہیں اور خریدار بھی پورے ملک میں ذلیل ہونے سے بچ جاتا ہے‘ ہم یہ بھی کیوں نہیں کرتے؟

ہم ملک کو پراڈکٹ کے لحاظ سے مختلف ضلعوں میں تقسیم کر دیں‘ اس ضلع میں صرف اسی پراڈکٹ کے ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ہوں‘ وہیں فیکٹریاں اور آؤٹ لیٹس ہوں اور وہیں ٹیکس جمع ہو‘اس پالیسی سے بھی ہنر مند اور پیداوار دونوں بہتر ہو جائیں گے‘ ہم اسی طرح ملک میں آج تک سیاسی استحکام بھی پیدا نہیں کر سکے‘ آج بھی وزیراعظم‘ صدر اور آرمی چیف کو معلوم نہیں اگلے الیکشن کب ہوں گے؟ ہم ایک ہی بار یہ مسئلہ بھی حل کیوں نہیں کر دیتے؟

یہ فیصلہ کیوں نہیں ہو جاتا ملک میں الیکشن صرف پانچ سال بعد ہوں گے اور وقت پر ہوں گے‘ اس دوران اسمبلیاں نہیں ٹوٹیں گی‘ حکومتیں بے شک روز تبدیل ہوتی رہیں‘ اس سے بھی ملک میں سیاسی استحکام آ جائے گا‘ دوسرا ہم آج تک عوام سے سڑکوں کا احترام بھی نہیں کرا سکے‘ قرآن مجید کی توہین سویڈن میں ہوتی ہے لیکن سڑکیں ہم اپنی بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں‘ کیوں؟ ہم ایک ہی بار یہ فیصلہ کیوں نہیں کرتے ملک میں کسی قیمت پر سڑک بند نہیں ہو گی‘ ایشو خواہ الیکشن کا ہو یا مذہبی تمام سڑکیں کھلی رہیں گی اور اگر کسی نے سڑک بند کرنے کی کوشش کی تو وہ پوری زندگی جیل میں بند رہے گا۔

اور میری آخری درخواست ہم موجودہ بیوروکریٹک سسٹم کے ساتھ بھی نہیں چل سکتے‘ ہمارا دفتری نظام منفی بھی ہے اور سست بھی‘ آپ نے اگرکسی دفتر سے ایک کاغذ لینا ہو تو آپ کی پوری عمر دفتروں میں خرچ ہو جاتی ہے مگر کاغذ نہیں ملتا‘ ہمیں یہ سسٹم بھی ختم کرنا ہوگا۔

حکومت اسمارٹ آفس بنوائے‘یہ خواہ سرکاری فیسیں بڑھا دے لیکن کام صرف ایک دن میں مکمل ہونا چاہیے‘ سائل کو دوسری باردفتر نہ آنا پڑے ‘ یہ ملک پھر چلے سکے گا ورنہ ہم اسی طرح ٹھڈے کھاتے کھاتے راستے ہی میں مارے جائیں گے اور مرتے مرتے یہ بھی نہیں کہہ سکیں گے ہم افغانستان سے بہتر تھے کیوں کہ افغانستان بھی اب ہم سے بہتر ہوتا چلا جا رہا ہے‘ یہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو رہا ہے۔