پاکستانی سرمایہ کار کے ساتھ کیا ہوا؟

ڈاکٹر شہزاد نسیم کا تعلق خانیوال سے تھا‘ والد معمولی سرکاری ملازم تھے‘ شہزاد نسیم نے سرکاری اسکولوں سے تعلیم حاصل کی‘ پشاور یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کی‘ نوکری کی کوشش کی‘ نوکری نہ ملی تو یہ تھائی لینڈ چلے گئےَ

1973 میں جب لی کوآن یو نے سنگاپور کو دنیا کا بہترین ملک بنانا شروع کیا تو یہ لی کوآن یو سے متاثر ہو کر سنگاپور چلے گئے‘ آسٹریلیا کی مشہور کنسٹرکشن کمپنی مائین ہارٹ (Meinhardt) نے اس زمانے میں سنگاپور میں کام شروع کیا تھا‘ یہ اس میں ملازم ہو گئے‘ محنتی انسان تھے‘ تیزی سے ترقی کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے کمپنی کے ایم ڈی بن گئے‘ کمپنی نے انھیں 1985میں پورے ایشیا کا ڈائریکٹر بنا دیا۔

کمپنی کے مالک بل مائین ہارٹ ان سے بہت متاثر تھے‘ اس نے انھیں اپنا بیٹا بنا لیا یوں یہ 1997 میں کمپنی میں شیئر ہولڈر بھی بن گئے‘ بل مائین ہارٹ کا 2003 میں انتقال ہوا تو کمپنی اس کی بیٹی کے حصے میں آگئی‘ اس نے چلانے کی کوشش کی مگر بزنس اس کے بس کی بات نہیں تھی چناں چہ اس نے کمپنی بیچنے کا فیصلہ کر لیا‘ میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں مائین ہارٹ کمپنی کرتی کیا ہے؟

یہ دنیا کی ٹاپ ٹین ڈیزائننگ فرمز میں شمار ہوتی ہے‘ یہ ائیرپورٹس‘ میٹروز‘ پورٹس‘ ہائی ویز‘ پل‘ واٹر سپلائی اسکیمیں‘ سیوریج سسٹم اور دنیا کی بلند ترین عمارتیں بناتی ہے‘ مائین ہارٹ نے ملائیشیا میں دنیا کی دوسری بلند ترین عمارت مرڈیکا (Merdeka) بنائی‘ یہ 118 منزلہ عمارت ہے‘ انڈونیشیا کی بلند ترین عمارت (Thamrin) بنائی‘ دوہا کا انٹرنیشنل ائیرپورٹ‘ مسقط ائیرپورٹ‘ چانگی ائیرپورٹ کا ٹرمینل ون اور دہلی اور ممبئی کے ائیرپورٹس سمیت بھارت کے 6 بڑے ہوائی اڈے بنائے‘ سنگا پور کی تمام اہم عمارتیں بھی اسی کمپنی نے بنائی ہیں۔

کمپنی میں 5 ہزار انجینئرز‘ آرکی ٹیکٹس اور ڈیزائنر ہیں‘ دنیا بھر میں 55 دفتر ہیں اور یہ سالانہ 25 ارب ڈالرز کے پروجیکٹس مکمل کرتی ہے‘ یہ دنیا کی 225 بڑی عالمی ڈیزائننگ فرمز کی رینکنگ میں 45 ویں نمبر پر آتی ہے۔میں اب دوبارہ واپس ڈاکٹر شہزاد نسیم کی طرف آتا ہوں‘ کمپنی کی نئی سی ای اونے فرم بیچنے کا فیصلہ کیا‘ کمپنی کے اثاثوں کا تخمینہ شروع ہوا تو اس نے ایک دن شہزاد نسیم کو بلا کر کہا ’’آپ یہ کمپنی کیوں نہیں خرید لیتے؟‘‘

شہزاد نسیم کاجواب تھا ’’میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے‘‘ کمپنی کی مالکن نے انھیں آفر کی‘ آپ کمپنی لے لیں اور مجھے کما کر قیمت ادا کرنا شروع کر دیں‘یہ پیش کش اچھی تھی لہٰذا سودا ہو گیا یوں ڈاکٹر شہزادنسیم نے کمپنی کا چارج لے لیا‘ یہ کماتے رہے اور قسطیں ادا کرتے رہے یہاں تک کہ 2010 میں ڈیل مکمل ہو گئی اور شہزاد نسیم کمپنی کے مختار کل بن گئے۔

پاکستان کے زیادہ تر اوورسیز بزنس مین دوسرے ملکوں میں کام یابی کے بعد ایک بار پاکستان ضرور آتے ہیں‘یہ کیوں آتے ہیں؟ اس کی تین وجوہات ہیں‘ یہ اپنی مہارت اور کام یابی کو اپنے ملک اور اپنے لوگوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتے ہیں‘ دوسری وجہ‘ یہ سمجھتے ہیں ان کا تعلق جس زمین کے ساتھ تھا اس زمین کاان پر قرض ہے لہٰذا انھیں یہ قرض ادا کرنا چاہیے اور تیسری وجہ‘ پاکستانی سیاست دان اور بیوروکریٹس ہر کام یاب اوورسیز پاکستانی کو سبز باغ دکھاتے ہیں‘ یہ اس باغ کو سچ مان لیتے ہیں‘ ملک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور پھر پھنس جاتے ہیں‘ یہ لوگ انھیں یہ بھی بتاتے ہیں آپ نے اگر اپنے ملک کی خدمت نہ کی تو آپ دنیا اور آخرت میں اللہ کو کیا جواب دیں گے؟

ڈاکٹر شہزاد نسیم کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ حکومت پاکستان‘ سیاسی لیڈرز اور بیوروکریٹس نے انھیں بھی ’’غیرت‘‘ دلانا شروع کر دی‘ ان کے خون نے جوش مارا اور انھوں نے 2006میں پاکستان میں 300 ملین ڈالرز کے تین بڑے پروجیکٹس شروع کر دیے‘ یہ تینوں پروجیکٹس کراچی میں تھے‘ ان میں سپر لگژری ٹوئن ٹاورز بھی تھے‘ 6 اسٹار کلب بھی تھا اور ہائی رائز لگژری ٹاور بھی ‘ یہ پاکستان آئے تو 2007 اور 2008 میں بم دھماکے شروع ہو گئے۔

کراچی میں چینیوں پر حملے ہونے لگے لہٰذا شہزاد نسیم کا چینی کنٹریکٹر اپنے ملازمین سمیت واپس چلا گیا یوں پہلے ہی ہلے میں ان کے ایک ارب روپے ڈوب گئے‘ یہ ابھی اس جھٹکے سے نہیں سنبھلے تھے کہ ان کے خلاف مقدمات شروع ہو گئے‘ کبھی ایک شخص عدالت چلا جاتا اور کبھی دوسرا پولیس یا ایف آئی اے کو درخواست دے دیتا‘ عدالتی کارروائیوں کی وجہ سے ان کی بینک گارنٹیز ڈوب گئیں‘ اس دوران نیب کا کیس بھی بن گیا اور یہ نیب کی پیشیاں بھی بھگتنے لگے‘ نیب ایکٹو ہوا تو ایف آئی اے بھی پوری طرح میدان میں کود پڑا اور یوں مقدمے اور پیشیاں ہوتی چلی گئیں۔

حکومت پاکستان نے اسی دوران انھیں ستارہ امتیاز سے نوازا‘ یہ حکومت کی طرف سے ان کی کام یابی اور خدمات کا اعتراف تھا‘ حکومت ان سے ایک طرف اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی میں میگا پروجیکٹس شروع کرنے کی درخواست کر رہی تھی‘ یہ ان سے پاکستان کا پہلا اسمارٹ سٹی بنوانا چاہتی تھی‘ ان سے اسلام آباد کا ائیرپورٹ اور راوی ریور ڈویلپمنٹ کے ماسٹر پلان بنوا رہی تھی اور دوسری طرف ان کے اوپر مقدمات پر مقدمات بنتے چلے جا رہے تھے‘ انھیں ایک طرف ستارہ امتیاز دیا جا رہا تھا اور دوسری طرف یہ ملزم بن رہے تھے‘ ان کا بیٹا جو اس وقت مائین ہارٹ کمپنی کا سی ای او بھی ہے وہ کراچی نہیں آ سکتا‘ کیوں کہ اس کے خلاف مقدمے بن چکے ہیں اور وہ پولیس اور ایف آئی اے کو مطلوب تھا۔

آپ اب صورت حال ملاحظہ کیجیے‘ شہزاد نسیم ایک طرف دنیا کے 55 ملکوں میں بزنس کر رہے ہیں‘ پاکستانی اوریجن ہونے کے باوجود بھارت نے انھیں لانگ ٹرم ویزے دے رکھے ہیں اور یہ وہاں اربوں روپے کے پروجیکٹس کر رہے ہیں‘ کمپنی آسٹریلیا سے لے کر برطانیہ تک سیکڑوں پروجیکٹس پر کام کر رہی ہے اور یہ سالانہ 25 بلین ڈ الرز (ہماری کل برآمدات 16 بلین ڈالرز ہیں) کے منصوبے مکمل کرتی ہے جب کہ دوسری طرف یہ اپنے ملک میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔

یہ ایک طرف ملک کے تیسرے بڑے ایوارڈ ہولڈر ہیں اور دوسری طرف یہ پولیس‘ ایف آئی اے اور نیب کو مطلوب ہیں‘ یہ ایک طرف سنگا پور میں پاکستان ایمبیسی کے سب سے بڑے ڈونر ہیں‘ حکومت سیلاب سے لے کر زلزلہ زدگان تک کے لیے ان سے امداد طلب کرتی ہے اور دوسری طرف پاکستانی عدالتوں میں ڈاکٹر شہزاد نسیم حاضر ہو کی آوازیں لگ رہی ہیں چناں چہ ہم اگر شہزاد نسیم کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی خوف ناک ترین مثال قرار دیں تو یہ غلط نہیں ہوگا۔

میں یہ نہیں کہتا ڈاکٹر شہزاد نسیم سو فیصد سچے ہیں اور ٹھیک ہیں‘ ہو سکتا ہے ان کی طرف سے بھی غلطیاں ہوئی ہوں لیکن کیا ریاستوں کا کام سرمایہ کاروں کو اس طرح ذلیل کرنا ہوتا ہے؟ ریاستیں ایسے معاملے میں بار بار مذاکرات کرتی ہیں‘ یہ پارٹیوں کو بٹھاتی ہیں اور ان کے مسئلے حل کرتی ہیں‘ یہ سرمایہ کاری کو اس طرح پولیس اسٹیشنوں میں ضایع نہیں کرتیں‘ آپ خود فیصلہ کیجیے شہزاد نسیم ایک بڑا کاروباری نام ہیں اگر ان کے ساتھ اپنے ملک میں یہ سلوک ہو گا تو کیا غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے؟

مجھے یقین ہے یہ شخص اگر کسی دوسرے ملک کا شہری ہوتا تو وہ ملک اسے سرمایہ کاری کا سفیر‘ وزیر یا مشیر بنا دیتا اور اس کی مدد سے عالمی سرمایہ کاروںکو اپنی طرف متوجہ کرتا جب کہ ہم نے اسے عبرت کی نشانی بنا دیا‘ ہم نے اس کی نیکی کو اس کے لیے سزا بنا دیا۔

حکومت نے ملک میں سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے 20 جون کو اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل بنائی ہے‘ اس کا مقصد دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف متوجہ کرنا ہے‘ کونسل میں سول اور ملٹری دونوں قسم کے اہلکار موجود ہیں اور بظاہر حکومت اور فوج دونوں فریق اس بار سیریس دکھائی دیتے ہیں‘ ہمیں یہ قدم بہت پہلے اٹھا لینا چاہیے تھا‘ بہرحال دیر آید درست آیدتاہم میری کونسل سے درخواست ہے سرمایہ کاری کے کھیل میں مقامی سرمایہ کار اور اوورسیز سرمایہ کار سب سے اہم ہوتے ہیں‘ باقی دنیا ان کے بعد ملکوں کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔

آپ اگر ملک کو سرمایہ کاری کے لیے کھولنا چاہتے ہیں تو آپ سب سے پہلے اپنے مقامی اور اوورسیز پاکستانی سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کریں اگر یہ لوگ سرمایہ کاری کے لیے تیار ہو گئے تو پھر باقی دنیا کے سرمایہ کار بھی آ جائینگے لیکن اگر شہزاد نسیم جیسے لوگ گلے میں ستارہ امتیاز ڈال کر بھی پولیس‘ نیب اور ایف آئی اے سے چھپتے پھریں گے تو پھر یہاں کون آئے گا چنانچہ میری اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل سے درخواست ہے ڈاکٹر شہزاد نسیم آپ کے لیے ٹیسٹ کیس ہیں‘ آپ ان سے رابطہ کریں‘ ان کی سنیں‘ انھیں مطمئن کریں‘ ان سے ان کے پروجیکٹس مکمل کرائیں اور پھر انھیں سرمایہ کاری کا مشیر یا گلوبل انویسٹمنٹ ایمبیسیڈر بنا دیں تاکہ یہ دنیا کو پاکستان کی طرف متوجہ کریں۔

آپ ان سے ائیرپورٹس بھی بنوا سکتے ہیں‘ نئے شہر بھی ڈویلپ کر ا سکتے ہیں اور اسلام آباد کے بلیو ایریا کو ’’بزنس ڈسٹرکٹ‘‘ میں بھی تبدیل کرا سکتے ہیں‘ ملکوں کی ترقی کا یہ راستہ ہوتا ہے لیکن ہمیں یہ راستہ لینے کے لیے اپنی حماقت اور انا ترک کرنی پڑیگی اور ہم ظاہر ہے اپنے ان اثاثوں سے محروم نہیں ہونا چاہتے چناں چہ ہماری مرغیاں دوسروں کے گھروں میں انڈے دے رہی ہیں اور ہم چارپائی پر بیٹھ کرپچ پچ کر کے دوسروں کے مرغوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔